پیشے سے منافقت

Soul

Soul

کیا آپ کامیابی کی طرف گامزن ہیں ؟ اس جواب کیلئے ہر انسان اپنے ضمیر سے بر سر پیکار ہے مگر کیا ہم اپنے تجویز کردہ پیشے سے مخلص ہیں ؟پیشہ آپکا ایسا دوست ہے جس کے ساتھ آپ دل وجان سے مخلص نہیں تو کامیابیایک انسان سے اپنے چہرہ پھیر لیتی ہے اگر آپ اپنے پیشے کی حقیقی روح کو بائی پاس کر رہے ہیں تو آپ اپنے ایک ایسے ساتھی کو دھوکہ دے رہے ہیں جس کے بغیر آپکی ذات نامکمل ہے پیشہ آپ کے ساتھ حقیقی رشتے کی طرح جڑا ہوا ہے پیشے کے ساتھ مخلص ہونے کی پہلی شرط ایمانداری ہے ،فرض شناسی ہے۔

مگر آج جب ہم اپنے ضمیر کو سامنے بٹھا کر اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں تو اپنے آپ کو اُن اوصاف حمیدہ سے محروم پاتے چلے جاتے ہیں جو پیشے کے حوالے سے ہمارا قد اونچا کرتے ہیں معاشرے میں ایک مقام پر فائز کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں ناکامی ہر اُس شخص کا منہ چڑا رہی ہے جو اپنے پیشے سے غداری کا مرتکب ہو رہا ہے اور ہر وہ شخص جو اپنے پیشے سے مخلص نہیں وہ مادر وطن کے ساتھ مخلص نہیں وہ اس طبقے کا استحصال کر رہا ہے جو اس کے پیشے سے براہ راست وابستہ ہے وہ ریاست کے مفادات کو ذاتی مفادات پر قربان کر رہا ہے۔

جب ذاتی مفادات کا قد ریاست کے مفادات سے بڑا ہو جائے تو آپ اپنی ریاست کے نہیں اپنی اُس ماں کے وجود کی نفی کرتے ہیں جس کی کوکھ سے آپ کے وجود نے جنم لیا ، پیشوں کے احترام کی اکائی ٹوٹنے لگے ،ذاتی مفادات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ ریاست کے مفادات کا قتل عام شروع ہو جائے تو ریاستیں ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں اور یہ ایسے ہی ہے جیسے شیر خوار کیلئے اپنی ماں کی گود باقی نہ رہے ہم اُس نہج پر پہنچ چکے ہیں ہر فرد اپنے پیشے کو ذاتی مفاد کا نام دینے لگا ہے اپنے اس موقف کے دفاع کیلئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے وطن کے ہر باسی کے ذہن کی سکرین پر پیشے کے ساتھ مخلص ہونے کا مقصد ذاتی مفاد بن کر اُبھر رہا ہے۔

مرز ا یعقوب کے ہمراہ ایک محب وطن فرد ڈاکٹر ظفر ملغانی کے ساتھ ہونے والی ملاقات اسی سوچ کے پس منظر کو میرے سامنے گھسیٹ لائی اُن کی بحث کی شدت ،اُن کے تاثرات ایک خالصتاً پاکستانی کے تھے میں یہ سوچنے لگا کہ کیا بطور صحافی ہم نے اپنے پیشے کی عظمت کا ادراک کیا یقیناً نہیں کیا بطور صحافی ہم نے صحافتی اقدار کو جلا بخشی اس کا جواب بھی نفی میں آئے گا آج صحافی وہاں کھڑا ہے جہاںتا حد نظر مفادات کی بساط بچھی ہوئی ہے اور اُس کے ذاتی مفادات کوجہاں بھی زک پہنچی اُس نے صحافتی اقدار کا جنازہ نکال دیا۔

اُس نے معاشرتی ،سماجی ،اخلاقی اقدار کا گلا گھونٹنے میں ہی عافیت سمجھی ذاتیات کے خول میں مقید ہو کر شرافت کو دیس نکالا دے دیا بنت حوا جس کے تقدس کی وہ قسمیں کھاتا ہے اُس کی وہ بولی لگا رہا ہے کبھی پنجرے میں بند کر کے اور کبھی کفن پہنا کر پریس کلبوں کے سامنے لاکر اُس کے لواحقین سے بھاری رقم وصول کر رہا ہے اُس کے چہرے پر صحافت برائے خدمت کی بجائے ”صحافت برائے بلیک میلنگ ”لکھا صاف نظر آتا ہے عالمی تناظر میں جھانکیں تو اسلام دشن قوتوں کے چہرے پر یہ کالک واضح نظر آتی ہے۔

اُنہوں نے بلاجواز ،بلاعذر ،بلاتردد وطن عزیز کو دہشت گرد ریاست ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر ہم اپنی دھرتی ،اپنی ریاست ماں کا مقدمہ لڑنے میں ناکام رہے ہم نے خود ساختگی کے نائن الین کے واقعہ کو بلاتحقیق قبول کر لیا ہمارے منہ میں دشمن کی زبان آگئی ہم یہ تک پوچھنے سے عاری رہے کہ 9ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں کام کرنے والے چار ہزار یہودی چھٹی پر کیوں تھے ؟ کیا یہودی لابی کو الہام ہو گیا تھا کہ 9ستمبر کو یہ واقعہ ہونا ہے یہی نہیں ہم یہ تک پوچھنے کی جسارت نہ کر سکے کہ اگر یہ واقعہ اسامہ بن لادن کے ہاتھوں سرزد ہوا ہے۔

America

America

تو ثبوت کہاں ہیں ؟کل جب روس کے وجود کے خلاف امریکی اسلحہ کے ساتھ ہم برسر پیکار تھے تو مجاہد کہ لائے آج جب امریکی مفادات کی تکمیل ہو چکی ہے تو وہ اچانک ”دہشت گرد ”ہو گئے امریکہ کی گھڑی ہوئی اختراع کو لیکر آج ہم سر پٹ بھاگتے چلے جارہے ہیں مڑ کر دیکھنے کا یارا نہیں حقیقت کا سرا پکڑنے کی بجائے اندھا دھند امریکی تقلید شروع کر چکے ہیں ہم نے عالمی فورمز پر میڈیا کے ذریعے یہ باور کرانے میں ناکامی کا چہرہ دیکھا کہ کل افغانستان میں ہم نے تمہاری جنگ لڑی آج تمہاری جنگ کا میدان ہماری دھرتی ہے۔

پیشہ مسیحائی کو لیں معاشرے میں ڈاکٹر ایک مسیحا ہے مگر اپنے پیشے سے وفادار نہ ہونے پر اُس کے مسیحائی کے کردار پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے مراکزمسیحائی کی پیشانی پر اُس نے ”پیشہ برائے پیسہ ”کا لیبل لگا دیا ہے وہ اپنے بنائے ہوئے مراکز مسیحائی میں اپنے پیشے کودکھی انسانیت کی خدمت کے بجائے دولت سمیٹنے کیلئے استعمال کر رہا ہے مسیحائی کا حقیقی کردار اُس کے ذہن سے ایسے نکل چکا ہے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے اپنے حقیقی کاز سے دور ہونے کی بنا پر وہ اُس طبقہ کو متاثر کر رہا ہے جو اُس کے پیشہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

آپ ایک امام مسجد کے کردار کا تعین کر لیں میرے اپنے شہر کا ایک معروف عالم دین ہے وہ پولیس کو خود رشوت دیکر نہ صرف ایک مظلوم کی جیب کاٹتا ہے بلکہ اُس کا اپنا دھندہ بھی اسی طرح پروان چڑھ رہا ہییہی عالم دین ایک بار ایک ضلعی پولیس آفیسر کے پاس گیا اور شکایت کی کہ فلاں پولیس اہلکار نے مجھ سے رشوت لی اور میرے دوست کو ریلیف فراہم نہیں کیا اگلے روز جمعہ کو وہ مسجد کے سٹیج پر کھڑے ہو کر کہہ رہا تھا کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں پیشے سے منافقت کے باوجود ہماری آنکھوں پر غرور کی عینک لگی ہوئی ہے ہم proudness ہیں اوروں کے گریبان میں جھانکتے ہیں اپنے دامن پر لگے دھبے ،انمٹ داغ ہمیں نظر نہیں آتے۔

M. R. Malik

M. R. Malik

تحریر: ایم آر ملک