سعودی عرب بھی اسرائیلی اماراتی معاہدے میں شامل ہو گا، ٹرمپ پرامید

Mohammed bin Salman - Benjamin Netanjahu

Mohammed bin Salman – Benjamin Netanjahu

واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امید ہے کہ سعودی عرب بھی اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین گزشتہ ہفتے طے پانے والے معاہدے میں شامل ہو کر اسرائیل کے ساتھ آئندہ معمول کے سفارتی تعلقات اور ایک نیا وسیع تر رشتہ قائم کر لے گا۔

واشنگٹن سے جمعرات بیس اگست کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق صدر ٹرمپ نے یہ بات بدھ انیس اگست کی رات وائٹ ہاؤس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہی۔ صحافیوں کے ساتھ اس گفتگو میں امریکی صدر سے پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ یہ توقع کرتے ہیں کہ عرب دنیا اور خلیجی خطے کی سب سے بڑی سیاسی طاقت سمجھا جانے والا سعودی عرب بھی آئندہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین طے پانے والے معاہدے میں شامل ہو جائے گا؟ اس پر ڈونلڈ ٹرمپ کا جواب تھا، ”ہاں، میں پرامید ہوں۔‘‘

اسرائیلی اماراتی معاہدے کے لیے ثالثی امریکی صدر ٹرمپ نے ہی کی تھی۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے کے مزید فلسطینی علاقے اپنے کچھ عرصہ پہلے تک کے ارادوں کے برعکس اپنے ریاستی علاقے میں شامل نہیں کرے گا۔

ساتھ ہی اس معاہدے میں علاقے کی ایک بڑی طاقت ایران کی مشترکہ مخالفت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اسرائیل، امریکا اور متحدہ عرب امارات ایران کو مشرق وسطیٰ کے خطے کے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔

ریاض میں سعودی حکمران اسرئیلی اماراتی معاہدے کے بعد پہلے تو چند روز تک بالکل خاموش رہے تھے۔ پھر اس بارے میں ریاض کا پہلا سرکاری تبصرہ سعودی وزیر خارجہ کا ایک بیان تھا، جو انہوں نے بدھ انیس اگست کے روز دیا۔

سعودی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ قیام امن کا تہیہ کیے ہوئے ہے، جس کی بنیاد عرب دنیا کی طرف سے 2002ء میں منظور کی جانے والی امن پیش رفت ہو گی۔

دنیا کے کئی دیگر مسلم ممالک کی طرح سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین ابھی تک کوئی باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے کیونکہ ان ممالک نے اسرائیلی ریاست کو تاحال باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔

اسرائیل کے ساتھ اب تک صرف چار مسلم ممالک نے معاہدے کیے ہیں۔ یہ ممالک ترکی، مصر، اردن اور اب متحدہ عرب امارات ہیں۔

سعودی عرب نے آج سے 18 سال قبل کئی دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی پیش رفت تشکیل دی تھی، جسے ‘عرب امن پیش رفت‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس دستاویز کی صورت میں عرب ممالک نے اسرائیل کو پیش کش کی تھی کہ اگر وہ ان علاقوں سے پوری طرح نکل جائے جن پر اس نے 1967ء کی عرب اسرائیلی جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا اور ساتھ ہی فلسطینیوں کی اپنی ایک باقاعدہ ریاست بھی قائم ہو جائے، تو وہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے پر تیار ہوں گے۔

بدھ کی رات وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیلی اماراتی معاہدہ ایک ‘اچھا معاہدہ‘ ہے اور ”اس میں ایسے ممالک بھی شمولیت کے خواہش مند ہیں، جن کے نام سن کر آپ کو یقین ہی نہیں آئے گا۔‘‘ صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کے خواہش مند ان ممالک میں سے سعودی عرب کے سوا کسی بھی دوسرے ملک کا نام لے کر ذکر نہ کیا۔