بنت حوا کے نام

Woman

Woman

تحریر: مجید احمد جائی
عورت ایک ایسی معطر خوشبو ہے جس کے بغیر دنیا ئے چمن کی خوبصورتی نا مکمل ہے۔ عورت ایک ایسے مقدس رشتے کا نام ہے جس کے سرسے اگردوپٹہ سرک جائے تو اہل بریں کا سر شرم سے اور آنکھیں بحر تعظیم سے جھک جاتی ہیں۔لیکن جدت پسند معاشرتی بگاڑ اور ترقی کی ڈور میں کوشاں خود ساختہ معاشرتی اقدار نے عورت کے تقدس کو پامال کر دیا ہے۔اس نئی معاشرتی لغت نے عورت کے مقام و منزلت معانی و مفہوم کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے۔ گھر جسے عورت کا مسکن کہا جاتا ہے۔ اسے اجکل کے جدید معاشرے کی عورت نے خیر آباد کہہ دیا ہے۔وہی گھر جو عورت کے لئے راحت وسکون عزت کی علامت اور امن کا گہوراہ ہے۔

آج اسی گھر میں عورت کا دم گھٹا ہے۔اسے بوریت محسوس ہوتی ہے۔احساس کمتری کا احساس ہوتا ہے۔گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے جدید معاشریت،معاشرتی رجحان اور نئے طرز معاشرت نے حوا کی بیٹی کے ذہین سے انگار آبرو کو کھرچ ڈالا ہے۔ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔شرم و حیا کی آنکھوں پہ جدت پسندی اور فیشن کی سیا ہ پٹی باندھ دی گئی ہے۔نئی سوچ کے اس معاشرے نے عورت کی عصتموںکا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔پرانے رسم و رواج کو پرانا قصہ سمجھ کر حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔عریانیت،انا پسندی اور فیشن پرستی کو فروغ مل رہا ہے۔مشینی دور کی اس مہنگی زندگی نے عزت و آبرو کے وقار کو بڑے سستے داموں سر عام نیلام کر دیا ہے۔جدید فائیو اسٹار ہوٹلز،نائٹ کلب،ڈانس اکیڈمیز،فیملی پارک ،دیگر تفریحی مقامات دریاو جھیل کے کنارے عریاں جسموں کی کھلے عام نمائش،شراب کے چھلکتے ہوئے جاموں پہ حسن وشباب کی انجمن آرائیاں،جدید معاشرے کی اعلیٰ سوسائٹی میں باعث صد افتخار سمجھا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں لاتعداد رفاہی ادارے،بیوٹی ٹریننگ سنٹر،انجمن تحفظ نسواں،فلاح نسواں،وویمن ویلفر ٹرسٹز،ماڈرن وویمن انسٹی ٹیوٹ،وویمن سوشل سوسائٹی،وویمن رائٹس کونسل جیسے بے شمار ادارے تحفظ حقوق کی آڑ میں آبروئے نسواں کا شب خون کر رہے ہیں۔وہ عورت جو ماں،بہن اور بیٹی جیسے مقدس رشتے سے منظوم ہے۔ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ معاشرے نے اس عورت کو کال گرل ،نائٹ گرل جیسے بے ہودہ اور نازیباالقابات سے نوازا ہے۔ اس میں خوشی اور فخر محسوس کیا جاتا ہے۔رقص و مہ کی ان رنگین محفلوںمیں کتنی ہی دوشیزئوں کو رات کی خاموش تاریکی میں اخلاق کی بلندیوں سے گِراکے جرم و گناہ کی مجبوری و بے بسی کی دلدل میں پھینکا جاتا ہے۔انتہائی غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اس معاشرتی بگاڑ کا اصل ذمہ دار کون ہے۔؟فیشن کے افق پہ ابھرتا ہوا جدید ثقافت کا سورج،ہمارا جدید معاشرتی نظام قانون۔؟فیشن کے نام پہ آزادی نسواں۔؟عورت یا پھر ہمیشہ کی طر ح اس بار بھی یہ الزام مرد کے سر جاتاہے۔؟اور سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ مردو خواتین اپنی جملہ ذمہ داریاں اور تمام حقوق و فرائض پوری ایمانداری سے نبھا رہے ہیں۔؟ کیا مستقبل کے عظیم معماروں کی صیحح معنوں میں پرورش، نگہداشت، تعلیم و تر بیت ہو رہی ہے۔؟کیا قائد کے خوابوں اور فرمان کی تقلید ہو رہی ہے۔؟کیا اقبال کے شاہینوں کو مستقبل میں وطن عزیز کی باگ دوڑ سنبھالنے کے قابل بنایا جا رہا ہے۔؟کیا یہ تعلیم و تر بیت اور اعلی ٰتعلیم اور فیشن پرستی ستاروں پہ کمندیں ڈالنے کیلئے کافی ہے۔؟کہیں ہماری جدید معاشرتی تعلیم و تر بیت سے ان کی پرواز میں کوتاہی تو نہیں ہو رہی ہے۔وہ ننھے اطفال جو کہ جدید و اعلیٰ اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔جنہیںہم نے ڈاکٹر،انجنئیر،پروفیسر،پائلٹ،اور اعلیٰ آفیسر کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔کیا انہیںاچھا انسان اورمردمومن آج سے چودہ سو سال پہلے سے مرتب قرآن حکیم کے قانون سے متعارف بھی کروارہے ہیں۔دینوی تعلیم کے ساتھ انہیں اسلامی تعلیم و قانون سے بھی روشناس کروارہے ہیں۔سوچ طلب بات تو یہ بھی ہے کہ جن نو نہالان چمن کو ہم نے انگلش تعلیم کی غرض سے انگلش میڈیم سکول میں جدید ماحول میں ڈھالنے بھیجا ہے۔کہیں وہ ہماری روایت اور اسلامی تعلیم سے دور تو نہیں ہو رہے ہیں۔کیا حوا کی بیٹیاں جدید تعلیم سے آراستہ ہونے کے ساتھ اسلامی تعلیم سے اور کلچر سے محروم تو نہیں ہو رہی ہیں۔

Education

Education

سوچنے والی بات تو یہ بھی ہے کہ کیا ہماری آنے والی نسل ہماری نئی معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ ہے۔ یا قدیم اخلاقی اقدام سے روشناس ہے۔؟ایک بچہ جسے ماں کے دل کا ٹکڑا اور آنکھ کا تارا کہا جاتا ہے۔آج اسے پیدا ہوتے ہی حوا کی بیٹی کڈز کیئر ہاوس،چلڈرن کیئر سنٹر اور ڈبے والے دودھ کے حوالے کر دیتی ہے۔وہ بچی جس کی پہلی درس گاہ ماں کی گود اور ابتدائی مکتب آغوش ماں ہوتی ہے۔اس کو جدید معاشرے کی جدید تعلیم و تربیت کی غرض سے جدید مشینی نظام کی نذر کر دیا گیا ہے۔سنا ہے دنیا میں پہلا قتل عورت کے کارن ہوا تھا۔ماجراکیا تھا معلوم نہیں ہے۔پر معاشرتی روش کے آثار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آخری قتل بھی عورت کی کرم فرمائی پہ ہی ہوگا۔عورت کا جدید طرز لباس اس شہادت کو اور بھی سونے پہ سہاگہ کرتا ہے۔عورت جو اپنے گھر کی عزت و تکریم کی پاسدار،اپنے کنبے کے مستقل کردار کی عکاس ہوتی ہے۔وہی عورت اپنے مقام و مرتبہ سے بے نیاز پاکیزہ رشتوں کے تقدس کو جھٹلا رہی ہے۔شرم و حیا کی پیکر جہاں زندگی کے تمام پہلوئوں سے روگردانی ہوتی نظر آرہی ہے۔وہاں اپنی عزت کو مجروح کر کے جذبوں کی صداقت کو بھی نہایت کمزور کر رہی ہے۔اور اپنے لیے ذلت و تباہی کا سامان پیدا کر رہی ہے۔حالانکہ عورت مہر و و فا کا وہ چہکتا ہوا چمن ہے جو کنج گل کی آبیاری کرکے ہر کلی اور شگوفے کو گرم دھوپ کی تمازت سے بچاتا۔لیکن آج کے ترقی یافتہ معاشرے میں صورت حال اس کے بر عکس ہے۔اس حوالے سے کتنے قصے کہانیاں اور فساداتی المیے نت نئے فسانے جنم لے رہے ہیں۔عورت کی ذات سے منسوب کتنے کردار معاشرے کو بے شمار داستانوں میں تقسیم کر رہے ہیںاور صاف ستھری فضا کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ عورت کے لئے حجاب کو زنیت و تاج سے تشبیہ دی جاتی تھی۔وہ حجاب جو اسے معاشرے کی ہوس بھری نظروں سے بچاتا تھا۔اس دوپٹے کو عورت نے اپنے سر سے اتار پھنیکا ہے۔ آج کل معاشرے میں چادر کو گلے کا طوق سمجھا جاتا ہے۔دوپٹے اور چادر کو پرانے فرسودہ رواج کا قدیم ڈھکوسلا سمجھ کے عورت سے الگ کر دیا گیا ہے۔

ایسی خود ساختہ معاشرتی بے راہ روی نے بہکاوے کا جال ہر سو بچھا رکھا ہے۔ثقافت اور معاشرت فیشن پرستی کے سنہری اصولوں پہ استوار کی جا رہی ہے۔آج گھر کی دہلیز سے عالی شان ایوانوں تک عورت کے حقوق کی باز گشت تو سنائی دیتی ہے ۔لیکن اس سے عزت دار معاشرت کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔آج عورت ہر شعبہ زندگی میں حقوق کی جنگ کے لئے کلمہ حق بلند کرتی نظر تو آتی ہے۔لیکن جدت پسندی اور معاشرتی روگردانی کی تصویر واضح جھلکتی نظر آتی ہے۔عورت انصاف کے کہٹرے میں کھڑی ہو کے عصمت و عفت کے لٹ جانے کا تذکرہ تو کرتی ہے۔اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کا تذکرہ تو بقدر شوق کرتی نظر آتی ہے۔شوہر کے ظلم و ستم ساس کے امتیازی سلوک اور معاشرتی زیادیتوں کا پرچار تو سر عام کرتی ہے۔لیکن حقیقت سے خالی نعروں میں صداقت نہیں ہے۔یہ نعرے اور حصول حقوق کے نام پر صدائیںکھوکھلی اور بے معنی ہیں۔کیو نکہ تمام تر المیے میں عورت برابر کی شریک اور لازم و ملزوم ہے۔
بڑھتے ہوئے معاشرتی ترقی کے انقلاب میں عورت سب سے مضبوط آلہ کار کا کردار اداکر رہی ہے۔عورت اس معاشرتی افسانے کا مرکزی کردار ہے۔اگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائی تو ترقی کی دوڑ میں کوشاں جدت پسندی کی کتاب کا سرورق عورت ہے۔عورت اگر اپنے مقام و مرتبہ سے روشناس ہے تو جہاں شیریں گفتار،شائستہ مزاج ہے۔وہاں ارادوں کی سب سے مضبوط چٹان بھی ہے۔یوں تو عورت ایثار و قربانی کی عظیم مثال بھی ہے۔عورت وہ مضبوط سلطنت ہے جسے اس کی منساء اور رضا کے بغیر دنیا کا کوئی فاتح شہوار تسخیر نہیں کر سکتا۔معاشرتی ضمیر فروشی اور آسائشوں سے مزین پر لطف زندگی کے بے شمار پہلوئوں سے اس سلطنت میں دراڑیں ڈال کے اس کی بلند و بالا مضبوط فصیلوں کو کمزور بنا دیا ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کی آج بھی حوا کی بیٹی چھنے ہوئے افکار آبرو اور مقام و منزلت حاصل کر سکتی ہے۔اسے آج بھی کھویا ہوا وقار عزت و تکریم مل سکتی ہے۔اگر وہ آج بھی اپنے قول و فعل سے اپنی عزت آبرو کی امین بنے۔غیر معیاری طرز معاشرت اور جدت پسندی کے خول سے نکل کے دکھاوے کے کاغذی پھولوں کو مسلنا ہوگا۔ضمیر فروشی اور فیشن پرستی کے سیلاب کو روکنا ہوگا۔جس سے صاف ستھری ثقافت جنم لے۔ہماری آنے والی نسلیں فیشن پرستی کی بھٹی کا ایندھن نہ بنیں۔آج بھی اگر ایک عورت اپنے منصب و مقصد اور اپنے کردار کوحقائق کا آئینہ دار بنائے تو آج بھی سینکڑوں محمد بن قاسم،بہن اور بیٹی کی پکارپہ بنت حواکی آبرو کو بچانے کے لئے شمشیر زن ہونگے۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر: مجید احمد جائی
majeed.ahmed2011@gmail.com