سپریم کورٹ میں غداری کیس کی سماعت

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد(جیوڈیسک) اسلام آباد جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا ہے کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو جب تک سزا نہیں ہوتی ،انہیں مجرم یا غداری کا مرتکب قرار نہیں دیا جا سکتا۔جسٹس جواد ایس خواجہ کہتے ہیں کہ آرٹیکل 6 کے حوالے سے یہ مقدمہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے ، اس میں سخت ترین سزا ہے جو سزائے موت یا عمر قید ہو سکتی ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کیلئے درخواست کی سماعت کی۔جسٹس جوا د ایس خواجہ نے کہا کہ تین نومبر کا آرمی چیف کا فرمان دو جمع دو کی مصداق ہے ، کیا پرویز مشرف نے ایمرجنسی کے نفاذ میں ساتھیوں سے مشاورت کا تحریری ثبوت دیا، درخواست گزار کے وکیل اے کے ڈوگر نے کہا کہ ایسا کوئی تحریری ثبوت نہیں دیا گیا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اتنا بڑا سانحہ ہوا، داخلہ اور قانون کی وزارتیں خاموش ہیں، اے کے ڈوگر نے کہا کہ 1976 کے سنگین غداری ایکٹ کی دفعہ تین کے تحت صرف وفاقی حکومت کا غداری کا مقدمہ درج کرانا آئین سے متصادم ہے ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سیکشن تین کے تحت مجاز افسر نے درخواست ہی دائر نہیں کرنی بلکہ عدالت بھی بننی ہے،چیزوں کو علیحدہ سے نہیں بلکہ پورے آئین کی روشنی میں
جانچنا ہے۔

اے کے ڈوگر نے کہا کہ اخبارات میں خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ پرویز مشرف جلد ملک سے باہر چلے جائیں گے ، پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ ان کی اپنے موکل سے کل ملاقات ہوئی، وہ ملک سے باہر جانے کی کوئی نیت نہیں رکھتے ،نگران حکومت نے تو جنرل پرویز مشرف کو پراسیکیوٹ کرنے کا بوجھ نہیں اٹھایا، اب دیکھنا ہے کہ نواز شریف حکومت یہ بوجھ اٹھاتی ہے یا نہیں، مزید سماعت تین جون کو ہو گی۔