بھارتی جارحیت کی قومی اسمبلی میں گونج

United Nations

United Nations

تحریر:محمد شاہد محمود

کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جاری کشیدگی کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ نے پاکستان، بھارت حکومتوں سے فوری طور پر مذاکراتی عمل بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ امریکہ نے موجودہ صورتحال پر قابو پانے کیلئے دونوں ممالک کی قیادت کیساتھ ہنگامی رابطہ قائم کرلیا۔ سیکرٹری جنرل نے ایل او سی پر کشیدگی کو خطرناک قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک کو ہدایت کی ہے کہ وہ مذاکرات بحال کریں تا کہ کشیدگی کا خاتمہ کیا جائے اقوام متحدہ کشمیر کی صورتحال پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے پاکستان نے بار بار ثالثی کی تجویز اقوام متحدہ کے سامنے رکھی ہے لیکن اسکے باوجود بھارت اس سلسلے میں ابھی تک بات آگے نہیں بڑھا رہا ہے۔

برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ سیز فائر کی خلاف ورزیاں بند کرکے مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کریں۔ ہم کشمیر میں ایل او سی پر کشیدگی نہیں دیکھنا چاہتے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہترین تعلقات قائم رہنے چاہئیں۔ ہم دونوں ممالک کے درمیان صرف مذاکرات کے حامی ہیں بلکہ ان مذاکرات میں ضرورت کے مطابق معاونت کیلئے بھی تیار ہیں۔بھارتی وزیر دفاع ارون جیٹلی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں جاری رہیں تو یہ پاکستان کے لئے مزید ”تکلیف دہ” ہو گا۔ مذاکرات کی بحالی کے لئے سازگار حالات بنانے کا انحصار اسلام آباد پر ہے۔ ان کا کہنا تھا ‘ہماری روایتی طاقت ان سے کہیں زیادہ ہے۔

اس لئے اگر انہوں نے ”ایڈونچر ازم” کارروائیاں جاری رکھیں تو ان کو اس مہم جوئی کے نتیجے میں تکلیف اٹھانی ہو گی’۔ ارون جیٹلی نے کہا : ‘جب پاکستان فائر کرتا تھا تو ہمارے ہاتھ میں ڈھال ہوتی تھی۔ اس بار ہمارے پاس تلوار بھی ہے’۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ بھارت پورے خطے میں امن اور ترقی کا خواہشمند ہے۔ دہشت گردی کی کوششوں سے ملک کو کمزور نہیں کیا جا سکتا ہے۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ ہم بھارت کی بالادستی کسی قیمت پر قبول نہیں کی جائے گی اوراپنے مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے۔

موجودہ صورت حال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات نہیں تاہم پاکستان تعلقات کو معمول پر لانے کی پوری کوشش کرے گا کیونکہ دونوں ملک اس وقت کشیدگی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ بھارت کو جلد ہی اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی سے بین الاقوامی سطح پراس کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔ بھارتی وزیراعظم اپنی شرائط پر پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے چاہتے ہیں جو حکومت اور قوم کے لئے قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی ہم بھارت کا یہ اصرار ماننے کے لئے تیار ہیں کہ پاکستان کشمیر کو بھول جائے، ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم بھارتی بالادستی کو قبول نہیں کریں گے اوراپنے مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے، پاکستان کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور بھارت کو اس سلسلے میں کسی شک و شبے میں نہیں رہنا چاہئے۔

قومی اسمبلی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے ارکان نے یک آواز ہوکر کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کا دنیا کو اصل چہرہ اور دوہرے معیار دکھانے کے لئے کوششیں تیز کی جائیں’ مودی حکومت انتہا پسندی دکھانے سے اجتناب کرے’ بھارتی حکومت اور میڈیا کا یہ تاثر درست نہیں کہ اس جارحیت کا آغاز پاکستان کی طرف سے کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں سید آصف حسنین نے کہا کہ بھارتی جارحیت سے معصوم شہریوں اور فوج کا جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے۔ ہم امن چاہتے ہیں تاہم بھارت کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ وہ دھونس اور دھمکی سے نہ تو کسی ملک پر قبضہ کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے کمزور کر سکتا ہے۔

پاک فوج نے بھارت کی نہتی عوام پر کبھی فائرنگ نہیں کی۔ مودی حکومت اور بھارتی میڈیا نے یہ تاثر دیا کہ پاکستان کی جانب سے جارحیت کی گئی ہے ہمیں دنیا کو اصل صورتحال باور کرانی چاہیے اور بھارت کے دوہرے معیار دنیا کو دکھانے پڑیں گے۔ جماعت اسلامی کے رکن صاحبزادہ محمد یعقوب نے کہا کہ پاک فوج بھارت کی ہر جارحیت کا جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ ہم بھارتی جارحیت کی بھرپور مذمت کرتے ہیں حکومت اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرے۔ فاٹا کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر غازی گلاب جمال نے بھارتی جارحیت کی مذمت کی اور کہا کہ فاٹا کے عوام پاک فوج پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں۔

Muslim League (N)

Muslim League (N)

حکومت اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو بھارت سمیت تمام بیرونی خطرات کے معاملے پر مکمل یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کی ثریا اصغر نے کہا کہ ایل او سی پر فائرنگ ہم نے جب سے آنکھ کھولی ہے دیکھ رہے ہیں’ جاری صورتحال پر عالمی انسانی حقوق کے چیمپئن بننے والے ممالک کو خاموش نہیں رہنا چاہیے۔وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد نے کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس میں قیمتی انسانی جانوں اور املاک کے نقصانات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو سویلین آبادی پرفائرنگ اور گولہ باری سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بھارتی جارحیت کا شکار ہونے والے 14 میں سے 11 افراد کا تعلق ان کے حلقہ سے ہے۔

بھارتی جارحیت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ کو بھی خط لکھا ہے۔ کنٹرول لائن کے نزدیک آبادی کو محفوظ جگہ پر منتقل کرنے کے لئے ہم نے زمین کے حصول کے لئے متعلقہ ڈی سی او کو بھی درخواست دیدی ہے۔ کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک پیش کردی گئی جسے منظور کرلیا گیا۔ وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ بھارتی جارحیت کا معاملہ سنجیدہ ہے۔ بھارتی جارحیت پر ہمارا ردعمل کم نہیں ہوگا۔ پاکستان کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ 20 سال بعد کسی وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر اٹھایا ہے۔ بھارت نے شاید اسی وجہ سے جارحیت شروع کی ہے۔ پاکستانی فورسز بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دے رہی ہے۔

بھارت نے زیادہ تر کارروائیاں ورکنگ بائونڈری پر کیں۔ بھارتی فورسز نے پاکستان کی شہری آبادی کو نشانہ بنایا، شہری آبادیوں کو نشانہ بنانا بہادری نہیں۔ کسی کو غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ اگر کسی ملک کے پاس دفاع کے لئے صلاحیت موجود ہے تو وہ صرف سردخانے میں رکھنے کے لئے نہیں، ضرورت پڑنے پر اسے استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ بھارت کی جانب سے فائرنگ کرنا کوئی بہادری نہیں،اس میں صرف معصوم لوگوں کی جانیں گئیں،بھارتی فوج جس قسم کی کارروائی کرے گی اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا لیکن معصوم لوگوں کو ٹارگٹ کرنا مناسب نہیں۔ ہم کشمیر کو کبھی اکیلے نہیں چھوڑیں گے یہ جنگ کا سبب نہیں بننا چاہیے معصوم شہریوں کو بھی ٹارگٹ نہیں بنانے دیں گے۔

آصف حسنین نے کہا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل ہے، نہ ہی پاکستانی جنگ چاہتے ہیں لیکن پڑوسی کبھی نہیں بدل سکتے۔ وہ پڑوسی ہی رہیں گے اس بات کو کمزوری نہ سمجھا جائے پاکستان کی فوج بہادر فوج ہے اور ملک کی سلامتی کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں دونوں ایٹمی ممالک ہیں اگر پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہوگا تو پھر اس سے تباہی مچ جائے گی۔ لائن آف کنٹرول پر حکومت پڑوسی ملک سے ٹیبل ٹاک کرے اور کشمیر کے مسئلے کو بھی مذاکرات سے حل کریں۔

بھارت یہ سمجھ لے کہ وہ طاقت کے ذریعے کچھ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ پاکستان اپنا دفاع کرنا جانتا ہے۔ یہ کیسا تضاد ہے کہ ایک طرف امن کی آشا ہے اور دوسری طرف مودی بھاشا ہے؟ ہندوستان کسی بھی قسم کی خوش فہمی میں نہ رہے پاک فوج کیلئے سیاچن ایک آرام دہ جگہ ہے اور بھارتی فوج کیلئے سخت ترین جگہ ہے پاک فوج اپنے ملک کا دفاع کرنا خوب جانتی ہے۔ پورے ملک اور بیرون ملک پاکستانیوں کو لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی پر ایک ملین مارچ کرنا چاہیے۔

Mohammad Shahid Mahmood

Mohammad Shahid Mahmood

تحریر:محمد شاہد محمود