خود کو خود بچائیں

Autonomy

Autonomy

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس

زمانے کی ہوا ہی ایسی ہے جی … کوئی شرم حیا ہی نہیں رہی ، یہ جملہ سنتے ہی ارد گرد کے ماحول کا ایک جائزہ لینے کو نظر اٹھی تو حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی… بطور مسلمان بھی اور بطور پاکستانی بھی …آج کی عورت فیشن کے نام پر اور ماڈرن ازم کے نام پر نہ پاکستانی نظر آتی ہے نہ ہی مسلمان باریک جسم چھلکاتے لبادے دوپٹے سے بے نیاز سر اور سینے, ہر ایک سے حفظ مراتب کے بغیر منہ ماری کو تیار . یہ کیسی آزادی اور خودمختاری ہے جو عورت اپنی نسوانیت کو ہی بیوقعت کرنے پر تل گئی ہے.

یہ سو فیصد خواتین کی کہانی بالکل نہیں ہے. لیکن اب یہ ماحول تیزی سے اپنے اثرات دکھا رہا ہے. بے حیائی کا یہ سیلاب ہمیں خس و خاشاک کی طرح بہانے کو تیار ہے ۔ اس روش پر چلنے والی خواتین نے ہی اعتدال پسند اور محنتی خواتین کے راستے میں مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیئے ہیں .

ایک خاتون محنتی ہو ، نیک ہو ، مخلص ہو ،اچھے خیالات رکھتی ہو . …لیکن اس کا لباس واہیات ہے ، باریک ہے یا پوری طرح ستر پوشی کا کام نہیں کر رہا ،تو یاد رکھیئے ہمارے سارے نیک کاموں پر پانی پھر جاتا ہے . ہم بار بار یورپ اور امریکہ کی مثال دیکر ایشین معاشرے کو ہدف تنقید کیوں بناتے ہیں ؟ کہ وہاں کے مرد ایسا کرتے ہیں ویسا کرتے ہیں ، وہاں تو خواتین جو مرضی پہنیں انہیں تو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا ۔ پھر ایشین یا پاکستانی مردوں کو ہی کیا مسئلہ ہے؟ تو یاد رکھیئے :

ہمارا اور ان ممالک کی سوچ ، کلچر، تہذیب اور مذاہب سب کچھ ایک دوسرے سے جدا ہیں ، تو ہم ایشین مردوں سے یورپین مردوں سی توقعات کیوں وابستہ کر لیتے ہیں . ہمارے ہاں مردوں کی فطرت میں عورت کو الگ شے سمجھنا ہے ، تو یہ کبھی نہیں بدل سکتے . اس لیئے ہمیں اپنے آپ کو محفوظ طریقے سے سامنے لانے پر توجہ دینی چاہیئے . اور کئی باتوں کو نظرانداز کر دینا چاہیئے لیکن اب اسکا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں ہے کہ کوئی بھی شخص آپ کیساتھ کوئی بھی نازیبا حرکت کرنے کی کوشش کرے تو آپ مٹی کا بت بن کر اس کے سامنے کھڑے ہو کر “کر لو جو کرنا ہے ” کی عملی تفسیر بن جائیں .

ایسے انسان کا دماغی معائنہ کرانے کی ضرورت ہے جو اپنی حفاظت میں سامنے والے کو جواب دینا فضول سمجھتے ہے۔

میرا تعلق ایک متوسط گھرانےسے ہے ، سخت ترین ماحول ہونے کے باوجود میں نے کبھی خود کے چھونے پر کہیں سمجھوتہ نہیں کیا .شادی سے پہلے بھی کوئی ایسی ہی کوشش کرتا تھا تو بھری بس ہو یا بھرا بازار، اس کی درگت بنا کر ہی چھوڑی .شادی کے بعد بھی کئی ایک کی مرمت کرنے کی”سعادت ” نصیب ہوئی . الحمدللہ

مجھے یا مجھ جیسی خواتین کو اس سلسلے میں کوئی پریشانی نہیں ہے اس معاملے میں …اور “میرا جسم میری مرضی “کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہم اسے چارہ بنا کر جانور کے سامنے بھی رکھیں اور توقع بھی کریں کہ وہ اس میں منہ بھی نہ ماریں .مرد کی آنکھ میں حیا نہیں ہے تو ہم اپنے آپ کو ان کے لیئے شوکیس کا سامان کیوں بنا لیں. ہمیں ہی اپنی حیا کا خیال کر لینا چاہیئے . یہ کم لباسی سے بے لباسی کا سفر اور بد لحاظی سے بے حیائی کا سفر قرب قیامت کی ہی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے ۔ قیامت کی نشانیوں کو جلد پورا کر کے ہم خود قیامت کو ہر روز نزدیک لا رہے ہیں . جبھی تو اللہ تعالی نے قیامت کا کوئی مقرر وقت نہیں بتایا، بلکہ حالات بتائے ہیں کہ ایسا ، ایسا ، ایسا ہو جائیگا تو قیامت آ کے ہی رہیگی.آج کپڑوں میں بے لباس خواتین آذادی کے نام پر قیامت کو کھینچ کر اپنے گھروں تک لا ہی چکی ہیں تو آئے دن کے ہولناک واقعات پر روتی کیوں ہیں ؟ کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کے جذبات کو بھڑکانے کا انتظام بھی کرے اور پاکیزگی کا پرچار بھی . سامنے کھڑا ہر مرد نہ تو ولی ہے نہ پیغمبر ، جو بہک نہیں سکتا یا جو ورغلایا نہیں جا سکتا۔

اگر جسم میرا ہے تو اسے سنبھالنے اور چھپا کر رکھنے کا فرض بھی میرا ہی ہونا چاہئیے ..

ہاں اگر کوئی ہر حفاظتی انتظام رکھے لیکن کوئی اس کے حفاظتی حصار کو توڑ کر اس پر ڈاکہ ڈالے تو وہ قابل گرفت ہی نہیں بلکہ عبرتناک سزا کے بھی قابل ہے۔

اولاد اور خصوصا بیٹیاں ماں کے ہی نقش قدم پر چلتی ہیں۔ انہیں ایسی مثال دیجیئے کہ کل کو ان کی کسی غلطی پر سر اٹھا کر انہیں اپنی مثال دے سکیں ۔

وہ لوگ جو مذہب سے لباس کے مکمل ہونے کو خارج کرتے ہیں اور اسے پرانے خیالات کہتے ہیں ۔ انہیں اپنے دین کو مکمل طور پر پڑھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ کیونکہ مذہب صرف کچھ آیات کا رٹا لگا لینے یا اپنی کتابوں کی الماری میں کسی مخصوص کتاب یا نشان کو سجا لینے کا نام ہر گز نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک ضابطہ حیات ہے ۔ جو آپ کو کھانے پینے، سونے جاگنے ، اٹھنے بیٹھنے، ملنےملانے، بولنے چالنے، پہننے اوڑھنے، جینے مرنے غرض کہ زندگی میں پیش آنے والی ہر حرکت کے لیئے رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ جس طرز زندگی کو اپنا کر ہی ہم اس مذہب کے ماننے والوں میں اپنا نام درج کرواتے ہیں ۔

مذہب کبھی آوٹ ڈیٹڈ نہیں ہوتا بالکل اسی طرح جس طرح گاڑی چلانے کا ویلڈ لائسنس کبھی بیکار نہیں ہوتا ۔

تو جب تک آپ خود کو اس مذہب کا پیروکار کہتے ہیں تب تک آپ کو اس مذہب کو آوٹ ڈیٹڈ کہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ نفس کے ان رنگین دھوکوں سے بچنا ہی ہمارا امتحان ہے ۔جہاں ہمیں کسی اور سے نہیں بلکہ خود کو ہی خود کے نفس کے ان حملوں سے بچانا ہے ۔ یعنی خود کو خود سے بچانا ہی اصل کامیابی ہے۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس