سید علی گیلانی ایک عظیم مجاہد

 Syed Ali Gilani

Syed Ali Gilani

تحریر : روہیل اکبر

بھارت اپنی پوری فوج کو مقبوضہ کشمیر میں جمع کر لے تو تب بھی جذبہ آزادی کو ختم نہیں کرسکتا یہ خوبصورت الفاظ حریت رہنما اور مظلوم کشمیریوں کی مضبوط آواز جناب سید علی گیلانی کے ہیں جنہوں نے اپنی سانسوں کی ڈور ٹوٹنے تک ان الفاظ میں کمی نہیں آنے دی جن سے کشمیریوں نے کا حوصلہ بلند ہوتا ہو انہوں نے ہمیشہ حق اور سچ کا کھل کر ساتھ دیا اور سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ انکا توکل اللہ پر بہت کامل تھا اور توکل ہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے آگ ٹھنڈی کر دی جاتی ہے، جو ایڑیوں سے زم زم نکلوا دیتا ہے، جو دریا میں راستہ بنوا دیتا ہے، جو حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے ملوا دیتا ہے اورجو طوفان میں بھی کشتی نوح پار لگا دیتا ہے اوراب بہت جلد کشمیریوں کی کشتی بھی پار لگنے والی ہے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جبر کی جو داستانیں رقم کی گئی اب بہت جلد ان سے کشمیری بھائیوں کو نجات ملنے والی ہے کیونکہ تحریک آزدی کشمیر اس وقت اپنے عروج پر ہے اور اس تحریک کو عرج پر لے جانے والے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر کی ایک انتہائی توانا آواز بابائے حریت سید علی گیلانی سرینگر میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے بابائے حریت تحریک آزادی کشمیر کے سرخیل تھے ایک سوچ تھی ایک راہنماتھے ایک لیڈرتھے ایک نام تھا ایک پہچان تھی ایک شان تھی ایک ہمت و عزم اور حوصلے کا پیکر تھا ایک جدوجہد اور ایک عہدتھا جو تمام ہوا۔سید علی گیلانی کے اجداد مشرق وسطی سے ہجرت کر کے کشمیر میں آباد ہوئے تھے۔

وہ شمالی کشمیر کے سوپور قصبے میں کے ایک گاؤں کے آسودہ حال گھرانے میں 29 ستمبر 1929 کو پیدا ہوئے انھوں نے 1972،1977اور1987میں جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا وہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے خیالات اور علامہ اقبال کی شاعری سے بے حد متاثر تھے شعر و سخن سے شغف اور حْسنِ خطابت کی وجہ سے وہ بہت جلد اہم رہنما کے طور مشہور ہوگئے مقامی اسمبلی میں وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی وکالت کرتے رہے۔ بھارتی انتظامیہ نے سید علی گیلانی کو گزشتہ12 برس سے سرینگر میں گھر میں مسلسل نظر بند کر رکھاہوا تھاجسکی وجہ سے انکی صحت انتہائی گر چکی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کے ضلع بانڈی پور ہ میں جھیل ولر کے کنارے آباد گاؤ ں Zoorimanzمیں پیدا ہونے والے سید علی گیلانی سات دہائیوں تک سیاست میں سرگرم رہے۔ وہ کشمیرکی آزاد ی کیلئے انتھک جدوجہد کر تے رہے جس کی پاداش میں انہیں کم از کم 20برس تک بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں قید رکھا گیا۔ 27ستمبر 1929کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے ایک گاؤں میں پیداہونے والے سید علی گیلانی نے ابتدائی تعلیم سوپور سے حاصل کی اور اسکے بعد اورینٹل کالج لاہور سے اپنی تعلیم مکمل کی لاہور میں سید علی گیلانی نے اردو اور فارسی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بطور رپورٹر کام بھی کیا۔ سید علی گیلانی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس سرینگر منتقل ہوئے اور سیاست میں قدم رکھا۔ پہلی بار 1962 میں کشمیر کا ایشو اٹھانے پر گرفتار ہوئے اور 13 ماہ قید رہے۔

1965 میں ایک بار پھر گرفتار ہوئے اور 22 ماہ جیل میں رہے، 70 اور 80 کی دہائی میں سید علی گیلانی 3 بار مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے رکن رہے۔ 1987 میں سیاست چھوڑ کر حریت کا راستہ اپنایا۔ 1992 میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی تو سید علی گیلانی اس کا حصہ بن گئے۔ 2004 میں سید علی گیلانی اور اشرف صحرائی نے تحریک حریت کی بنیاد رکھی، بھارت سے آزادی تحریک حریت کے تین بنیادی مقاصد میں سے ایک تھی۔ حریت پسند سرگرمیوں کے باعث 12 سال سے زائد عرصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی، سید علی گیلانی اپنی سوانح حیات سمیت 30 کتابوں کے مصنف تھے۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1950میں کیا اور انہیں پہلی بار 1962میں قید کیا گیا۔ وہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ایک قد آور رہنما تھے اور کئی مرتبہ اس تنظیم کے امیر اور سیکرٹری جنرل رہے۔ انہوں نے تحریک آزادی کو زور و شور سے آگے بڑھانے کیلئے 2003میں اپنی تنظیم ” تحریک حریت جموں وکشمیر ” کی بنیاد رکھی۔ انہیں کئی مرتبہ جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کارکن بھی منتخب کیا گیا لیکن جب کشمیری نوجوانوں نے بھارتی غلامی سے آزادی کیلئے مسلح جدوجہد شروع کی توانہوں نے 1990میں اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔

سید علی گیلانی عارضہ قلب میں مبتلا تھے جبکہ 2007میں انہیں گردوں کے کینسر کی بھی تشخیص ہوئی تھی۔ زندگی کے آخری مرحلے میں انہیں سانس کی د شواریوں کا سامنا تھا۔ سید علی گیلانی ہمیشہ اپنے اصولوں پر کاربند رہے یہی وجہ تھی کہ مخالفین بھی اختلافات کے باوجود سید علی گیلانی کی ہمیشہ عزت کرتے تھے بانوے سال کی عمر میں داغ مفارقت دینے والے جناب سید علی گیلانی نے بہت عرصہ پہلے ’شہیدوں کے قبرستان‘ میں دفن کیے جانے کی خواہش کا اظہاربھی کیا تھا۔ اہل خانہ سید علی گیلانی کو انکی خواہش کے مطابق مزار شہدا قبرستان سری نگر میں دفن کرنا چاہتے تھے لیکن بھارتی فورسز نے سید علی گیلانی کے اہل خانہ سے حریت رہنما کا جسد خاکی چھین کر انتہائی سخت سکیورٹی میں ان کی تدفین کر دی۔ حریت رہنما سید علی گیلانی کے جنازے اور تدفین پر بھارت کا رویہ افسوسناک ہے بھارت حریت رہنما کے جنازے سے خوفزدہ تھاکشمیری عوام کو اپنے بزرگ رہنما کے آخری دیدار سے روکنا انتہائی افسوس ناک ہے ان کی مہک ہمیشہ کشمیر کی وادی میں رہے گی ان کی عظمت اور کردار ایک داستان ہے انہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا زندگی بھر اپنے موقف پر ڈٹے رہے،سید علی گیلانی نے جدوجہد آزادی کشمیر کیلئے رہنما اصول بنا دیئے ہیں جو کشمیری نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔

کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی کا انتقال ایک عہد کا خاتمہ ہے، سید علی گیلانی مرحوم نے آزادی کشمیر کو نئی جلا بخشی سید علی گیلانی جیسے بہادر اور جرات مند رہنما صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں، مرحوم شرافت، صداقت اور جرات کے پیکر تھے، سید علی گیلانی کی تمام تر زندگی جدوجہد آزادی میں گزری، مرحوم کی پاکستان سے دلی وابستگی تھی، سید علی گیلانی کی مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی کے حوالے سے عظیم قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سید علی گیلانی کی وفات سے آزادی جموں وکشمیر کا ایک تاریخ ساز عہد تمام ہوا،سربلند سرخرو سید علی گیلانی نے پاکستان اور کشمیریوں سے وفا کا حق اداکیا مرد آہن سید علی گیلانی ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے کا انقلاب آفریں نعرہ بلند کرتے سفرآخرت پر روانہ ہوئے،وہ ایک عظیم مجاہد، پختہ نظریاتی وابستگی کا چراغ، باعمل وباکردار صاحب بصیرت قائد تھے انہوں نے تمام عمر آزادی جموں وکشمیر کا پرچم تھامے رہے، مرد درویش نے حریت کی ایک تابناک تاریخ رقم کی، زنداں، جھوٹے مقدمات، جبرواستبدادکا کوئی ہتھکنڈا ان کے عزم صمیم کو متزلزل نہ کرسکا سید علی گیلانی آزادی جموں وکشمیر کی ایک ولولہ انگیز تحریک اور فکر کی صورت زندہ وجاوید رہیں گے سید علی گیلانی آزادی کے خواب آنکھوں میں سجائے اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے انا للہ و انا الیہ راجعون اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے، اہل خانہ، تمام وابستگان کو صبر جمیل دے۔ آمین سید علی گیلانی نے اپنے پیچھے لاکھوں آزادی کے متوالوں کو چھوڑا ہے جو ان کا مشن جاری رکھیں گے اور مجھے یقین ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان کے جس خواب کو سید علی گیلانی نے پوری زندگی سینے سے لگائے رکھا، وہ ضرور شرمندہ تعبیر ہو گا۔ ان شاء اللہ۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر