”بہار آئی۔۔۔۔ کیا رنگ لائی”

Spring

Spring

تحریر : مجید احمد جائی
سردیاں آخر رخت سفر باندھ ہی گئیں۔ مارچ کا آغاز ہو چلا۔ٹنڈ منڈ درختوںپر نئی کونپلیں ناچنے لگیں۔فصلیں لہلہانے لگی۔ باغوں میں فاختائیں گنگانے لگی۔گلشن پھولوں سے لد گئے۔اُجڑے زردی مائل چہروں پر لالی آنے لگی۔ہر طرف سبزہ ہی سبزہ دلوں کو لبھانے لگا۔خوشبویں روح کو معطر کرنے لگیں۔مرجھائے چہرے کھلکھلا اٹھے۔درختوں پر جوانی انگڑائیاںلینے لگی۔یہ تبدیلی موسم تبدیل ہونے کی نویدہی تو دے رہی ہے۔ہاں موسم بہار پر پھیلائے اپنے سینے سے لگانے لگا ہے۔مارچ کا مہینہ شروع ہونے کے ساتھ ہی موسم بہار شروع ہو جاتا ہے۔کھیت کھلیان،سڑکوں کے کنارے لگے درخت،یونیورسٹوں،کالجوں میں لگے پھول مالی کی محنت کا ثبوت دینے لگتے ہیں۔سکولوں ،کالجوں میں جشن بہاراں کے مقابلے ہوتے ہیں۔ہر طرف رنگ برنگے پھولوں لہلہانے لگتے ہیں۔درختوں پر جوبن آجاتا ہے۔

موسم بہار تو ہر سال آتا ہے۔اپنے ساتھ تبدیلی بھی لاتا ہے۔درختوں،باغوں میں خزاں کے بادل جھٹ جاتے ہیں۔ان کی رونقیں بحال ہو جاتی ہیں۔لیکن ۔۔لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اس تبدیلی کے ساتھ انسانی سوچ افکار میں بھی تبدیلی آتی۔انسانی دماغ پر بھی بہار رُت چھا جاتی۔انسانی دماغ بھی کھلکھلا اٹھتے۔نفرتیںناپیدہو جاتی۔محبتوں کا ہر سوں چرچا ہوتا۔اخوت وبھائی چارے کا نظام پھر سے لوٹ آتا۔دہشت گردی کے جن پر کوئی منتر چل جاتا اور یہ اپنی لگائی آگ میں جل کر راکھ ہو جاتا۔تنگدستی ،خوشحالی میں بدل جاتی۔ہمارے کھیت اناج وافر مقدار میں پیدا کرنے لگ جاتے۔ہمارے سوکھے دریائوںمیں پانی ٹھاٹھیں مارنے لگتا۔مہنگائی کا شیطان اپنابوریا بستر گول کر کے یہاں سے چلا جاتا۔کرپشن کے جراثیموں پر صداقت،ایمانداری کا اسپرے ہوتا۔

لوٹ مار،افراتفری کی جگہ امن قائم ہوجاتا۔سنسان گلی بازاروں میں رونق آجاتی۔اداس چہروں پرخوشی ناچنے لگتی۔بھائی،بھائی کا گریبان نہ پکڑتا۔بلکہ بھائی ،بھائی کو گلے لگاتا۔شراب نوشی،رشوت،سود کی وبا کا تدارک ہو جاتا۔مسجدیں آباد ہو جاتیں۔ کاش موسم بہار آنے کی خوشی میں ہر فردملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے لگ جاتا۔ہر فرد اپنی جگہ رہتے ہوئے انصاف کرنے لگ جاتا۔چوری ،قتل وغارت،پولیس گردی،بھتہ مافیا،جاگیرداری کا خاتمہ ہو جاتا۔ہر طرف امن کی فصلیں لہلہانے لگتی۔امیر و غریب کا فارمولا ختم ہو جاتا۔

Education

Education

ملاوٹ خوری، منافع خوری کا تدارک ہو جائے۔آئے کاش میری سوہنی دھرتی پہ بہار کا رقص ہو جائے۔تعلیمی نظام ایک ہو جائے۔ہم بجلی بنانے میں خود کفیل ہو جائیں۔پانی کی قلت پر قابو پانا سیکھ جائیں۔غربت و افلاس کی بیماری کا جڑ سے خاتمہ ہو جائے۔بھارت کو دیکھتے ہوئے ہم بھی اپنے دریائوں پر ڈیم بنانے لگ جائیں۔شرح خواندگی میں ترقی کر جائیں۔ہماری زمینیں سونا اگلتی ہیں۔آئے کاش ہم اپنی زمینوں سے پورا پورا فائدہ اٹھا سکیں۔ہر فرد ایمانداری کا طوق پہن لے۔جھوٹ کا رواج ختم ہو جائے۔سچائی کا بول بالا ہو۔ہماری عدالتیں انصاف فراہم کرنے لگ جائیں۔ہماری پولیس رشوت سے پاک ہو جائے۔ہمارے معاشرے میں امن کا راج ہو جائے۔

ہمارے وطن میں اپنوں کے روپ میں چھپے دشمن بے نقاب ہو جائیں۔میرا پیار وطن اندرونی بیرونی شازشوں سے پاک ہو جائے۔جس طرح اس کا نام پاک وطن ہے اسی طرح ہر خطرات سے پاک ہو جائے۔ہماری سرحدیں محفوظ ہوجائیں۔یہ وطن ٹیکنالوجی میں پوری دنیا سے آگے نکل جائے۔آئے میرے غفوررحیم مولا اس وطن پر اپنا خاص کرم فرما دے۔اس وطن کے سیاستدانوں کو اپنی عقل بروکار لانے کی توفیق عطا فرمادے۔اس ملک کے حکمرانوں کو عوام دوست بنا دے۔جھوٹ،غیبت سے بچا۔جاگیردارانہ نظام کا تحتہ الٹ جائے۔غریب واامیر ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئیں۔

اے کاش!ہمارے دلوں پر بھی بہار کا سمان ہو جائے۔اس وطن کی سر زمین پر ہمیشہ بہار کا سماں رہے۔ہمیں اپنی جگہ رہتے ہوئے انصاف کرنا چاہیے ۔تب ہم ترقی کی راہیں طے کر سکتے ہیں۔ہاں اس ملک میں رہنے والا ہر فرد مخلص اور ایماندار ہو جائے،قول وفعل کا تضاد ختم ہو جائے۔دولت کی ہوس نہ ہو،جذبہ حب وطنی ہر دل میں جاگ اٹھے تو وہ دن دور نہیں پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے۔پاکستان ترقی کی دوڑ میں سرفہرست کھڑا ہوگا۔انشااللہ!۔

Abdul Majeed Ahmed Wafa

Abdul Majeed Ahmed Wafa

تحریر : مجید احمد جائی
majeed.ahmed2011@gmail.com