‘روس جنگ نہیں چاہتا’، پوٹن کی جرمن چانسلر کو یقین دہانی

Wladimir Putin

Wladimir Putin

یوکرائن (اصل میڈیا ڈیسک) یوکرائنی بحران پر بات چیت کے لیے جرمن اور روسی رہنماؤں نے منگل کے روز ماسکو میں ملاقات کی۔ دونوں نے یورپی سکیورٹی تنازعات کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کے لیے کوشش جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کی۔

جرمن چانسلر اولاف شولس پیر کے روزکیف میں یوکرائن کے صدر ولادومیر زیلنیسکی سے ملاقات کے بعد منگل کو ماسکو پہنچے تھے۔کیف میں انہوں نے یوکرائن پرروسی جارحیت کی صورت میں اسے برلن کی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔

شولس نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے بعد کہا، ” سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بہتر مذاکرات کے ذریعہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات برقرار رکھیں۔ ”

جرمن چانسلر نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “سربراہان مملکت کے طور پر یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ یورپ میں جنگ کی آگ تیز نہ ہونے پائے۔” انہوں نے مزید کہا کہ روس اور جرمنی کے یورپی شراکت داروں کے ساتھ اعلیٰ سطحی مذاکرات استحکام کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔

شولس نے یوکرائن کی سرحد پر فوج کی تعیناتی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایک خطرہ کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔انہوں نے تاہم کہا، “ہم اب یہ سن رہے ہیں کہ بڑی تعداد میں فوج کو واپس بلایا جارہا ہے جو کہ ایک مثبت اشارہ ہے اور ہمیں مزید بہتر امید رکھنی چاہیے۔”

شولس کا کہنا تھا، ” یورپ کے لیے یہ واضح ہے کہ دیرپاسکیورٹی روس کے خلاف کارروائی کرکے نہیں بلکہ روس کے ساتھ مل کر ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔”

پوٹن کا کہنا تھا کہ جرمنی روس کا ایک اہم ترین پارٹنر ہے اور وہ برلن کے ساتھ تعاون میں اضافہ کرنے کا خواہش مند ہے۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کے کردار پر بھی زور دیا اور کہا کہ جرمنی، چین کے بعد روس کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔

پوٹن نے کہا، “ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں۔”

یوکرائنی بحران کے مدنظرجنگ کے امکان کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں روسی صدرنے کہا،”ہم یورپ میں جنگ نہیں چاہتے۔”

روسی صدر نے اس سلسلے میں شولس کے اس بیان کا حوالہ دیا جس میں جرمن چانسلر نے کہا تھا کہ اس نسل کے لوگوں کے لیے یورپ میں کسی جنگ کا تصور بہت مشکل ہے۔

پوٹن نے کہا، “یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی تجاویز رکھی ہیں تاکہ نیٹو میں ہر ایک کے لیے یکساں سکیورٹی کے متعلق بات چیت کا عمل شروع ہو سکے۔ ” انہوں نے مزید کہا،” نیٹو میں ہمارے دیگر ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ممالک کو اس فوجی اتحاد میں شامل ہونے کا حق ہے، لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک ملک کی سکیورٹی کی قیمت دوسرے ملکوں کی سکیورٹی کو نہ چکانی پڑے۔”

روسی صدر کا کہنا تھا،”ہم بات چیت کے عمل کو جاری رکھنے کے خواہش مند ہیں۔”

امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز کہا کہ یوکرائن کے بحران کو سفارت کاری کے ذریعہ حل کرنے کا اب بھی وقت ہے لیکن متنبہ کیا کہ اگر روسی فوج حملہ کرتی ہیں تو ماسکو کو پابندیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

بائیڈن کا کہنا تھا کہ روس کی طرف سے حملے کا اب بھی قوی امکان ہے اور اگر وہ یوکرائن پر حملہ کرتا ہے تو امریکا اس کا فیصلہ کن جواب دینے کے لیے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ روس کے دعوے کے باوجود امریکا اوراس کے اتحادی ابھی اس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ آیا ماسکو نے واقعی اپنے کچھ فوجی یوکرائن کی سرحد سے ہٹا لیے ہیں۔

قبل ازیں روس کی وزارت دفاع نے اعلان کیا تھا کہ یوکرائنی سرحد پر تعینات اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج میں سے کچھ کو واپس بلا رہا ہے۔