تحریر : سید توقیر زیدی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ روز جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ایک معروف پالیسی ساز ادارے کے مباحثے میں شرکائسے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں کسی بھی قوم سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان ضرب عضب آپریشن کو کامیابی سے مکمل کر رہا ہے۔ انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ فاٹا کا علاقہ سرحد تک کلیئر کر دیا گیا ہے۔
دہشت گردوں کے رابطوں اور نیٹ ورکس کو ختم، سہولت کاروں اور ہمدردوں کو کیفرکردار تک پہنچا دیا گیا ہے؛ تاہم اس جنگ کی مکمل کامیابی کے لیے عالمی تعاون کی سخت ضرورت ہے۔ پاکستان گزشتہ تین عشروں سے دہشت گردی کے مسئلے سے نبٹ رہا ہے۔ اس مسئلے کے پیدا کرنے میں ہمارا اپنا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ یہ امریکہ اور سوویت یونین کی باہمی لڑائی تھی، وہ افغانستان میں آ کر گتھم گتھا ہوگئے۔ سوویت یونین کی یلغارسے افغان مہاجرین کا مسئلہ پیدا ہوا اور افغانستان کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی نے پاکستان میں پناہ لی۔
پاکستان نے کمزور معیشت کے باوجود افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہا۔ سوویت یونین منہ کی کھا کر، افغانستان سے رخصت ہوا، لیکن مہاجرین کی واپسی ممکن نہ ہو سکی، 11 ستمبر2001ء کو ٹون ٹاورز کے انہدام کا واقعہ ہوا،تو امریکہ نتائج و عواقب پر غورکیے بغیر نیٹو اتحادیوںکوہمراہ لے کر افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ اس جارحیت کے نتیجے میں مزید افغان مہاجرین پاکستان آگئے۔ افغان مزاحمتی تحریک نے، دہشت گردی کا روپ دھار لیا۔ امریکی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں نہ آئے، بلکہ دہشت گرد، یورپ اور امریکہ تک جا پہنچے۔ پاکستان نے 14 جون2014ء کو دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب آپریشن شروع کیا’جس میں اسے نمایاں کامیابی ہوئی ہے۔ جیسا کہ آرمی چیف نے بتایا کہ فاٹا کا علاقہ سرحدوں تک کلیئر کر دیا گیا ہے۔
Operation Zarb e Azb
دہشت گردوں کے رابطوں، نیٹ ورکس کو ختم اور ان کے سہولت کاروں اور ہمدردوں کو کیفرکردار تک پہنچا دیا گیا ہے۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستان کے 60 ہزار سے زائد شہری اور فوجی شہید اور معیشت کو ایک کھرب دس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچ چکا ہے، یوں پاکستان نے دہشت گردی کی اس جنگ میںکسی بھی ملک حتیٰ کہ افغانستان سے بھی، جو دوبار عالمی قوتوں کی جارحیت کا نشانہ بن چکا ہے، زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ اس جنگ کی کامیابی عالمی امن اور خطے میں استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پاکستان کے اس جہاد کو عالمی تعاون حاصل ہوتا، لیکن بدقسمتی سے بھارت نے اس لڑائی کو پاکستان کو زچ کرنے کے لیے استعمال کیا۔
افغانستان میں اپنے سیاسی و اقتصادی اثرورسوخ کو، ضرب عضب آپریشن کو ناکام بنانے پر صرف کیا۔ ”را” اور اس کے زیراثر افغان ایجنسی این ڈی ایس نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف پاکستان کی پشت میں چھرا گھونپنے کے لیے، بلوچستان میں شورش کو ہوا دی اور کراچی میں مختلف قسم کی ریشہ دوانیاں شروع کردیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ امریکہ اور عالمی برادری، یہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھارت کی حرکتوں سے چشم پوشی کیے ہوئے ہیں۔ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان کی جنگ کو پاکستان منتقل کیا جائے۔ ضرب عضب آپریشن کے مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے جو دہشت گرد فرار ہوئے، ان کا راہ روکنے کی بجائے انہیں افغانستان میں خوش آمدید کہا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کا مکمل قلع قمع کرنے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ تجزیاتی رپورٹ بی این پی کے مطابق ملا فضل اللہ اور اس قبیل کے دوسرے لوگ، جو پاکستان میں دہشت گردی کی بدترین وارداتوںکے ماسٹر مائنڈ ہیں’ افغانستان کی میزبانی اور بھارت اور امریکہ کی نوازشات سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
US Drone Attack
امریکہ کا ڈرون حملہ، بلوچستان میں ملا اختر منصور کو تو نشانہ بنا سکتا ہے،لیکن افغانستان میں بیٹھے، خطرناک دہشت گرد، ہر طرح سے محفوظ و مامون ہیں۔ یہ ہے امریکہ، بھارت اور بعض دوسرے ملکوں کا، دہشت گردوں کے خلاف رویہ اور پالیسی۔ اگر پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا فائدہ، افغانستان اور بھارت سمیت پوری دنیا کو ہوگا۔ لہٰذا عالمی برادری کو چاہیے کہ اسلحہ کی فراہمی کے علاوہ پاکستان کی مالی معاونت کی جائے، بھارت کو، پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے سے روکا جائے اور پاکستان کی امن کے لئے کوششوں کا اعتراف کیا جائے۔ پاکستان ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن انہیں کو بھی، اسی لہجے میں جواب دینا چاہیے۔ہمسایوں کو پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں ترک کر دینی چاہئیں گھیرائو کرنے کی پالیسی خطے میں امن و استحکام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی۔
ایران، بھارت اور افغانستان سے بہت قریبی بلکہ ”برادرانہ” تعلقات رکھ سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کا ”دشمن” نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح افغانستان بھی بے شک بھارت سے اچھے اقتصادی تعلقات رکھے، لیکن طفیلی بننے سے گریز کرے۔ افغانستان کی قسمت پاکستان سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں خوشحالی اور امن و استحکام کے بغیر افغانستان میں خوشحالی اور امن و استحکام نہیں ا? سکتا، خواہ بھارت اپنی ساری صلاحیتیں اورمالی وسائل افغانستان منتقل کردے۔ پاکستان نے آج بھی کم از کم 25 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھا رکھا ہے اور ان کی واپسی کو اس لئے بار بار موخر کیا جا رہا ہے کہ افغانستان کی معیشت پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔