مرحوم شاہ عبداللہ و نئے بادشاہ محمد سلیمان

Shah Abdullah bin Abdul Aziz

Shah Abdullah bin Abdul Aziz

تحریر: ایس۔یو۔سمیع
شاہی دنیا کے معمر ترین فرد شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز اگست 1924 کو شاہ عبدالعزیز کی آٹھویں چہیتی بیوی فہدہ بنت عاصی الشریم کے بطن سے ریاض میں پیداہوئے ۔قبیلہ شمر سے تعلق رکھنے والی محترمہ فہدہ کے سات بیٹوں کو شاہی خاندان میں بااثر سمجھا جاتاتھاجن میں شاہ عبداللہ کے مرحوم جانشین سلطان اورنائف بھی شامل تھے۔شاہ عبداللہ ‘ابن سعود کے 37 بیٹوں میں سے 13 نمبر پر تھے۔دنیا کے آٹھویں طاقتور ترین بشر شاہ عبداللہ کوبروزجمعہ ان کے آبائی قبرستان العودمیں دفن کیاگیا۔ان کی وفات پر پاکستان نے 1’مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے 7’اُردن نے 40اورفلسطینی اتھارٹی کے صدرمحمودعباس نے 3روزہ سوگ کا اعلان کیا۔پاکستانی وزیراعظم جناب میاں نواز شریف وشہباز شریف جنازے میں شامل ہوئے۔

شاہ فیصل نے شاہ عبداللہ کو 1962میںنیشنل گارڈ کا کمانڈرمنتخب کیا۔1975میں انہیں شاہ خالد نے نائب وزیر اعظم دوم بنایا۔1982میں شاہ فہد نے انہیں اپنا ولی عہدونائب وزیر اعظم اول مقررکیا۔شاہ فہد کی علالت کے باعث 1996ہی سے شاہ عبداللہ انکے دست راست تھے اوراکثرمعاملات براہ راست دیکھتے تھے مگر باقاعدہ طورپر شاہ فہد کی وفات کے بعد 2005میں تخت نشین ہوئے’شاہ فہد کی وفات پر بھی پاکستان نے 3روزہ سوگ منایاتھا۔علامہ ابن کثیر نے آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 72سال کی عمر میں انسان کی بیشتر صلاحتیں مفقود ہوجاتی ہیں لیکن قدرت نے شاہ عبداللہ کو ایسی شخصیت عطاء کی تھی کہ وہ شاہ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس و ٹیکنالوجی اورخواتین کی شہزادی نورہ بنت عبدالرحمن یونیورسٹی سمیت 20یونیورسٹیاں ‘لاتعداد کالج اوربیس ہزارکے قریب سکول اپنے ملک کو دے گئے جبکہ اس سے قبل کے شاہ مخصوص مکتبہ فکرکی دنیامیں اشاعت کو زیادہ توجہ کامستحق سمجھتے تھے۔شاہ کا شوقِ مطالعہ ہی تھا جس نے اُن سے ریاض ومراکش کے شہرکاسابلانکا میں لائبریریاں تعمیر کروائیں۔2011میں انہوں نے خواتین کو ووٹ کا حق دیا اورمستقبل میںبلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی۔دارفرپر چاڈ اورسوڈان کے درمیان مصالحت کروانابھی ان کے تدبراورفہم وفراست کاگواہ ہے۔روایت کے مطابق ایک شاہ کے انتقال کے بعد ابن سعود کابڑابیٹاہی بادشاہ بنتاہے ۔2007میں شاہ عبداللہ نے جانشینی پر ایک کمیشن بھی قائم کیاتھا۔انکی سفارتی پالیسی کا محور دائرہ اسلام ‘امریکہ وبرطانیہ کے ساتھ ساتھ ساری دنیاپر پھیلاہواتھالیکن اپنے ملک واسلام کے مفادات کیلئے بھی کوشاں رہے ۔ایک لبنانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے 1997میں انہوں نے کہا کہ”سعودی عرب امریکہ کا رفیق رہے گالیکن ہم امریکہ کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح نہیں دے سکتے”۔دنیا کے 7ارب انسانوں کی فلاح کیلئے انہوں نے 2008میں جدہ میں عالمی توانائی سمٹ کا انعقاد کیا تاکہ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں استحکام رہ سکے ۔دنیاکے مختلف مذاہب کے درمیان باہمی مکالمہ کی بنیادرکھنے میں بانی کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔مشرقی وسطی کی سیاسی تصویر کوبہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرتے رہے۔”کنگ عبداللہ اکنامک سٹی”سمیت4معاشی شہر قائم کیئے اورعالم اسلام کے اتحاد پر زور دیتے رہے۔پاکستان سے خصوصی محبت ان کا طرہ امتیاز تھا۔زلزلہ کشمیر ہو یا 2010کاسیلاب سعودیہ عرب نے پاکستان کی دل کھول کر امدادکی۔۔مئی 2013کے الیکشن کے بعد ڈیڑھ ارب ڈالرکی امداد دے کر پاک سعودیہ دوستی کا ثبوت دیا۔حال ہی میں پاکستان کو 40ڈالرفی بیرل کے حساب سے تیل کا معاہدہ ہوا۔

Pakistan And Saudi Arabia

Pakistan And Saudi Arabia

انہی کے دورمیں ذرائع ابلاغ کوایک خاص حدودمیں رہتے ہوئے شاہی خاندان پر تنقید کی اجازت دی گئی۔مسجدالحرام’مسجدنبوی’مقامات مقدس کی توسیع وتزین وآرائش اورحجاج اکرام وعمرہ کے آنے والوں کی سہولت پر انہوں نے وسیع القلبی کامظاہرہ کرتے ہوئے اربوں ڈالر خرچ کیئے اورناسازطبیعت کے باوجودمطلوبہ مقام پر جاکرمنصوبوں کاجائزہ لیا۔شاہ عبداللہ کی انسان دوستی ‘مسلم دوستی ‘صفتِ اعتدال’تدبر اورفہم وفراست کسی سے ڈھکاچھپانہیں تھا۔پاکستان عرب دوستی ہی کی بناء پر 1969میں جنوبی یمن سے تحفظ کی خاطر پاک فوج کے 15ہزار فوجیوں نے سعودیہ کی حفاظت کی ۔ایٹمی دھماکوں پر پاکستانی معیشت کو سہارا دیتے ہوئے سعودیہ نے deferred payment کی ٹرم پر روزانہ 50,000ہزاربیرل تیل فراہم کیا۔8اکتوبر 2005کوآزاد کشمیر زلزلہ کے موقع پر دنیامیں سب سے زیادہ امداد 600ملین ڈالراورمارچ 2008میں 300ملین ڈالر کی امداد عطیہ کے طورپر دی۔

یہی وجہ ہے کہ آج بالعموم مسلمان اوربالخصوص پاکستان کے عوام غمزدہ ہیں۔اسی بناء پر ڈیلی گارڈین ‘فنانشل ٹائمز’جرمنی کے ویکلی سسرو اور امریکی w.qنے رپورٹ کیا کہ سعودیہ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کیلئے مدددے رہاہے اورپاکستان مشکل وقت پر بنے بنائے بم سعوویہ کودے گا۔بعدمیں یہ افواہ غلط ثابت ہوئی۔اس سب کے باوجو د کوئی بھی انسان’ ابنیاء کے علاوہ اپنی ذات میں کامل نہیں ہوتا۔اللہ کا فرمان ہے ”تم سب خطاکارہو’اللہ بخشنے والامہربان ہے(مفہوم)”۔ممکن ہے کہ وہ عالم اسلام کے ماتھے کا جھومر ہونے کی بناء پر اتناکردار ادا نہ کرسکے ہوں جتنا انکا فرض تھایاکسی نظریے کے مطابق کسی موقع پر انہوں نے اپنے ملک کے مفادات کوترجیح دی ہو لیکن اب انکامعاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اوروہی بے نیاز جسے چاہے نوازدے ‘۔آہ کس قدر سبق پوشیدہ ہے کہ دنیا کے 8ویںطاقتور ترین بشرکو سپرد خاک کر دیا گیا۔ بابا فرید فرماتے ہیں:

فریدا خاک نہ نندئیے خاکوجیڈنہ کو
جیوندیاں پیراں تلے مویااپر ہو

شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد انکے سوتیلے بھائی محمد سلیمان بن عبدالعزیز تخت پر بیٹھے ہیں۔سعودیہ عرب کے 78سالہ ساتویں بادشاہ محمدسلیمان کونائف بن عبداللہ کی وفات کے بعد ولی عہد بنایاگیا۔مرحباپیلس میں پرورش پانے والے محمد سلیمان نے ریاض سے سیاسیات میں دوسری پوزیشن حاصل کی ۔ دوران تعلیم وہ ٹاپ ٹین پوزیشن ہولڈرز میں شامل رہے۔1954میں انہیں محض 19برس کی عمر میں ریاض کا میئر بنایاگیا۔فروری 1963میں ریاض کے گورنر بنے۔کم وبیش پانچ عشروں تک وہ ریاض کے گورنررہے اوراسے دنیا کے جدید ترین شہروںمیں شامل کروا دیا۔نومبر 2011میں وزیردفاع وولی عہد سلطان بن عبدالعزیز کی وفات پر محمد سلیمان وزیردفاع بنے۔اپنی وزارت کے دوران انہوں نے غیرمعمولی طورپر اسلحہ کے خریدوفروخت کے معاہدے کیئے ۔ڈیوڈکیمرون اور امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقاتیں کیں۔اور اب اس نازک موقع پر جب عالم اسلام میں انتہاپسندوں کو ایک سازش کے تحت ڈمپ کردیاگیاہے محمد سلیمان مقامات ِمقدسہ کی سرزمین کے بادشاہ بنے ہیں۔تخت سنبھالنے کے پہلے روز آٹھ فرامین جاری کرنے والے شاہ کے سامنے مشرق وسطی’کشمیر’قبرص’اوراسلامی دنیا کے لاتعداد مسائل انکی فہم وفراست کاامتحان لینے کیلئے موجود ہیں۔عرب سپرنگ کے منفی اثرات سے شاہ عبداللہ نے اپنی سلطنت کو اصلاحات کانفاذ کرکے ٹال دیاتھامگر سعودیہ عرب جس کی دوتہائی آبادی 25سال یا اس سے کم عمرکے نوجوانوں پر مشتمل ہے ہنوز اصلاحات کامتقاضی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ سعودیہ کے امن کیلئے ضروری ہے کہ وہ شاہ عبداللہ کے ولی عہدی سے متعلق کمیشن کو مضبوط کریں اوراُسے اسلامی سانچے میں ڈھالیںاورانتقال اقتدارکیلئے ستربرس سے زائد عمر کو کالعدم قراردیںتاکہ ابن سعودکے پوتوں کا پیمانہ صبرنہ ہی لبریز ہواورنہ ہی کوئی سازشی انہیں اپنے مقاصد میں استعمال کرنے میں کامیاب ہوں۔انہوں نے تخت نشین ہوتے ہی کہا کہ وہ اپنے پیشرو کی پالیسیوں کو برقراررکھیں گے لیکن اب دیکھنایہ ہے کہ وہ اُن پالیسیوں کو کتنے احسن انداز میں چلاتے ہوئے بتدریج کس قدربہتری کی جانب لے جاتے ہیں۔

S U Sami

S U Sami

تحریر: ایس۔یو۔سمیع
s0333_9838177@yahoo.com