کمرے سے پہلے قالین وہ بھی پھٹی ہوئی

Education

Education

تحریر: حذب اللہ مجاہد
یہ معاشرے کی ایک مسلمہ اصول ہے کہ پہلے ایک کمرے کو مکمل تیار کیا جاتا ہے جب کمرہ مکمل تیار ہوجاتا ہے پھر اس میں قالین بچھائے جاتے ہیں اور رہائش اختیار کی جاتی ہے گر کوئی شخص کمرہ بنانے سے پہلے ہی قالین بچھادے اور کسی کو کہے کہ آکر میرے محل میں بیٹھ جائو اور اس شخص کو کھلے آسمان تلے بچھے قالین پر بٹھا کرپھر قالین کے ارد گرد کمرہ بنانا شروع کردے تو معاشرے میں اس قسم کا شخص ذہنی مریض تصور کیا جاتا ہے مگربلوچستان حکومت نے جب تعلیمی ایمر جنسی کے نفاذ کے اعلان کیا اور اس کے بعدکمرہ بنانے سے پہلے قالین بچھانے کے مترادف تمام زمینی حقائق اور بنیادی تعلیمی مسائل کو نظر انداز کرکے تعلیمی ایمرجنسی کے حقیقی نفاذ کے دعوے کے ساتھ اس دفعہ تمام امتحانی مراکز میں نقل کے خاتمے کیلئے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کا اعلان کیا اور نقل کے خلا ف اخبارات میں بھر پور مہم چلائے گئے۔ اس بات سے کوئی بھی باشعور انسان انکار نہیں کر سکتا کہ نقل وہ دیمک ہے جو ہمارے نوجو ان نسل کو اندرسے کھوکلا کررہی ہے اوران کی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر ر ہی ہے جس کی وجہ سے ہمارے نوجوان تعلیم یافتہ بننے کے بجائے صرف امتحان پا س کرنے والے مشین بن جاتے ہیں مگریہاں ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ ایک طالب علم نقل کیوں کرتا ہے اورکیا دیگر بنیادی تعلیمی مسائل کے خاتمے کے بغیر نقل کا خاتمہ ممکن ہے یا نہیں کیونکہ بلوچستان میں نقل کے علاوہ اور بھی کئی تعلیمی مسائل ہیں جن کو حل کئے بغیر نقل کے خاتمے کا خوا ب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

بلوچستان کے دور دراز کے علاقوں میں اسکولیں تدریسی سرگرمیوں کے بجائے بھیڑ، بکریاں اور گائے، بھینس بھاندنے کیلئے یا پھر شادی بیاہ کی تقریبات کیلئے استعمال ہوتے ہیں کئی علاقوں میں اسکولیں فوجی مورچوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں ایسے علاقوں میں اساتذہ مہینوں تک اسکول کی شکل دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے ہیں جبکہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہوتے ہیں اگر شہری علاقوں میں کہیں اسکولوں میں تدریسی سرگرمیاں ہوتی ہیں اور اساتذہ اسکول تو جاتے بھی ہیں مگر انہی سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانا گوارا نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھاتے ہیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ سرکاری اسکولوں میں اس معیار کی تعلیم نہیں دی جاتی ہے کہ کوئی طالب علم آگے جاکر دنیا کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے،بلوچستان کے طول و عرض میں کئی کالجوں کے طلباء اساتذہ کی را ہ تک رہے ہیں اور انکا قیمتی وقت اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہورہا ہے، طبقاتی نظام تعلیم بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ یہاں امیر کے بیٹے کی اسکول میں میوزک کی پیریڈ ہوتی ہے تو غریب کے بیٹے کی اسکول میں ڈھنگ کی ٹاٹ بھی نہیں کہ وہ اس پر بیٹھ کر پڑھ سکیں ، بلوچستان میں اعلی تعلیمی ادارے بھی گنتی کے ہیں مگر ان کے بھی طلباء وقتا فوقتا مسائل کے حل کیلئے سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں اور ان ہی اعلی تعلیمی اداروں سے ڈگری کے حصو ل کے بعد کوئی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے طلباء سالوں سال بے روزگار گھومتے رہتے ہیں ، بلوچستان میں ایک ہی تعلیمی بورڈ ہے مگر اس کا معیار بھی یہ ہے کہ ایک سینٹر میں امتحان دینے والے تمام طلباء اسلامیات کے پرچے میں فیل ہوجاتے ہیں تو ایک سینٹر کے تمام طلباء فزکس پریکٹیکل میں فیل ہوجاتے ہیں اور ان کے پرچے نتائج سے پہلے بغیر چیک ہوئے تندوروں اور پکوڑے کی دکانوں پر پائے جاتے ہیں ، اس بورڈ کا معیار یہ ہے کہ اعلی تعلیمی اداروں میں نشستوں کے حصول کیلئے امیروں کے بیٹوں کی ڈگریاں ایک نوٹ کی گھڈی کے بدلے 45%سے 75%میں تبدیل ہوجاتے ہیں غریب کا بیٹا بھاڑ میں جائے ، بلوچستان میں نصاب تعلیم آج بھی وہی ہے جو شاید ہمارے دادا پڑھتے ہوں گے ہمیشہ چند سالوں کے بعد پرانی بوتل میں نئی شراب کے مترادف صرف سرورق تبدیل کردی جاتی ہے مگر اندر وہی پرانی اسباق ہیں۔

Government School

Government School

تو حکومت کو چاہیے کہ وہ کمرے کی تعمیر سے پہلے قالین بچھانے والی کہانی دھرانے کے بجائے پہلے بلوچستان کے دیگر تعلیمی مسائل پر بھی توجہ دیں اور ان کے حل کیلئے اقدامات کریں،دور درا زکے علاقوں کے ان اسکولوں کو فعال بنانے کیلئے موثر اقدامات کریں جن میں بچے نہیں پڑھتے بلکہ بھیڑ بکریاں باندھ دی جاتی ہیں ، تما سرکاری اسکولوں میں تعلیم کی معیار کو اس سطح پر لایا جائے کہ وزراء بھی اپنے بچو ں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانے کو ترجیح دیں ، طبقاتی نظام تعلیم کا مکمل خاتمہ کرکے تمام طبقوں کیلئے یکساں تعلیم کا نظام رائج کیا جائے ، اعلی تعلیمی اداروں کے تمام مسائل حل کئے جائیں اور ان اداروں سے فارغ ہونے والے طلباء کیلئے روزگارکے مواقع پیدا کرنے کیلئے مناسب منصوبہ بندی کی جائے تاکہ کوئی بھی نوجوان اعلی تعلیم کے حصول کے بعد بے روز گار نہ رہے ، نصاب تعلیم کو دور جدید کے تمام تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے ،بلوچستان بھر کے کالجوں میں اساتذہ کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے تاکہ طلباء کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو، بورڈ آف انٹر میڈٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سمیت تمام تعلیمی اداروں سے بد عنوانی کا مکمل خاتمہ کیا جائے ، پورے بلوچستان میں نئے تعلیمی اصلاحات کئے جائیں اوراز سر نو ایک کار آمد تعلیمی انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے ، تمام تعلیمی اداروں کو بنیادی سہولیات فرہم کئے جائیں اور اس کے بعد حکومت نقل کے خاتمے کیلئے کوئی قدم اٹھائیں تو اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔

ویسے بھی بلوچستان حکومت کمرے سے پہلے قالین بچھانے کے مترادف نقل کے خاتمے کا جوواویلہ کر رہا ہے وہ بھی صرف اخباروں میں اشتہارات تک ہی نظر آیا ہے کیونکہ نقل سب سے پہلے حکومت کے بغل سے آرچر روڈ کے گوداموں سے اگتی ہے وہاں سے امتحانات سے پانچ دن قبل تک بھی پورے بلوچستان میںامتحانی گائیڈ سپلائی ہوتے رہے ہیں اب پیپر سے دو دن پہلے مارکیٹ میں آنے والی گائیڈ بک کا مقصد مطالعہ کرنا ہر گز نہیں ہوتا، اس کے علاوہ حکومت امتحانی ہالوں میں سی سی ٹی وی کیمروں کی جورٹ لگا رہی تھی اس کا بھی پول امتحانات کے شروع ہوتے ہی کھل گیا ہے۔

اب پہلے کے حکومتی دعووں اور اب کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا ہر گز غلط نہ ہوگا کہ بلوچستان حکومت کا تعلیمی ایمرجنسی سے لیکر نقل کے خاتمے کے دعوے تک کی مثال یوں ہے کہ آپ کسی کو یہ کہیں کہ اگر وہ آپ کے ساتھ چلیں گے تو آپ اس کو اپنے محل میں بٹھائیں گے اور منزل پر پہنچ کر آپ اس کو کھلے آسمان تلے ایک قالین بچھاکر بٹادیں اور وہ بھی پھٹی ہوئی قالین۔۔۔

Hizbullah Mujahid

Hizbullah Mujahid

تحریر: حذب اللہ مجاہد