تہران میں مظاہرے اور برطانوی سفیر کی گرفتاری و رہائی

Demonstrations

Demonstrations

تہران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی دارالحکومت اور ملک کے کئی دیگر شہروں میں عوام نے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہو کر خامنہ ای کے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران برطانوی سفیر کی گرفتاری و رہائی پر لندن حکومت نے پرزور احتجاج کیا ہے۔

برطانوی حکومت نے ایرانی دارالحکومت تہران میں تعینات اپنے سفیر کو کئی گھنٹے تک حراست میں رکھنے پر شدید احتجاج کیا ہے۔ تہران میں قائم نیوز ایجنسی تسنیم کے مطابق برطانوی سفیر کو ایرانی دارالحکومت میں واقع امیر کبیر یونیورسٹی کے سامنے طلبا کو حکومت مخالف مظاہرے کے دوران اشتعال دلانے پر کئی گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا تھا۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈومینیک راب نے سفیر کی حراست کو بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی مظاہروں کے حوالے سے پر ٹویٹ بھی کیے ہیں۔ ان انہوں نے واضح کیا کہ ایران میں مظاہروں کی صورت حال پر نگاہ رکھی جا رہی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران حکومت خبردار کیا کہ وہ ان مظاہرین پر ظلم و جبر کرنے سے گریز کرے۔ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ وہ بہادر ایرانی مظاہرین کے ساتھ ہیں جو کئی برسوں سے مصائب اور تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق ایرانی حکومت پرامن مظاہرین کا قتل عام کر سکتی ہے مگر وہ یاد رکھے کہ دنیا کی اس پر نظر ہے۔

ایرانی دارالحکومت میں نئے مظاہرے اس حکومتی اعتراف کے بعد شروع ہوئے کہ یوکرائنی مسافر بردار جہاز غلطی سے میزائل کا نشانہ بنا۔ تہران میں ایک ہزار کے قریب عام لوگ یوکرائنی طیارہ مار گرانے کے حکومتی اعتراف کے بعد احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلے۔

ان مظاہرین نے مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر کو پھاڑا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی دستبرداری کے مطالبے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی جاری کی گئیں۔ یہ مظاہرے تہران کے علاوہ شیراز، اصفہان، حمدان اور ارومیہ میں ہوئے۔

احتجاج میں شریک مظاہرین سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے دستبردار ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ایسا ہی مطالبہ ایران کے اہم اپوزیشن رہنما مہدی کروبی کی طرف سے بھی سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خامنہ ای یوکرائنی کمرشل ہوائی جہاز کے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کروبی ایران میں اصلاحات پسند گرین موومنٹ کے رہنما ہیں۔

گزشتہ برس نومبر میں پٹرول قیمتوں میں اضافے کے بعد کئی بڑے ایرانی شہروں میں ہونے والے مظاہروں کو سخت حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا رہا تھا۔ یہ ایران میں چالیس سالہ اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سب سے شدید مظاہرے تھے۔ بعض ذرائع اُن مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ بیان کرتے ہیں۔ یہ مظاہرہ پندرہ نومبر سن 2019 کو شروع ہوئے تھے۔