روحانیت اور عشق الہی کیا ہے؟

Allah

Allah

روحانی بیداری اور باطنی لطافت کے زیر اثر انسان انوار الہیہ کے فیوض و برکات سے کا ملاً بہرمند ہو سکتے ہیں لیکن یہ اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اسے عشق کا ساغر نصیب نہ ہو۔ عشق الہی کا معنی یہ ہے کہ انسان کی زندگی سمٹ کر ایک مرکز پر آجائے اور بال وپر پکارنے لگے۔ ” بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اسی ایک عالمین کے پروردگار کیلئے ہے۔

صوفیاء کا کہنا ہے کہ عشق الہی ہی راز حیات ہے۔ اگر اسکی آگ دل میں نہ ہو تو وہ گوشت کا ایک بے جان ٹکڑا ہے اور اگر اس میں حرارت ہو توانوار الہیہ کا محل۔ سلامتی دل عشاق ازمحبت تسبت وگرنہ ایں دل پر خوں چر جائے منزل تست (وادی عشق کے مسافر کی قلبی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اسے ایک لمحہ بھی اﷲ کے بغیر چین نہیں ملتا) شبلی رحمتہ اﷲ علیہ کا قول اس امر کی غمازی کرتا ہے۔ الفقیر من لا یستعغنی بشی من دون اﷲ ( فقیر سوائے ذات حق کے کسی چیز سے آرام نہیں پاتا) عارفانہ اسرار حق کا کہنا ہے کہ عشق الہی کے سبب ہی انسان اپنی وہمی ہستی کو فراموش کرتا ہے۔

محبت ہی کی حرارت اسکی اعتباری ہستی کو جلا کر انانیت حقیقی سے فیض یاب کرتی ہے۔ محبت محب کے دل سے ماسوائے محبوب کے ہر چیز کو سوخت کر دیتی ہے۔ محب کا ہر سانس محبوب حقیقی کی یاد میں گزرتاہے جس دل میں خداوندتعالٰی کی محبت ہوتی ہے وہ اسرارمعرفت کا خزینہ اور واحدانیت کا دفینہ ہوتاہے۔ سوختگان عشق الہی پر آتش جہنم حرام ہے۔ جس دل میں محبت الہی نہیں وہی دوزخ میں جلے گا اور حلاوت ایمانی سے بے بہرہ رہے گا جیساکہ حدیث پیغمبر اس پر شاہد ہے۔

لا ایمان لمن لا محبتہ : اعمال و جوارح بغیر محبت الہی بھی ادا کئے جاسکتے ہیں مگر اعمال قلب جو نتیجہ ایمان سے ہیں۔ بلا محبت نہیں ہو سکتے کیونکہ محبت قلب سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ جوارح سے، ایمان محبت کے بغیر کامل نہیں ہوسکتا۔علمائے شریعت کا نظریہ یہ ہے کہ اﷲ کو بندے کے ساتھ یہ الفت ہے کہ اس کو زندگی میںنیک اعمالااچھے افعال کی ہدایت اور عبادت کی توفیق عطا فر مائے اور آخرت میں اس کو جزائے خیر عطا کرے اور بقول ان کے بندے کی محبت خدا کے ساتھ اس صورت میں ظاہر ہو سکتی ہے کہ جسم فانی کو اﷲ کے مقررہ فرائض و اعمال یعنی عبادت الٰہی کی ادائیگی میں ہر وقت مصروف رکھے اور اپنی راحت اخروی کیلئے کوشاں رہے۔

اہل طریقت کے نزدیک خداوند تعالٰی کو بندے سے انس ہے کہ اپنے بندے مجبور و لا چار سراسیمہ و پریشان حال یکہ و تنہا اور بے یار مدد گار کو اپنی رحمت سے نواز کر اپنی درگاہ بے نیاز سے قربت عطا کرے۔ بندے کو ذات واجب کے ساتھ ایسی محبت ہونی چاہیے کہ اپنی نظر کو غیر اﷲ سے ہٹائے تاکہ اس کے دل میں ماسوائے اﷲ کے مختلف دل فریب اور رنگین خیالات نہ آنے پائیں۔ دل کو محبوب حقیقی کیلئے پاک و صاف رکھے اور دائرہ محبت کو وسیع کرتا رہے۔ ہر دم اس کی یاد سے دل کو تازہ رکھے۔

اپنی ہستی عشق کیلئے وقف کردے۔ یاد محبوب میں ایسا بے خود ہو جائے کہ اپنی بھی مطلق خبر نہ رہے جس طرح کسی لبریزتالاب کا بند شکستہ ہو نے پراس کا پانی شور سے بہہ نکلتا ہے۔ اور خس و خاشاک کواپنے ساتھ بہالے جاتا ہے اس طرح جس دل میں عشق کا جذبہ عظیم پیدا ہو جائے تو پھر یہ روکنے سے نہیں رکتا اور بوجہ شکستگی ، دل کا روکاہوا سیلاب جب بہہ نکلتا ہے تو خواہشات ماسوائے اﷲ دل سے غائب ہوجاتی ہیں اور وہ دینوی دولت و آرام سے بے پرواہ اور دنیا و مافیھا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔

عشق الہی اور ذکر الہی: ارباب معرفت یہ بھی کہتے ہیں کہ محبت اور ذکر لاذم و ملزوم ہیں۔ اپنے قول پر وہ حضور کریم ۖ کایہ فرمان پیش کرتے ہیں کہ آپۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ من احب شیاء اکژر ذکرہ (جو شخص جس چیز کو زیادہ دوست رکھتا ہے وہ زیادہ تر اسی کا ذکر کیا کرتا ہے) حب، محبت، محبوب ….. طلب، طالب، مطلوب….. عشق، عاشق، معشوق….. یہ تین حالتیں ہیں حب و طالب اور عشق کا راز سالک پر ظاہر ہوتا ہے۔ تو وہ محب، محبوب، طالب، مطلوب اور عاشق و معشوق کی حقیقت سے با خبر ہو جاتا ہے اور پھر بالا آخر وہ مقام آتا ہے جس کے بارے میں ذات واجب کا فرمان ہے وھو معکم این ما کنتم : اس نظارہ معیت کیلئے ضروری ہے کہ دل کا آئینہ ماسوا اﷲ سے پاک اور نفسانی کدورتوں سے صاف ہو، یہ معیت مادی عقل سے مشہود نہیں ہوتی بلکہ ذوق و شوق اور فکر کی آنکھ سے اس سے مطلع ہوا جاسکتا ہے۔ جب عاشق بادہ خوار جام عشق الٰہی پیتا ہے تو اس کے جذبات و کیفیات کا عجیب عالم ہو جاتاہے۔ اس کے ظاہر اور باطن سے حقیقی مسرت کی دلکش موجیں اٹھتی نظر آتی ہیںکہ دوسرے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ شراب عشق الٰہی پینے کے بعد حیرت سوزوگداز اور درد دل پیدا ہوتا ہے۔

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

جب عشق حقیقی کو جنبش ہوتی ہے تو فوراً جلوہ محبت کی ایک بجلی سی اس کے رگ و پے میں پوری طاقت سے دوڑتی اور جاگزیں ہو جاتی ہے۔ سوائے مطلوب کے کل موجودات اس کیلئے معدوم ہوجاتی ہیں یہاں تک کہ اس کو اپنا عزیز ترین وجود بھی لا شے اور ہیچ معلوم ہو تا ہے۔ بادہ عشق کا مصفا جام اور اس کا لطیف نشہ لفظوں میں نہیں آسکتا ہے۔

محبت حقیقی ایک پرُ لطف اور اہم جذبہ قلبی ہے جو انسان کے دل میں حق تعالٰی کے اسماء حسنی کا بکثرت ذکر کرنے، ان کے معانی میں فکرکرنے اور اس کی صفات پاک میں غور کرنے یا ان کا ذکر سن کر خیال کی صورت میںپیدا ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ طلب صادق بن کر بھڑک اٹھتی ہے اور بام ترقی پر چڑھنے اور وصال محبوب کیلئے رہبر بن جاتی ہے۔ یہ ان میخواروں کا حصہ ہے جن کے خیالات کی بلندی اور اعلٰی تصورات ذہنی کا مقصد سوائے ذات حق کو پانے کے اور کچھ نہیں ہے ۔ خیالات کا اثر انسانی زندگی پر بہت کچھ ہوتا ہے اگر کسی کے تصورات اعلٰی و ارفع ہیں تو اس کے افعال بھی پاکیزہ اور اگر ارزل و ادنٰی ہیں تو اس کے اعمال بھی پست ہوںگے۔ جیسا کہ محبان صادق اور عاشقان الٰہی کو ْقرآن مجید میںہدایت فرمائی گئی ہے۔

قل ان کنتم تحبون اﷲ فا تبعونی تحببکم اﷲ (عمران 31)
(اے نبی کہہ دو اگر تم اﷲ کو دوست رکھتے ہو تو میری ظاہری و باطنی پیروی کرو تا کہ اﷲ تم کو دوست رکھے)

آج کل پیشہ ور صوفیوں اور دنیاوی ملائوں نے اس لا ہوتی گوہر کو ریاکاری کے عوض فروخت کردیا ہے اور لوگوں پر اپنا محب خدا اور رسولۖ ہونا ظاہر کرکے دنیا کمارہے۔ اور اپنے برگزیدہ اسلاف کے سوزوگداز اور ریاضت و مجاہدہ کا مطالعہ کر کے اس کی عملاً اتباع نہیںکرتے۔

حضرت امام قیصری فرماتے ہیں کہ ”اپنی ہر چیز پر اس مالک حسن بے مثال، محبوب لا ثانی کو برتری دینا شیوہ محبت ہے اور واقعی محبت حق میں اعلٰی کمال یہ ہے کہ اپنی صفات گم کر کے دل کو غیر اﷲ سے صاف کرے۔ اس میں محبوب دلفریب کو رکھے اور اس کے جلوہ کا مشاہدہ کرتا رہے ”۔

نور محبت حصّہ عاشق ہے وہ اﷲ تعالٰی کے ساتھ دل سے ربط رکھتے اور روحانی طورپر متاثر ہوتے ہیں اس ربط و تاثر کا نام جذبہ محبت ہے۔

حضرت شبلی فرماتے ہیں کہ ”محبت کے لانیحل عقدے کو محبت اس لئے کہتے ہیں کہ سچے وفادار، محب صادق کے دل سے جوش محبت میں محبوب کے سوا ہر معدوم ہو نیوالی شے یہاں تک محو ہو جاتی ہے کہ اس کو اپنی بھی مطلق خبر نہیں رہتی۔

محبت اس کو کہتے ہیں کہ حامل محبت کی کل صفات بشری محو ہو کر محبوب کے کل صفات محب کے وجود میں رونما ہو جائیں۔ شیخ عبدالکریم فرماتے ہیں کہ محبت کی تین قسمیں ہو تی ہیں۔
1۔ فعلیہ
2۔صفاتیہ
3۔ذاتیہ

فعلیہ۔ یہ محبت عوام کی ہے جو خدا تعالٰی کے احسانات کے سبب وہ اس سے محبت کرتے ہیں۔صفاتیہ۔ یہ محبت خواص کی ہے جن کا مطمع نظر جمال اور جلال الہٰی ہے۔ وہ بلا امید و معاوضہ اس سے محبت کرتے ہیں۔ذاتیہ۔ یہ محبت اخص الخواص و مقربین کی ہے کہ وہ بمقتقائے و فی انفسکم افلا تبصرون اپنی ذات میں بس جلوہ محبوب دیکھتے اور خود سراپا محبوب بن جاتے ہیں۔

Quran

Quran

عشق الہی خدا کا تیز ترین ذریعہ: روحانیت میں منزل کمال کا حصول اس وقت تک ممکن نہیںہوتا جب تک سالک آتش عشق الٰہی سے اپنی انانیت شخصی کو پھونک نہ دے۔ جب آتش عشق الٰہی سالک کے دل میں موجود خواہشات کے اصنام اور مادی آلام کو خاکستر بنا ڈالتی ہے تو پھر مشکل سے مشکل مجاہدوں میں مشغول رہنے کی وجہ سے اس پرتجلیات الٰہی کی ہمیشہ جلوہ ریزیاں ہو تی رہتی ہیں اور یہی وہ مقام ہو تا ہے جہاں سالک کو عشق، عاشق اور معشوق سے آگاہی ملتی ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں، جب عاشق کی منزل ختم ہو جاتی ہے تو عاشق ہی معشوق ہو جاتا ہے۔پھر ایک وہ مقام آتا ہے جہاں درجہ معشوقیت بھی اختتام کو پہنچتا ہے تو بجز عشق کے اور کچھ نہیں رہتا۔ پس سالک اس مقام پر آجاتا ہے جس کے لیے خالق نے حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا۔

”جو ایک بالشت مجھ سے قریب ہوتا ہے میںاس سے گز بھر قریب ہو جاتا ہوں جو میری طرف گز بھر بڑھتا ہے میں دو گز اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں جو میری طرف خراماں خراماں آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔

وادی محبت میں محب کو قرار نہیں ہو تا محبت الٰہی کے سمندر کی امواج کبھی عاشق کو نیچے لے جاتی ہیں اور کبھی اوپر لاتی ہیں۔ بندہ عشق دیکھنے میں حاضر مگر شاہد حقیقی کے خیال میں اپنی ہستی سے غائب، محویت بحر عشق میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے دونوں جہاں سے بے خبر نہیں۔ سوائے خیال محبوب کے نہ کسی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور نہ کسی کی بات سنتا ہے جب وہ خداکی محبت اختیار کر کے الفت کے رنگ میں سرتاپا ڈوب جاتا ہے تو اس پر عشق الٰہی غالب آجاتا ہے۔ذیادتی محبت اور مسرت روحانی سے دل ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ پھر اس معصوم ہستی کے قلب پر حقائق و معارف کا انکشاف ہوتا ہے دل کے گوشہ گوشہ میں شمع الفت خداوندی کی روشنی چھا جاتی ہے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ عاشق ساختہ کا مرتبہ بلند ہوگیا ہے کہ وہ ساری دنیا پر چھایا ہواہے خدا کی طلب نے عاشق کو ماسوائے حق سے فارغ اور اس کی محبت کے استغراق نے اسے سب سے بے پرواہ کر دیا ہے۔

شاہد ازل تیرے حسن کا بھکاری ظاہری نعمتوں کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا۔ تیرے عشق کے سلسلہ میں جواسیر ہے وہ جملہ تعلقات ماسواء اﷲ سے دستبردار اور لا تعلق ہے۔ وہ تجھ سے تعلق رکھتا ہے اور تیری یاد میں مستغرق رہتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جس دل پر محبت یار کا غلبہ ہوا اغیار سے کیا کام …..؟ لیکن غلبہ محبت زبانی دعوے سے کسی کو نہیں ملتا یہ اﷲ تعالٰی کا خاص فضل ہے۔

1۔ذکر خدا کثرت سے کرنا اور اس سے ہمیشہ خوش رہنا۔
2۔ مراقبہ میںصدق و اخلاص سے مشغول رہنا۔
3۔ حالت ذوق و شوق میں آہ و زاری اور مناجات کرنا۔
4۔ دنیا سے حق تعالٰی کیلئے ترک تعلق کرنا۔
5۔ یاد حق میں منہمک ہو کر اس کے مدارج حاصل کرنا۔

اس کے بعد سالک کو یہ پانچ باتیں عطا کی جاتی ہیں۔
1۔ جذب، 2۔ علم حق، 3۔ حیات جاوید، 4۔ عظمت، 5۔ سرور دائم۔

ایک عمومی بات ہے کہ جب ہم کو کسی سے کامل محبت ہو جاتی ہے تو ہم ماں باپ عزیزواقارب غرض کہ سب سے منہ موڑ کر اسی کے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح عاشق ذات حقیقی کی زندگی اپنے مولٰی کے لئے ہو جاتی ہے اور اس کو ماسوائے اﷲ کا خیال نہیں رہتا۔ اس کے دل میں عشق کا قدم پڑتے ہی تمام آرذوئیں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتی ہیں۔

 PROF ABDULLAH BHATTI

PROF ABDULLAH BHATTI

تحریر: پروفیسر محمد عبداﷲ بھٹی