سپریم کورٹ میں عدلیہ مخالف بینرز سے متعلق کیس کی سماعت

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (جیوڈیسک) عدلیہ مخالف بینرز آویزاں کرنے والوں کی تاحال نشاندہی نہیں ہو سکی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ذمہ داروں کا پتا نہیں چل رہا، ججز نے کہا کہ اسلام آباد میں اتنے ناکے لگے ہیںکہ چڑی بھی پھڑک نہیں سکتی، مگر ریڈ زون میں بینرز لگانے پر کسی کی نظر نہیں گئی۔

جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس اعجاز افضل پر مشتمل دو رکنی بنچ نےعدلیہ مخالف بینرز سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بینرز بنانے والے نے بتایا ہے کہ محمد رشید نامی شخص نے آرڈر دیا تاہم اسے اب تک گرفتار نہیں کیا جاسکا، جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ آپ کی کارروائی کیا یہی بتاتی ہے کہ 2 لوگ ذمہ دار تھے، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تفتیش کر رہے ہیں مگر ذمہ داروں کا پتا نہیں چل رہا۔

جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیے کہ یہ تو عجوبہ کارروائی ہورہی ہے، ذمہ داروں کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی، آپ کو نہیں پتا تو سیکریٹری دخلہ یا آئی جی سے پوچھیں، جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ اسلام آباد کے ہر کھمبے پر ایک سی سی ٹی وی کیمرا لگا ہوا ہے، ان کا کوئی کام بھی ہے؟ سب کی طرح ان کی گاڑی کو بھی روک کر پوچھا جاتا ہے کہ کون ہیں، کہاں جا رہے ہیں، ان بینرز لگانے والوں پر کسی کی نظر نہیں گئی؟ دوران سماعت جسٹس جواد خواجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلام آباد میں اتنے ناکے ہیں کہ چڑی بھی نہیں پھڑک سکتی۔

ججز نے کہا کہ بینرز کے توہین آمیز الفاظ پر اعتراض نہیں ، اعتراض یہ ہے کہ ریڈ زون میں بینرز لگے کیسے،عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ ہر اس شخص کو گرفت میں لیں جو قانون شکنی میں ملوث ہے۔ اور کیس سے متعلق پیش رفت رپورٹ پیش کی جائے۔