اسلامی تاریخ

History Islamic

History Islamic

اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں جن ہستیوں کو اقتدار میں آکر محیرالعقول کارنامے سرانجام دینے کی سعادت ملی ان میں سیدنا امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کانام نامی بہت نمایاں ہے۔ تاریخ اسلام میں وہ سلطنت بنو امیہ کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔آپ کا خاندان مکہ مکرمہ کے مقتدر خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ آپ کے والد اور والدہ مکے رئیس اور متمول لوگوں میں سے تھے۔ گویا سیاست حکومت ا ور حکمت آپ کا خاندانی ورثہ تھا۔ امیر معاویہ سیادت وقیادت اور فہم وفراست علم و ہنر ، دن و دانش ، مہرو وفا ، جود وسخا کا حسین پیکر تھے ۔ان کی گفتگو حکیمانہ ، طرز معاشرت فیاضانہ اور طرز حکومت عادلانہ تھا ۔ آپ میں حکمت ودانائی ، جلال و جمال ، فصاحت وبلاغت اور امانت و صداقت کا حسین امتزاج پایا جاتاتھا ۔ جہانگیری ، کشور کشائی وجہاں آرائی ، عالمگیری و فرمانروائی کا جوہر بدرجہ اتم موجود تھا۔

سنہ ٤١ ھ میں آپ ساری مملکت اسلامیہ کے خلیفہ منتخب ہوئے ۔ان کا دارلخلافہ دمشق تھا کیونکہ یہاں سے دور دراز علاقوں پر آسانی سے حکومت کی جاسکتی تھی ۔ آپ کے ساتھیوں نے جن میں حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حاکم بصرہ زیاد بہت نمایاں ہیں انہوں نے خارجیوں کا قلع قمع کرکے ان کا زور توڑ دیا تھا ۔ اسی طرح سلطنت کے مشرقی صوبوں میں بھی بغاوتوں کو کچل دیا گیا تھا ۔ ان اندرونی شورشوں کے باوجود بہت سے نئے علاقے فتح ہوئے اور سلطنت کی مشرقی اور مغربی حدود زیادہ وسیع ہوگئیں۔ انہوں نے رومیوں کو بار بار نیچا دکھایا ۔ بڑی جانفشانی سے سلطنت کا انتظام کیا اور کئی نئے قاعدے اور قانون جاری کیے ۔آپ کا وجود امت میں ایک عبقری انسان اور رجل رشید کا وجود تھا ۔ جس نے اپنے دور اقتدار میں بحر روم کے ساحل انطاکیہ ( موجودہ استنبول) سے لے کر طرطوس تک فوجی مراکز قائم کیے ۔ تاریخ اسلام میں پہلا بحری بیڑہ تیار کرکے خشکی سے نکل کر سمندر کی وسعتوں پر بھی مسلمانوں کی حکمرانی و نگرانی قائم کردی ۔بحری فوج کی بنیاد ڈالی اور اس کے ذریعے بحرروم کے اہم جزیرے قبرص کو زیرنگین کرلیا۔

امیر معاویہ سیاست میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے ۔انہوں نے فتنوں کو دبایا ، افراتفری کو دور کیا ۔ آپ بڑے متحمل مزاج تھے اوراپنے حلم بردباری کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتے تھے۔ وہ دشمنوں کو زیر کرنے میں بھی عقل وتدبیر اور حلم و بردباری سے کام لیتے تھے اور تلوار اسی وقت سنبھالتے تھے جب دوسری تمام تدابیر ناکام ثابت ہوتی تھیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں تلوار سے اسی وقت کام لیتاہوں جب تازیانہ بیکار ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن اگرزبان ہی سے کام نکل آئے تو تازیانے کو بھی ہاتھ نہیں لگاتا ۔ اگر میرے اور میرے ساتھیوں کے درمیان بال برابر رشتہ بھی ہو تو میں اسے ٹوٹنے نہیں دیتا وہ کھینچتے ہیں تومیں ڈھیل دیتا ہوں۔ جب وہ ڈھیل دیتے ہیں تو میں کھینچتا ہوں۔ 665 میں قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا672ھ سے مسلسل دو سال تک مسلمانوں کے جہاز بحیرہ مامورا اور آبنائے فاسفورس پر چھاپے مارتے رہے۔

امیر البحر جنادہ بن امیہ نے روڈس کے جزیرہ پر قبضہ کرلیا اور ارداد اور کریٹ کے ٹاپوؤں میں بھی فوجیں اتار دیں۔ اسلام دشمنوں نے حضرت امیر معاویہ کی عظمت کے چاند کو گہنانے کی بہت کوشش کی اور انہیں چوتھے خلیفہ امیرالمومنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ چند معرکہ آرائیوں کی بنا پر نشانہ عداوت و بغض بنا ڈالا ۔ اور اتنی خاک اڑائی کہ تاریخ کا اصلی چہرہ ہی چھپ گیا۔ حالانکہ قرآن کریم نے دو اہل ایمان گروہوں کو ان کے متضاد نظریات کے باوجود انہیں مومنین کی صف میں باقی رکھا ہے۔ جیسا کہ سورہ الحجرات آیت ٩ میں ارشاد ہوا”اگر مومنوں کے دوگروہوں میں لڑائی ہو تو ان کے درمیان صلح کراؤ” یہ نہیں کہ آگ بھڑکاؤ ۔حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے باہمی مناقشات میں دخل دینا اپنی بدقسمتی پر مہر جڑنا ہے ۔کیونکہ مجموعی طور پر اصحاب رسول کی حیثیت ماں باپ سے لاکھوں درجے محترم و مقدس ہے کوئی بھی حلالی شخص اپنے ماں باپ کو نشانہ سب و شتم نہیں بناتا ان کی کمزوریوں ، خامیوں یا کوتاہیوں کے باوجود ان پر جرح نہیں کرتا ۔ اسی طرح اصحاب رسول کا مقدس گروہ بھی تنقید و تعریض سے مبراء ہے ۔ اسی طرح قرآن کریم کی یہ ہدایت بھی مسلمانوں کے پیش نظر رہنی چاہیئے کہ اللہ تعالی کا حکم ہے ۔”یہ ایک جماعت تھی جو گزرچکی جو کچھ اس نے کمایا وہ ان کا اور جو تم کماؤ گے اس کا حساب تم دو گے تم اپنے اسلاف کی کارکردگیوں کے جوابدہ نہیں ہوگے” َ (البقرہ:٣٤) یعنی فرمان الٰہی کے مطابق تاریخ کے ان المناک ابواب کو کھولنے کی بجائے وہ راستہ اختیار کیاجائے جو محفوظ ہے اور وہ ہے قرآن کریم اور حدیث رسول اللہ ۖ پر اعتماد۔

قرآن کریم نے اصحاب رسول کے بارے میں ایک ایسے زبردست اعزاز کی بات کی ہے ، جو کسی دوسرے گروہ کو نصیب نہیں ہوا کہ اللہ ان پر راضی ہوا اور وہ اللہ پر راضی ہوئے ۔ اللہ نے ان کیلئے ایمان کو پسند کیا اور اسی کو ان کے سینے میں سجا دیا اور ان سے معصیت و گناہ کے سارے مراحل یعنی کفر ، فسق اور نافرمانی وغیرہ سب ختم کردیے ۔یہ اللہ کا خاص فضل و نعمت ہے جو ان کے حصے میں ہی آیا کیونکہ وہ علم و حکمت والا ہے ۔ (الحجرات :٨)اس لیے اہل سنت کا صحیح موقف مشاجرات صحابہ کے بارے میں یہ ہے کہ ان کے بارے میں بحث نہ کی جائے اور ہر صحابی کو اہل جنت میں سے سمجھا جائے ۔ جیسا کہ قاضی عیاض نے الشفا فی تعریف حقوق المصطفی میں لکھا ہے : ”آنحضور اطہر واکرم ۖ کے احترام ، اعزاز اور محبت کے تقاضوں میں سے یہ بات بھی ہے کہ آپ کے ساتھیوں ، رفقائے کار کی عزت ، ان کا ادب اوران سب کا اعزاز و اکرام کرنا ، ان کے حق کو پہچاننا ، ان کی اتباع کرنا ، ان کی تعریف کرنا ، ان کیلئے دعائے رحمت و استغفار کرنا ، ان کے باہمی اختلافات میں دلچسپی نہ لینا اور مناقشات پر لب نہ کھولنا اور بدبخت مؤرخین ، بدعتی اور جاہلوں کی پھیلائی ہوئی جھوٹی خبروں کی طرف توجہ نہ کرناجس سے صحابہ کرام کی شان میں تنقیص و تحقیر پیدا ہوتی ہو۔

ایسی تمام خبروں کی اچھی تاویل کرنا چاہیئے ورنہ نظر انداز کردینا چاہیئے ۔بلکہ صحابہ کرام کی خوبیاں بیان کرنا ، ان کی تعریف و مدح کرنا اور ان کے ساتھ روز قیامت اٹھنے کی خواہش کرنا… یہ سب امور محبت رسول سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔جیسا کہ حق تعالیٰ نے سورہ الفتح کی آخری آیت میں ارشاد فرمایا۔” محمد ۖ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کفار پر شدید اور آپس میں رحیم ہیں’ تم انہیں دیکھتے ہو کہ وہ رکوع و سجود میں مشغول اور اللہ کے فضل اوراس کی رضاکی جستجو میں ہیں’ ان کی پہچان ان کے چہروں پر سجدوں کا نشان ہے’ ان کی یہ صفت تورات میں ہے۔ اور انجیل میں ان کی صفت یوں دی گئی ہے’کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے اپنی کونپل نکالی ، پھر اسے مضبوط کیا اور وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی ، جس سے کسان خوش ہوگئے ، اور اس کے پھلنے پھلنے پر کفار کے دل جلیں’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان ایماندار اور صالح اعمال والوں کو مغفرت اور اجر عظیم عطا فرمائے گا(٢٩)” اہل سنت کے اس صحیح و صائب موقف کو سمجھنے کے بعدحضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان اختلافات کو کس نظر سے دیکھا جائے ؟ سمجھ آسکتی ہے کہ ان کے باہمی جھگڑوں کو نظر انداز کرکے ان کی حقیقی خوبیوں کو اجاگر کیا جائے۔

سیدنا معاویہ کا اجمالی تعارف حضرت امیر معاویہ رسول اللہ ۖ کے برادر نسبتی یعنی ام المومنین حضرت ام حبیبہ کے حقیقی بھائی تھے ۔ یوں وہ خال المومنین (مومنوں کے ماموں ) کے لقب سے ملقب ہوئے ۔ آپ نے ایک جلیل القدر صحابی اور کاتب وحی ہونے کا بھی شرف حاصل کیا ۔یوں آپ بارگاہ رسالتمآب ۖ میں خصوصی مقام و مرتبہ کے حامل ٹھہرے ۔ نبی ۖ نے انہیں بیرونی مہمانوں کی خاطر و مدارات کی ذمہ داری سونپی تھی ۔ سیدنا امیر معاویہ حسب و نسب میں نہایت علی شان تھے ۔ ان کا نسب نامہ پانچویں پشت میں رسول اللہ ۖ کے نسب میں شامل ہوجاتاہے جبکہ والدہ چوتھی پشت میں عبدمناف پر جاکر رسول اقدس کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں ۔ امام ابن کثیر کہتے ہیں۔ ”حضرت معاویہ کی کنیت ابو عبدالرحمن ہے اور اہل ایمان کے ماموں اس لیے کہا گیا کہ یہ ام المومنین ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان کے بھائی تھے ۔ (البدایہ والنھایة ٨/١١٧)
رسول اللہ ۖ کی رحلت کے بعد بھی خلافت راشدہ میں وہ خلفائے راشدین کے معتمد علیہ اور مشیر خاص تھے ۔ دور فاروقی سے شہادت عثمان تک وہ دمشق کے قابل اعتماد گورنر اور اسلام کے سپہ سالار رہے ہیں اس بیس سالہ دور گورنری میں انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی عظیم خدمات سرانجام دی ہیں ۔ شہادت عثمان کے بعد قصاص عثمان اور قاتلان عثمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کے مسئلہ میں ان کے اور حضرت علی کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اوریہ المناک دور حضرت علی کی شہادت کے ساتھ ہی ختم ہوگیا اور نواسہ رسول سیدنا حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی صلح جو طبیعت اور حضرت معاویہ کے حسن تدبر سے یہ اختلاف ۔۔۔اتحاد میں اور عناد۔۔۔۔ اخوت میں تبدیل ہوگیا۔ اور حضرت امیر معاویہ گورنر سے امیر المومنین اور خلیفة المسلمین بن گئے۔ ان کے اس انتخاب سے پوری امت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی حتی کہ اس سال کو صلح کی طرف ہی منسوب کردیا گیا۔

حضرت معاویہ کی خلافت و امارت میں اسلامی عساکر کی فتحمندیاں پھر رواں دواں ہوگئیںجیسے پہلے تین خلفاء کے دور میں تھیں ۔ جہاد کا علم بلند ہوگیا اور اسلامی سلطنت کی حدود میں اضافہ ہونے لگا ۔ اسلام کی عظمت کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرانے لگا۔ ظاہر بات ہے انتشار کے بعد یہ یکجہتی ، زوال کے بعد یہ عروج و ترقی۔۔۔ اور تاریکی کے بعد یہ روشنی حضرت معاویہ کی کرشماتی شخصیت ان کے مجاہدانہ کرادر اور ان کے حلم و بردباری ، تدبر و بالغ نظری کا نتیجہ تھی ۔ لیکن تاریخ کے رطب و یابس ، روایات کے انبار میں اسلام کے اس بطل جلیل کی عظمت دب کر رہ گئی اور کذاب راویوں کے اڑائے ہوئے گردو غبار نے ان کا روئے آبدار مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے ۔ یوں اسلام کے اس عظیم ہیرو ،بے مثال مدبر اور نہایت کامیاب حکمران کی شخصیت گہنانے کی سعی نامشکور کی گئی۔

سیدنا معاویہ کے ابتدائی حالات بعثت نبوی سے پانچ سال پہلے آپ کی ولادت ہوئی ۔آپ بہت خوبصورت اور اونچے لمبے قد کے تھے۔ جیسا کہ حضرت اسلم مولیٰ عمربن خطاب کا بیان ہے۔ معاویہ ہمارے ہاں مدینہ منورہ آئے وہ گورے چٹے نرم و نازک اور خوبصورت اور ناز و نعم میں پلے تھے ۔ حضرت خبیب بن عدی کے مظلومانہ قتل کے وقت آپ کے والد جناب ابوسفیان ( جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) اس مجمع میں موجود تھے ۔ جب خبیب یہ دعا مانگ رہے تھے کہ” اے اللہ! انہیں ایک ایک کرکے شمار کرلے ۔ پھر انہیں بکھیر کر مار اور ایک بھی نہ چھوڑ” تو معاویہ نے اپنے باپ کو دیکھا کہ وہ خبیب کی بددعا کے ڈر سے معاویہ کو لے کر تیزی سے زمین کی طرف جھک گئے ۔ معاویہ کہتے ہیں!لوگوں کا کہنا تھا کہ جب آدمی پر بددعا کی جائے اور وہ اپنے پہلو پر لیٹ جائے تو بددعا زائل ہوجاتی ہے (ابن ہشام مقتل خبیب واصحابہ)
نوجوان معاویہ کے نفس پراس واقعہ کا بڑا اثر تھا وہ سوچتے تھے کہ اگرخبیب باطل پرتھے تو ان کے باپ نے انہیںکیوں خبیب کی بددعا کے وقت زمین پر ڈال دیا۔ گویاقتل خبیب کے اس واقعہ نے ان کے جی میں اپنے آباء واجداد کے عقائد کی بابت دراڑ ڈال دی تھی۔جس کانتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک عرصہ کے بعد ایک معین نقطہ نظرتک پہنچ گئے تھے ۔ صلح حدیبیہ کے سال خالد بن ولید جیسے جرنیل انسان کانفس بھی جاہلیت کے خلاف بھڑک اٹھا تھا ۔ عمروبن عاص اورمکہ کے سربراہ کے چوبیس برس کے نوجوان بیٹے کادل بھی اسلام کے نور کیلئے کھل جاتاہے ۔ان کی ماں مکے کی رئیسہ تھی جس کا باپ چچااوربیٹامحمدۖ کے ساتھ لڑائی میں مارے گئے تھے ، ان کازخم ابھی تازہ ہی تھا۔لیکن اسلام کے نورنے معاویہ کے دل میں ہلچل پیدا کردی (اصابہ٣٠/١٤) حضرت معاویہ کہتے ہیں عمرة القضاء ٧ ھ میں جب رسول اللہ مکہ میں داخل ہوئے تو اسلام میرے دل میں جاگزیں ہو چکا تھا ۔ ۔ اوراگلے سال جب حضور فتح مکہ کیلئے تشریف لائے تو میں نے اپنے والدین کے ہمراہ اسلام کا اظہار کر ڈالا ۔ عمرة القضاء کے موقع پر آپ نے رسول اللہ ۖ کے ہمراہ عمرہ ادا کیا ۔ طواف و سعی سے فارغ ہو کر آپ نے رسول اللہ ۖ کے بال قینچی کے ساتھ تراشنے کی سعادت حاصل کی تھی ۔اور ان بالوں کو انہوں نے ہمیشہ کیلئے محفوظ کرلیا۔ وفات کے وقت اپنے ساتھ قبر میں دفن کرنے کی وصیت فرمائی۔

حضرت ابوسفیان کا قبول اسلام فتح مکہ کے موقع پراسلام قبول کرتے وقت جناب ابوسفیان نے تین باتیں پیش کیں ایک میں عرب کی سب سے حسین وجمیل لڑکی عزہ بنت ابوسفیان نکاح کیلئے پیش کرتا ہوں۔ حضور ۖ نے فرمایا وہ میرے لیے حلال نہیں کیونکہ ان کی سگی بہن ام حبیبہ میرے نکاح میں ہیں۔دوسرا معاویہ کو اپنی رفاقت کیلئے منتخب کرلیں لکھنا پڑھنا جانتے ہیں۔ چنانچہ نبی ۖ نے انہیں کاتب وحی مقرر کرلیا اور تیسری یہ بات کہ مجھے سالار لشکر مقرر فرما دیں۔ آنحضور ۖ نے ان کی یہ بات بھی قبول فرما لی ۔( صحیح مسلم) ہند ہ کا اظہار محبت رسالت فتح مکہ کے موقع پر عکرمہ بن ابی جہل کی بیوی ام حکیم اور ہند بنت عتبہ ابو سفیان کی بیوی ، والدہ امیر معاویہ رسول اللہ ۖ کے ہاں آئیں ان کے ساتھ دس خواتین اور بھی تھیں ۔ تاکہ آپ کے دست مبارک پر بیعت کریں جب یہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں تو آپ کے پاس دوازواج مطہرات اور بیٹی فاطمہ اور بنو عبدالمطلب کی چند خواتین موجود تھیں۔ ہند نے بات شروع کی اور وہ اس وقت نقاب اوڑھے ہوئی تھیں ۔کہنے لگی ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے پسندیدہ دین کو غالب کیا میں قرابت داری کی بنا پر آپ سے رحم کی اپیل کرتی ہوں اور میں صدق دل سے اسلام قبول کرتی ہوں ۔ پھر اپنے چہرے سے نقاب اٹھا کر گویا ہوئی یا رسول اللہ میں ہند بنت عتبہ ہوں ۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا خوش آمدید ۔ پھر اس نے کہا یارسول اللہ ! ساری کائنات میں آپ کے گھر سے بڑھ کر کوئی گھر اور آپ کے خیمے سے بڑھ کر کسی کا خیمہ ایسا نہیں جس کی عزت آپ سے بڑھ کر ہو ۔ رسول اللہ ۖ نے یہ سن کر فرمایا اللہ تعالی تیرے پاکیزہ خیالات واحساسات میں اور زیادہ برکت دے ۔(بدایہ ج٤/٣١٩) اسلام قبول کرنے کے بعد ہندہ اس حالت میں گھر واپس لوٹیں کہ ان کا دل ایمان سے معمور تھا ان کی نظر گھر میں پڑے ایک بت پرپڑی وہ غضبناک ہوکر بت پرپل پڑیں اس کامنہ توڑ دیا اور اسے یہ کہتے ہوئے چکنا چور کردیا کہ کہ ہم تیرے بارے میں دھوکہ میں پڑے ہوئے تھے (ابن ہشام ج٤ ص ٢٧)
ہندہ بنت عتبہ کی حاضر جوابی اور پھرجب صفا کے قریب کھڑے ہو کرنبی ۖ نے عورتوں سے بیعت لینی شروع کی تو امیر معاویہ کی والدہ اور ابو سفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ بھیس بدل کر آئیں۔ جب حضورۖ نیفرمایا: میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروگی۔ اور چوری نہ کرو گی۔ اس پر ایک عورت بول پڑی کہ اللہ کے ساتھ شرک کا واقعی بے عزتی کا باعث ہے ۔ نبی پاک نے ہندہ کو پہچان لیا فرمایا: تو تم ہو ہندہ ! وہ بولی ہاں ہاں’ اے اللہ کے نبی۔ جو کچھ گزر چکا ہے’ اسے معاف فرما دیجئے۔

اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے ! پھر آپ نے فرمایا : اور زنا نہ کروگی ! اس پر ہندہ بولی: آزاد عورت تو سوچ بھی نہیں سکتی۔ پھر آپ نے فرمایا’ اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گی۔ ہندہ نے کہا’ ہم نے تو بچپن میں انہیں پالا پوسا لیکن بڑے ہونے پر آپ نے انہیں قتل کر ڈالا۔ اس لیے وہ اور آپ ہی بہتر جانیں ۔ ( یاد رہے کہ ہندہ کا بیٹا حنظلہ بن ابی سفیان بدر کے دن قتل کیاگیا تھا) اس کے بعد آپ نے فرمایا اور کوئی بہتان نہ گھڑو گی۔ ہندہ نے کہا’ واللہ بہتان بڑی بری بات ہے اور واقعی آپ شرافت اور اونچے اخلاق کاحکم دیتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا : اور تم کسی معروف بات میں رسولۖ کی نافرمانی نہیں کروگی۔ ہندہ نے کہا واللہ ہم یہاں دل میں یہ ارادہ لے کر نہیں بیٹھیں کہ آپ کی نافرمانی بھی کریں گی۔ ہندہ کی اس حاضر جوابی سے رسول اللہ ۖ بہت متاثر ہوئے اور تبسم فرمانے لگے۔ اور حضرت عمر کی یہ حالت تھی کہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ اسی موقع پر ہندہ نے رسول اللہ ۖ سے ایک مسئلہ دریافت کیا کہ اے اللہ کے نبی ! میرا خاوند مال خرچ کرنے میں بڑا محتاط ہے۔ اگر میں اس کے مال میں سے اس کی مرضی بناکچھ لے لوں تو ؟ابوسفیان نے جو وہیں کھڑے تھے’ بولے ہاں ہاں ! تم جو کچھ لے لو وہ تمہارے لیے حلال ہے۔ نبی کریم ۖ میاں بیوی کی نوک جھونک سُن کر مسکرا پڑے۔
ذرا تصور کیجئے رحمت عالم کی کرامت و نرم خوئی اور بلندی اخلاق کا کہ رحمت عالم نہ صرف اس کے ماضی کو نظر انداز فرما رہے ہیں۔ بلکہ اس کی حاضر جوابی اور بذلہ سنجی سے محفوظ بھی ہورہے ہیں۔ بھلا دنیا میں عفو و کرم کا ایسا مظاہرہ بھی کبھی دیکھا سنا؟ !
خاندانی طور پر حضرت امیر معاویہ کی وجاہت مسلمہ تھی ۔ سردار طائف عروہ بن مسعود ثقفی ابوسفیان کے بہنوئی تھے یہ وہی تھے جو اہل مکہ کی طرف سے قاصد بن کر رسول اللہ ۖ کے پاس آئے تھے۔

Islam

Islam

بعد میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور بڑی سرگرمی سے اسلام کی دعوت پھیلانا شروع کردی۔ جب انہوں نے طائف والوں کو اسلام کی طرف بلایا تو انہیں بدبختوں نے شہید کردیا۔رسول اللہ ۖ کو ان کی شہادت کی خبر ملی تو بہت افسردہ ہوئے اور فرمایا: ان کی مثال سورہ یاسین میں مذکور آدمی کی سی ہے ۔ طائف والوں سے جنگ میں حضرت ابوسفیان اپنے دونوں بیٹوں معاویہ اور یزید بن ابی سفیان کے ہمراہ شریک ہوئے ۔ لڑائی میں ان کی آنکھوں میں تیر لگا اور آنکھ بہہ گئی ۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا اگر چاہو تو دعا کروں اور آنکھ پلٹا دی جائے اگر چاہو اس کے عوض جنت کی بشارت ہے ابو سفیان نے کہا یا رسول اللہ مجھے آنکھ نہیں جنت چاہیئے ۔ یاد رکہ ان کی دوسری آنکھ جنگ یرموک میں دوران جہاد کام آئی ۔ (اصابہ ج ٣ ص ١٧٣) غزوہ حنین کی فتح کے بعد نبی ۖ نے حضرت معاویہ کو ایک سو اونٹ اورچالیس اوقیہ چاندی مرحمت فرمائی۔
قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں بھی کفر واسلام کے مابین بپا ہونے والے کسی معرکے میں بھی اسلام و مسلمانوں کے خلاف کسی کارروائی میں نوجوان معاویہ نے حصہ نہیں لیا ۔ حالانکہ بدر و احد اور احزاب جیسے مشہور و معروف معرکوں میںآپ کا کوئی نام نہیں آتا حالانکہ آپ اس وقت جوان رعنا تھے ۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے دل میں اللہ و رسول کی محبت موجود تھی ۔ کاتب وحی کا اعزاز اور دعائے رسولۖ مدینہ منورہ میں معاویہ کا قیام اپنی بہن اور ام المومنین حضرت ام حبیبہ کے گھر تھا ۔ انہوں نے رسول اللہ ۖ سے بھائی کے حق میں دعا کرنے کی درخواست کی۔ تب آپ نے یہ دعا مانگی الھم اجعلہ ھادیا مھدیا:اے اللہ اسے ہادی ومہدی بنا نقصانات سے محفوظ رکھ اوردنیا و آخرت میں عافیت دے (طبرانی عن عائشہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں) نبی ۖ نے انہیں اللہ کے حکم واجازت سے کاتب وحی جیسا عظیم الشان منصب عطا فرمایا جیساحضور ۖ نے وضاحت فرما دی کہ اے معاویہ! بخدا میں نے تمہیں کاتب نہیں بنایا ہے مگر وحی الٰہی کی بنیاد پر ۔اور معاویہ ہروقت قلم کان پر رکھ کر منتظر رہتے کہ اللہ کے رسول ابھی کچھ لکھنے کا حکم دیں گے۔

خاندان معاویہ کا اہل بیت رسول ۖ کے ساتھ بڑا مشفقانہ اور عظمت بھرا رویہ رہا ۔ دور جاہلیت میں جب لخت جگر نبوت سیدہ فاطمہ معصوم بچی کو ابوجہل نے تھپڑ مارا تو پیارے باپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ۔ بچی کو چپ کراتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے ! لخت جگر! تم اپنے چچا ابوسفیان کو جا کر بتاؤ ۔ بچی فاطمہ جب ابوسفیان کے پاس شکایت لیکر آئی تو ابوسفیان اسی وقت حرم کعبہ پہنچے ۔ ابوجہل اس وقت بیٹھا ڈینگیں مار رہا تھا ۔ انہوں نے زور دار تھپڑ اس کے منہ پر رسید کیا اور کہا تمہیں شرم نہیں آئی اس معصوم بچی کو رلاتے ہوئے ۔ خبردار آج کے بعد اگر تم نے ایسی حرکت کی ۔ تاریخ شاہد ہے اس کے بعد ابوجہل کو کبھی اہل بیت رسول کے ساتھ اس قسم کی بدتمیزی کرنے کی جرات نہیں ہوسکی۔ امیر معاویہ کی بہن میمونہ کی بیٹی لیلی کا نکاح حضرت حسین ابن علی رضی اللہ تعالی عنھماسے ہوا تھا جن کا ایک بیٹا ابوبکر جنہیں علی اکبر کہا جاتا ہے کربلامیں شہید ہوا ۔اس رشتے سے وہ حضرت معاویہ کا بھانجہ تھا۔ مسند احمد میں عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ کو میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ معاویہ کو کتاب و حساب کا علم عطا کراور انہیں عذاب سے بچا۔حضرت معاویہ نے ایک بار رسول اللہ ۖ وضوکیلئے پانی حاضرکیا جس پر آپ بہت خوش ہوئے اور وصیت کی معاویہ اگر اللہ تمہیں اقتدار عطا کرے تو اللہ سے ڈرتے رہنا اور عدل کرنا(احمدعن روح عن عمروبن یحیٰ اور ابی یعلی ) ایک اور موقعہ پر فرمایا: سنو تم میرے بعد جلد ہی امت کے ذمہ دار بنائے جاؤگے جب ایسا ہو تو تم ان کے نیکوکاروں سے درگزر کرنااور خطاکاروں سے چشم پوشی کرنا (ابن کثیر عن غالب القطان) بیہقی کی روایت میں ہے۔

آپ نے فرمایا اذا ملکت فاحسن جب تم حکمران بنو تو احسان کرنا) ایک بار حضرت عبدالرحمن بن ابی عمیرہ کی موجودگی میں معاویہ کیلئے اللہ کے رسول ۖ کیلئے یہ دعا فرمائی : الھم اجعلہ ھادیا مھدیا اے اللہ تو معاویہ کو ہدایت یافتہ اورہدایت دینے والا بنا اور اس کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے (ترمذی) حضرت ابن عباس کی شہادت رسول اللہ ۖ کی انہی دعاؤں اور خاندانی عظمتوں کی وجہ سے حضرت امیر معاویہ حکمرانی میں اس قدر لائق و فائق ہوئے کہ حبر الامہ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا میں نے معاویہ سے بڑھ کر کسی شخص کو حکمرانی کا اہل نہیں دیکھا ۔چونکہ حضرت معاویہ اپنی بہن اور رسول اللہ ۖ کی زوجہ محترمہ حضرت ام حبیبہ کے ہاں رہتے تھے اس لیے ہروقت رسول اللہ ۖ سے تعلیم اخذ کرتے رہتے تھے۔ جن احادیث میں حضرت معاویہ کو بہت دلچسپی تھی ان میں سے یہ احادیث نمایاں تھیں: حضرت معاویہ کی بیان کردہ احادیث ٭حضرت معاویہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ۖ کو سنا کہ آپ فرما رہے تھے کہ روز قیامت موذنین سب سے لمبی گردن والے۔ ہوں گے (مسلم حدیث ٧٨٣)٭ حضرت معاویہ سے روایت کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا” ریشم پہننے اور چیتے کی کھال کی سواری نہ کرو۔ (ابوداود عن معاویہ ج ٢) باب جلود النمور والسباع۔ وابن ماجہ (٣٦٥٦)٭ اپنی تعریف کرنے اورکرانے سے بچو کیونکہ یہ ذبح ہے۔یہ حدیث حسن ہے۔ابن ماجہ عن معاویہ حدیث 3743٭ امام بخاری نے کتاب العلم میں حضرت معاویہ کی یہ روایت ذکر کی ہے ۔ (بخاری)جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتاہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتاہے ۔اور میں علم تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ عطا فرمانے والا ہے ٭ نیز یہ کہ رسول اللہ ۖنے فرمایا کہ :یہ امت اللہ کے دین پر برابرقائم رہے گی ان کی مخالفت کرنے والے ان کو ضرر نہیں پہنچا سکتے یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے(بخاری)٭ یاد رکھو تم سے پہلے جو اہل کتاب تھے وہ بہتر ملتوں میں تقسیم ہوگئے اور یہ امت ٧٣فرقوں میں بٹ جائیں گے ۔ان میں سے ایک جنت میں جائے گی ٭ رسول اللہ ۖنے فرمایا: ہجرت بند نہ ہوگی یہاں تک کہ توبہ بند ہوجائے اورتوبہ اس وقت تک بند نہ ہوگی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہوگا۔٭ کل مسکر حرام ہر نشہ آور چیز ہرمومن پر حرام ہے۔

(ابن ماجہ عن معاویہ حدیث 3389)٭ رسول اللہ ۖنے فرمایا:اعمال تو برتن کی طرح ہیں جب اس کا نچلا حصہ نفیس ہوگا۔ تو اوپر والا بھی نفیس ہوگا۔اورجب نیچے والا فاسد ہوگا تو اوپر والا بھی فاسد ہوگا (ترمذی ابواب الدعوات۔ حدیث حسن)٭ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ جب مسجد میں لوگوں کے ساتھ بیٹھے ذکرالٰہی میں مشغول تھے رسول اللہ ۖ تشریف لائے اوریوں بیٹھنے کا مقصد پوچھا تو کہا ہم صرف اللہ کی خاطر بیٹھے ہیں۔تو آپ نے فرمایامجھے جبرئیل نے بتایا کہ اللہ تم پر فخر کرتا ہے ۔ (ترمذی ابواب الدعوات۔ حدیث حسن)ایک وقت تھا کہ لوگ جب ان کی تعظیم کی خاطر اٹھتے تھے تو انہیں بہت بھلا لگتاتھا لیکن اب جوں ہی کوئی ماننے والا کھڑا ہوتا تو اسے بیٹھنے کا حکم دیتے۔ اور فرماتے میں نے رسول اللہ ۖکو فرماتے ہوئے سنا: جسے اس بات پر خوشی ہوتی ہو کہ لوگ اس کے حضور کھڑے رہیں اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہیئے۔ (ترمذی عن معاویہ باب کراہیة القیام2903) حدیث حسن) اس طرح کے ارشادات نبویہ سے حضرت معاویہ کی تربیت ہوتی رہی انہوں نے یہ بھی سنا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا اعمال برتن کی طرح ہیں جب اس کا نچلا حصہ صاف ستھرا ہوگا تو اوپر والا بھی صاف ستھرا ہوگا اورجب نیچے والا گندہ اور آلودہ ہوگا تو اوپر والا حصہ بھی گندہ ہوگا (ترمذی ابواب الدعوات حدیث حسن)٭ معاویہ نے نماز کے مسائل میں رسول اللہ ۖ سے یہ بات یاد رکھی کہ” تم لوگ مجھ سے پہلے رکوع اور سجدہ میں نہ جاؤ میں جتنا پہلے رکوع و سجدہ کروں تم اتنا ہی مجھ سے پیچھے رہا کرو اب میرا جسم بوجھل ہوچکا ہے۔

رسول اللہ ۖ کے ہاں قیام اور آپ کی شفقت کے زیر سایہ اہتے ہوئے امیر معاویہ نے مذکورہ بالا احادیث کے علاوہ بھی بہت سی احادیث یاد رکھیں۔ گویا اس قسم کے شادات نبوی نے معاویہ کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ لیکن تین احادیث کا معاویہ کے نفس پر نہایت گہرااثر رہااوریہ اثر تاحیات رہا۔(١) اس جماعت سے متعلق جو حق پر قائم رہے گی اور اس کی مخالفت کچھ نقصان نہ کرسکے گی۔(٢) یادرکھو تم سے پہلے اہل کتاب بہترفرقوں میں بٹ گئے تھے اور یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ۔ بہترجہنم میں ہوں گے اور ایک جنت میں اور یہی جماعت ہوگی (عمرو بن یحی نے اتنا مزیداضافہ کیا ہے کہ میری امت میں ایسی قومیں نکلیں گی جن کے اندر یہ خواہشات اس طرح سرایت کرجائیں گی جس طرح کتے کے کاٹنے کازہر آدمی میں سرایت کرجاتاہے اس کی کوئی رگ وپے باقی نہیں رہتی مگر اس میں گھس جاتا ہے ۔(٣) ہجرت ختم نہ ہوگی یہاں تک کہ در توبہ بند ہوجائے اور در توبہ بند نہ ہوگا یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے ۔حضرت معاویہ کو انتہائی حرص تھی کہ وہ حق پر قائم جماعت کے ساتھ وابستہ رہیں ۔اسی طرح انہیں اس بات کی بھی حرص تھی کہ وہ فرقہ ناجیہ میں سے ہوں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ فرقہ ناجیہ وہی ہے جو حق پر ثابت قدم ہو اللہ کے حکم پر قائم ہو اور اس بات کو وہ اپنی سعادت سمجھتے تھے کہ وہ اس طائفہ کے امیر ہوں کیونکہ رسول اللہ ۖ نے انہیں بشارت دی تھی کہ وہ حکمران ہوں گے اور اللہ انہیں خلعت پہنائے گا۔لیکن اس کاحصول جہاد ہی کی راہ سے ممکن تھا کہ اللہ کی سرزمین پر پیش قدمی کرتے چلے جائیں۔

اپنے قدموں کو اللہ کی رامیں غبار آلودہ کریں ایک زمین سے دوسری زمین کی طرف ہجرت کریں اور ایک معرکے سے دوسرے معرکے میں منتقل ہوں ۔ اس لیے رسول اللہ ۖ جوں ہی اس دنیا سے تشریف لے گئے اور معاویہ جتنا کچھ آپ کے علم سے فیضیاب ہوچکے تھے اس کی بنا پر مجاہدین کے زمرے میں صف باندھ کر کھڑے ہوگئے ۔ انہوں نے اپنی طبیعت کو اس بات پر مطمئن کرلیا تھا کہ اسلامی دعوت کے معاندین اہل مکہ کے ایک فرد کی حیثیت سے ان کی زندگی کا جو پچھلا دور گزر چکاہے اسے لپیٹ کر رکھ دیں اور یہ پرواہ کیے بغیر جہاد کے خطرات میں کود پڑیں کہ اس کے نتیجے میں کن کن مشکلات اور آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑے گا اور کیا کیا قربانیاں دینا پڑیں گی ۔ان کے دل میں رسول اللہ ۖ کی یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ دنیا میں محض فتنے اور آزمائشیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ اللہ کی راہ کے سپاہی وفات نبوی کے فوراً بعدجہاد فی سبیل اللہ پر روانہ ہونے والے دستوں کا رخ جہاد کی طرف ہوگیا۔ حضرت صدیق اکبر نے حضرت ابوسفیان کے ہونہار لائق فرزند حضرت یزید کو ملک شام کے دارالحکومت دمشق کی فتح کیلئے منتخب کیا کیونکہ ابوسفیان خود بوڑھے ہوچکے تھے اصلاً مکہ کی کمان عرصہ دراز سے انہی کے ہاتھوں میں تھی ۔ لیکن اب ان کی ہمت نہ رہی تھی تو ان کے بیٹے کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ۔ پہلے خلیفہ رسول حضرت ابوبکرصدیق نے جب اس لشکر کو روانہ کیا تو مدینہ کے باہر تک انہیں رخصت کرنے کیلئے پیدل چلے۔ حالانکہ یزید سوار تھے انہوں نے خلیفہ سے کہا یاتو آپ بھی سوار ہوجائیں یا میں اترجاؤں۔ لیکن خلیفہ نے جواب دیا کہ نہ میں سوار ہوسکتا ہوں نہ تم اترو گے ۔ میں اپنے قدموں کو فی سبیل اللہ غبار آلودہ کرنا چاہتا ہوں ۔اور ساتھ ساتھ خلیفہ وقت انہیں وصیت کرتے جارہے تھے کہ ہمیشہ اللہ کا تقوی اختیار کیے رکھنااگر اچھی کارکردگی دکھاؤ گے تو عنداللہ بھی ماجور ہوگے ۔اس لشکر میں ابوسفیان اور معاویہ بھی شریک تھے۔ ابوسفیان نے ہر موقعہ پر سپہ سالار کو بروقت اور صائب مشورہ دیا جس کے نتیجے میں اللہ نے لشکر اسلام کو فتح عطا فرمائی اور دمشق ایک بڑے معرکے کے بعد زیرنگین آگیااور اس کی گورنری یزید بن ابی سفیان کو عطا کردی گئی۔حضرت یزید نے فوراً اسلامی دعوت کو پھیلانے کیلئے اردگرد میں قاصد بھیجے۔

Damascus

Damascus

حضرت دحیہ کلبی کو ایک فوجی مہم کے ساتھ شہر تدمر کی طرف روانہ کیا اور حضرت ابو زہرہ قشری کو بثیہ اور حوران کی طرف بھیجا اور خالد بن ولید کو حمص کو فتح کرنے کیلئے روانہ کیا ۔رومی سپہ سالار توذرا نے سوچا کہ اب تمام نامی گرامی سپہ سالار دمشق سے ہٹ کر دوسرے علاقوں میں پھیل چکے ہیں تو کیوں نہ دمشق میں اٹھائی جانے والی ہزیمت کا بدلہ لیا جائے۔ اس نے دمشق پر حملے کا منصوبہ بنایا جسے حضرت یزید نے پہلے ہی سے بھانپ رکھاتھا اس لیے خالد کو خبردار رہنے کا کہہ رکھاتھا۔ چنانچہ جونہی توذرا نے دمشق پر حملہ کیا یزید نے سامنے سے اورخالد نے پیچھے سے حملہ کرکے رومی سپہ سالار کے ہوش ٹھکانے لگا دیے ۔ حضرت معاویہ اس معرکے میں بھی شریک ہوئے ۔ قیساریہ کی کمان امیر معاویہ کے ہاتھ میں اسی دوران میں خلیفہ رسول حضرت ابوبکر صدیق جہان فانی سے کوچ کرگئے اور امت کی باگ ڈور حضرت عمر بن خطاب کے مضبوط ہاتھوں میں آگئی تو انہوں نے دمشق اور اس کے گردو نواح کی صورت حال کا جائزہ لیااور دمشق میں موجود امیر معاویہ کو ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے قیساریہ کی فتح کیلئے منتخب کیا ۔ امیر معاویہ نے قیساری کا محاصرہ کرلیا بڑی خون ریز جنگ ہوئی ٨٠ ہزارسے ایک لاکھ تک مشرکین قتل ہوئے اور قیساریہ کی کمان اللہ نے مسلمانوں کے ہاتھ تھما دی ۔اس معرکے سے امیر معاویہ نے اپنی فوجی زندگی کا آغاز کیا جس وقت اتنا بڑا معرکہ فتح کیا امیر معاویہ صرف ٣٣ برس کے تھے۔ قیساریہ کی اس فتح سے رومیوں پر مسلمانوں کی دہشت بیٹھ گئی۔ اسی کانتیجہ تھا کہ جب عسقلان کو فتح کرنے کیلئے روانہ ہوئے جو فلسطین کا ایک شہر تھا جب رومی سپاہ کو پتہ چلا کہ اس لشکر کی قیادت امیر معاویہ کررہے ہیں تو ان کے دلوں میں کمزوری پیدا ہوگئی ۔ انہوں نے ان کے ساتھ لڑنا مناسب نہ جانا اور صلح کرنے کی پیشکش کی، جسے حضرت امیر معاویہ نے قبول کرلی اور یوں فلسطین کا یہ علاقہ بڑی آسانی سے اسلامی قلمرو میں شامل ہوگیا۔

حضرت عمر فاروق کے دور ہمایوں میں اسلام کی سلطنت روز بروز وسعت پذیر رہی اور اس وسعت و ہمہ گیری میں جن جرنیلوں کے نمایاں نام ہیں ۔ان میں اس نوجوان معاویہ کانام بھی اپنے والد ابوسفیان اور بھائی یزید بن ابی سفیان کے ساتھ شامل ہے ۔شام کے بعد عراق میں دن بدن فارسیوں کے ساتھ خونریز معرکے برپا ہوتے رہے ۔ حتی کہ شامی فتوحات میں حضرت عمر بن خطاب کے ہاتھوں بیت المقدس کی فتح ایک بہت بڑا اعزاز تھا ۔ سنہ ١٦ میں حضرت سعد بن ابی وقاص کے ہاتھوں فارسیوں کے دارلسلطنت مدائن کی فتح اہل اسلام کیلئے ایک بڑی خوش کن خبر تھی۔ دمشق کی گورنری سنہ ١٧ ھ میں شام کا علاقہ طاعون عمواس کی بیماری کی لپیٹ میں آگیا اور عام لوگوں کی طرح اس میں مسلمانوں کی جلیل القدر ہستیاں بھی اس کی لپیٹ میں آگئیں ۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح ، عبدالرحمن بن معاذ اور معاذ بن جبل اور گورنردمشق یزید بن ابی سفیان بھی اس بیماری سے فوت ہوگئے ۔ ابوعبیدہ اہل اسلام کے محبوب ترین جرنیلوں میں سے تھے ۔ حضرت معاذ بن جبل کی عظمت و شان تو دور نبوی ہی سے مسلم تھی اور حضرت یزید کانام تو عالم اسلام میں ایک بہادر ، مدبر اور لائق و فائق حکمرانوں میں سے تھا ان کی وفات کوئی معمولی سانحہ نہ تھا اسلام کا بہت بڑا نقصان تھا ۔ ان تینوں لاجواب جرنیلوں کی یکدم وفات سے دمشق کی سرزمین خطرات میں گھر گئی۔ امیر المومنین کی فراست کسی ایسے شخص کاانتخاب چاہتی تھی جو ان تینوں جوانوں کی صحیح جانشین ثابت ہوسکے ۔ اپنے تدبر تقوی اور حاضر دماغی سے شام کے اس معرکة الآرا علاقے میں اسلام کے بڑھتے ہوئے قدم مزید بڑھاسکے۔ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقاپنے امراء کے انتخاب میں جتنے محتاط تھے شاید ہی کوئی حکمران اتنا سخت ہو ۔ چنانچہ انہوں نے کافی لمبی سوچ اور مشورے سے جس نوجوان کا انتخاب کیا وہ امیر معاویہ تھے۔

تاریخ ان کے حسن انتخاب کو سلام کرتی ہے ۔ جناب امیر معاویہ جو پینتیس برس کے خوبرو ، مدبر اور بہادر جرنیل تھے اور قیساریہ کی فتح کا عظیم الشان معرکہ سر کرچکے تھے انہیں دمشق کی گورنری امیر المومنین کی طرف سے عطا کردی گئی ۔ان کی اس عظیم منصب پر تقرری سے جہاں عام مسلمانوں میں اطمینان اور خوشی کی لہر دوڑ گئی وہاں آپ کے والدین کو بھی بہت مسرت ہوئی ۔ ان کی والدہ ہندہ بنت عتبہ جنہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد بہت اچھے کردار کا مظاہرہ کیا تھا اپنے بیٹے کو ایک خط لکھا:
پیارے بیٹے ! اللہ کی قسم تم جیسے بیٹے مائیں بہت خال خال جنم دیتی ہیں ۔امیر المومنین نے جس ذ مہ داری پر تم کو متعین کیا اس میں ہرگز سستی سے کام نہ لینا اور امیر المومنین کی اطاعت ہر حال میں کرنا خواہ تمہیں اچھی لگے نہ لگے ۔اور ان کے والد حضرت ابوسفیان نے لکھا:”بیٹے گروہ مہاجرین کے لوگوں نے اسلام کیلئے جو سبقت کی اس کی وجہ سے اللہ نے انہیں تقدم و سرداری عطا فرمائی ۔ اور ہم لوگ اس مہم میں ان سے کافی پیچھے رہ گئے تھے ۔ وہ سردار ہیں اور ہم ان کے تابع۔ اب یہ موقع ملا ہے تو اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اس میں کھپا دو اور اپنے آپ کو اس کے اہل ثابت کر دکھاؤ ۔(بدایہ ج ٨ ص ١١٨)اسی سال حجاز میں بدترین قحط پڑا جس کانام سخت خشک سالی کی وجہ سے عام الرمادہ پڑگیاتھا ۔ اس دور میں حضرت امیر معاویہ نے دمشق سے اور حضرت عمرو بن عاص گورنر مصر نے غلوں سے لدے ہوئے اونٹ مدینہ بھیجے ۔٢١-اور٢٢ ھ میں دیگر صحابہ کرام کی معیت میں امیر معاویہ کا رخ روم کی باقی بستیوں کی طرف ہوگیا۔ ان معرکوں میں جلیل القدر صحابہ کرام جیسے عبادہ بن صامت ، ابوذر غفاری اور شداد بن اوس کے اسمائے گرامی ممتاز تھے ۔امیر معاویہ کی قیادت میں عساکر اسلام سرزمین روم میں دور تک داخل ہوگئے ۔ وہ عموریہ کے دروازوں پر دستک دینے لگے ۔ ان کے سامنے زمین فراخ ہوگئی ۔ اور اللہ تعالی نے انہیں ہر طرف سے کامیاب و کامران کیا اور وہ اسلام کی سرزمین میں مزید وسعت دینے کے ساتھ ساتھ مال غنیمت لے کر لوٹے۔ مسلمانوں پر مال غنیمت کی بارش ہونے لگی ۔ شام میں مسلمانوں نے محسوس کیا کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوگیا ہے۔

سرحدوں پر مسلسل فتوحات ہورہی تھیں اور مال ان کے ہاتھ میں بہت زیادہ آگیا تھا ان کے امیر حضرت معاویہ کے تدبر ، سپاہیانہ فراست ، جانبازی اور دلیری اس کا بڑا سبب تھی ۔21ھ میں اللہ تعالی نے انہیں ایک فرزند سے نواز جن کانام تبرکاً انہوں نے اپنے چچا اور مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت یزید کے نام پر رکھا۔امیر معاویہ کے ہاتھوں ہونے والی برکات فتوحات کی خبریں مدینہ منورہ میں مسلسل پہنچ رہی تھیں ۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق نے متعدد صحابہ کرام کی معیت میں زیارت شام کا رخ کیا۔امیر معاویہ نے امیرالمومنین کے نہایت شاندار استقبال کی تیاری کی ۔لیکن امیر المومنین حضرت عمر حضرت عبدالرحمن بن عوف کے ساتھ گدھے پر سوار تھے ۔حضرت معاویہ کو طلب کرکے پوچھا کہ یہ اتنا بڑا لشکر تم نے کس مقصد کیلئے جمع کیا ہے ؟۔ امیر معاویہ نے کہا آپ کے استقبال کیلئے ۔ فرمایا میرا جی چاہتا ہے کہ تمہیں حکم دوں کہ مدینے تک پیدل چل کر آؤ ۔ امیر معاویہ نے اپنے دل اور جی کو مجتمع کرکے جواب دیا :امیر المومنین ہم ایسے ملک میں جہاں دشمن کے جاسوس بہت ہوشیار ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنی حکومت کی شان و شوکت اور دبدبہ ظاہر کریں ۔ تھوڑی دیر خاموش رہ کر امیر معاویہ بولے اگر آپ کو یہ انتظام ناگوار خاطر گزرتا ہے تو حکم دیجئے میں اس سے منع کردوں ۔ حضرت عمر معاویہ کا جواب سن کر خاموش ہوگئے تھے ۔اور اپنا درہ کرید رہے تھے ۔ پھر بولے کہ میں نے تم سے باز پرس کی ، تم نے ایسا جواب دیا جس سے میں شش و پنج میں پڑگیا اگر تمہاری بات سچ ہے تو جواب دانشمندانہ اور ٹھوس ہے اور اگر باطل ہے تو یقینا ایک ادیب کاخوش کن پیرایہ اظہار ہے ۔امیر معاویہ نے عرض کیا! آپ کا حکم سر آنکھوں پر جو فرمائیں گے تعمیل ارشاد ہوگی۔ حضرت عمر نے فرمایا اس کام کا میں تمہیں نہ تو حکم دوں گا اور نہ ہی منع کروں گا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف جو حضرت امیر المومنین کے ساتھ سوار تھے۔ حضرت عمر کی طرف مسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔ اس نوجوان کو جو ذمہ داری آپ نے سونپی ہے اسے کتنے خوشگوار طریقے سے نبھا رہا ہے ۔حضرت عمر نے جواب دیا۔

اس کی انہی صلاحیتوں اور حسن کارکردگی کی وجہ سے ہم نے اسے ذمہ داریاں سونپی تھیں (بدایہ ج٨ ص ١٢٤) اگلے سال جب رومیوں پر اہل اسلام کو غلبہ نصیب ہوگیا تو حج کے موسم میں حضرت معاویہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کیلئے حجاز کی طرف پابرکاب ہوگئے ۔ اور حسب عادت ان کے تیار کردہ سواروں کی جماعت نگاہوں کو ابھارنے والی تھی ۔ مدینہ منورہ کے مرد اور عورتیں اسی وارد عظیم کے متعلق باتیں کرتی تھیں ۔ حضرت عمر کے مولیٰ اسلم کہتے ہیں:ہمارے یہاں مدینہ میں امیر معاویہ آئے ۔ تو وہ گورے چٹے وجیہ خوبصورت اور پروردہ نعمت نوجوان تھے ۔ ان کے جسم پر سبز رنگ کا جوڑا تھا اس جوڑے کی دلفریبی و کشش اور خوبصورتی کے سبب تمام صحابہ کی نظریں مرکوز ہوگئیں ۔لیکن حضرت عمر نے کیا کیا کہ اچھل کر درہ اٹھا لیا اور معاویہ کو پیٹنا شروع کردیا۔اور فرمایا تیرے اندر سے خو بو نظر آئی جو مجھے پسند نہیں اس لیے تمہاری سرزنش کررہا ہوں۔ ورنہ میں نے تیرے اندر خیر کے سوا کچھ نہیں دیکھا ( بدایہ ج ٨ ص ١٢٥)حضرت عمر کے ساتھ حج کرکے امیر معاویہ ملک شام واپس آئے ۔ رومیوں نے ان کی دمشق سے غیر موجودگی سے فائدہ اٹھانے کا قصد کیا اور ایک بہت بڑا لشکر جمع کیا تاکہ اسلام کی سرزمین پر چڑھائی کرسکیں لیکن مرد جوان امیر معاویہ اس قسم کی تحریکات سے غافل نہ تھے ۔ ادھر عالم اسلام کو حضرت امیر المومنین فاروق اعظم کی اچانک شہادت کا المیہ برداشت کرنا پڑا ۔ اور خلافت کی باگ دور حضرت عثمان بن عفان کے ہاتھوں میں تھما دی گئی ۔امیر معاویہ نے رومیوں کی پیش قدمی سے پہلے دربار خلافت سے کمک مانگی ۔ جب یہ خط مدینہ پہنچا تو فاروق اعظم اپنے رب کے جوار رحمت میں پہنچ چکے تھے ۔حضرت عثمان نے خلافت کا بوجھ سنبھالتے ہی جس مہم کا سامنا کیا وہ امیر معاویہ کا یہی خط تھا ۔ چنانچہ مجلس شوری کی تجویز کے مطابق حضرت عثمان نے والی عراق ولید بن عقبہ کو حکم جاری کیا جب تمہارے پاس ہمارا یہ خط پہنچے توکسی بہادر جرنیل کی قیادت میں فوری طور پر دس ہزار سپاہیوں کا ایک لشکر مجاہدین شام کی مدد کیلئے روانہ کردو ۔ولید بن عقبہ نے خط ملتے ہی تین دن کے اندر اندر آٹھ ہزار مجاہدین سلیمان بن ربیعہ کی قیادت میں شام کی طرف روانہ کردیے پھر چند ہی دنوں میں باقی مجاہدین بھی حبیب بن مسلمہ فہری کی قیادت میں شام کی طرف بھیج دیے (ج ٨ ص ١٠٥)یوں امیر معاویہ نے فوری طور اسی ہزار فوجیوں کے رومی لشکرکے مقابلے کا اعلان کردیا۔ امیر حبیب جو عراقی لشکر کے قائد تھے ۔وہ رات بھر حملے کی منصوبہ بندی کرتے رہے ان کی بیوی نے یہ سن کر رات آنکھوں میں گزار دی ۔ صبح جب حبیب خیمے سے باہر نکلے تو بیوی نے پوچھا اب ہماری ملاقات کہاں ہوگی۔

حبیب نے جوابدیا تم سے ہماری ملاقات رومی لشکر کے جرنیل موریان کے خیمے میں ہوگی ۔ رومی لوگ ابھی خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے کہ انہیں محسوس ہوا کہ اسلامی لشکر نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ نعرہ اللہ اکبر کی آواز بلند ہوئی ہرطرف سے رومیوں کے خیموں میں لرزہ طاری ہوگیا اور موریان کے خیموں کے پاس مڈ بھیڑ ہوئی ۔ موریان ذبح کردیا گیا۔ اسلامی سپاہ کے قائد حبیب موریان کے خیمہ میں دا خل ہوئے تو پہلی نظر میں اس جگہ موجود ایک شخص نے انہیں حیرت زدہ کردیا ۔یہ حبیب کی بیوی تھی جو ان سے پہلے موریان کے خیمہ میں پہنچ گئی تھی اس طرح اس عظیم شجاعت کا سہرہ اس مسلم خاتون کے سر بندھا۔ قبرص کی فتح…عظیم الشان معرکہ قیساریہ اور فلسطینی شہر عسقلان کی معرکہ آرائیوں کے بعد امیر معاویہ کی توجہ جزائر قبرص کی طرف منتقل ہوئی جو ان کے قریبی علاقے میں واقع سمندرتھا ۔ امیر معاویہ اسے اسلامی سمندر دیکھنا چایتے تھے جہاں کلمہ توحید بلند ہو ۔ انہوں نے اس جزیرے پر سے رومیوں کا قبضہ چھڑانے کا سوچا اور امیرالمومنین حضرت عمر سے اس بحری جنگ کی اجازت مانگی جو نہ ملی۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمان کے دور میں حالات کافی بدل چکے تھے ۔ اور خلیفہ کی تیز نگاہیں مستقبل کو بہت قریب سے تاڑ رہی تھیں ۔ انہوں نے کئی دفعہ انکار کیا لیکن آخر کار راضی ہوگئے ۔ یہ وہی غزوہ تھا جو کئی سال پہلے رسول اللہ ۖ کی زبان اقدس سے بابرکت قرار پاچکا تھا جب آنحضور ام حرام کے گھر قیلولہ فرما رہے تھے اچانک ہنستے ہوئے بیدار ہوگئے پوچھنے پر بتایا کہ میری امت کے کچھ افراد سمندرپر سوار ہوکر تخت شاہی پر بیٹھے بادشاہوں کی طرح جنگی مہم پر جارہے ہیں۔

یہ سب لوگ بخشے جائیں گے ۔ ام حرام نے درخواست کی کہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل ہونا ہے ۔ تب ان کو بھی بشارت مل گئی۔حضرت عمر نے لشکر کشی کی اجازت دینے سے انکار اس بنا پر کیا تھا کہ وہ ایک مسلمان کی جان سارے رومیوں کی دولت و حکومت سے زیادہ قیمتی سمجھتے تھے ۔ حضرت عثمان نے بھی یہ اجازت اس شرط پر دی تھی کہ لوگوں کو اختیار دیاجائے ۔ زبردستی ساتھ نہ لیجایا جائے لیکن جب حضرت معاویہ نے مجاہدین کے سامنے یہ مسئلہ رکھا توکبارصحابہ نے بھی اپنے جذبات میں ہلچل محسوس کی کیونکہ اس کے بارے میں جنت کی بشارت موجود تھی۔ حضرت ابوذر غفاری ، عبادہ بن صامت ان کی بیوی حضرت ام حرام بنت ملحان ، مقداد بن عمرو ، ابودرداء شداد بن اوس سمیت متعدد نامی گرامی صحابہ نے اپنے آپ کو تیار کرلیا۔پہلی بار لشکر اسلام بحری جہازوں پر سوار ہوکر اس طرح روانہ ہوا جس طرح رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا یعنی شاہی تختوں پر بادشاہوں کی طرح ۔ تاریخ اسلام میں پہلی مرتبہ شام کے لوگ سمندر کے سفر پر امیر معاویہ کی قیادت میں روانہ ہو رہے تھے ۔مصر سے عبداللہ بن سعد السرح چلے ۔ دونوں لشکروں کی ملاقات قبرص کے قلعوں پر ہوئی۔ اچانک قبرصی لوگ محاصرہ میں تھے ۔ انہوں نے مقابلہ کرنا چاہا پھر ان کے اعصاب جواب دینے لگے اور توشہ ختم ہونے لگا وریں صورت خود سپردگی اور مصالحت کے علاوہ ان کیلئے کوئی چارہ نہ رہا اور سات ہزار دینار سالانہ جزیہ دینے پر صلح ہوگئی ۔ پہلے یہ لوگ رومیوں کو خراج دیا کرتے تھے ۔ حضرت عبادہ بن صامت کی اہلیہ ام حرام یہیں فوت ہوگئیں اور ان کی قبر جزیرہ قبرص ہی میں بنی۔

سنہ٣٠ ھ میں یہودیوں کی اسلام کے خلاف سازش بال و پر نکالنے لگ گئی ۔اس فتنہ کا لیڈر عبداللہ بن سبا یہودی تھا اس نے کامیابی حاصل کرنے کیلئے دو عنوان چنے یعنی اول توبعض مسلمانوں کی نیکو کاری کو ورغلایا اوراللہ کا مال سب کیلئے کا نعرہ منتخب کیا ۔ حکومتوں کی مالی پالیسیوں کو مور الزام ٹھہرا کر حضرت ابوذر جیسے شریف النفس متدین اور زاہد صحابی کو ان کے خلاف بھڑکایا لیکن حضرت امیر معاویہ سے مل کر ان کی غلط فہمیاں دور ہوگئیں اور وہ مطمئن ہوکر لوٹے ۔ یہاں سے ناکام ہو کر پھر ابن سوداء یعنی ابن سبا حضرت عبادہ بن صامت سے ملا اور انہیں بھڑکانے کی کوشش کی مگر انہوں نے اس میں فتنے کی بُو محسوس کرلی اور ابن سبا کو پکڑ کر حضرت معاویہ کے پاس بھیج دیا کہ اسی بدبخت نے حضرت ابوذر کو آپ کے خلاف ابھارا ہے ۔ آخرکار حضرت ابوذر کو امیر المومنین حضرت عثمان نے واپس مدینہ منورہ بلا لیا ۔ اور یوں ایک نئی تحریک کے بال و پر کٹ گئے اور ابن سبا ناکام و نامراد ہوا۔
امیر معاویہ چار سال سے دمشق کے گورنر چلے آرہے تھے۔ والی حمص حضرت عمیر بن سعد اپنی علالت کی وجہ سے گورنری سے مستعفی ہوگئے ۔ حضرت فاروق نے حمص کی گورنری بھی حضرت معاویہ کے سپرد کردی ۔بعض لوگوں نے ان کی نوعمری کی وجہ سے اس عہدے پر ان کی تقرری کی مخالفت کی لیکن حضرت عمر کا استدلال تھا کہ رسول اللہ ۖ نے ان کے حق میں دعا فرمائی ہے (ترمذی عن عبدالرحمن بن ابی عمیرہ ۔ تاریخ طبری ج٣ ص٢٣٦) اس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ امیرالمومنین سیدنا عمر بن خطاب کے نزدیک حکومتی عہدیداروں کے تقرر میں سب سے بڑی صلاحیت ان کی دینداری میں پختگی تھی اور یہی سوچ آپ کے عمال کی بھی تھی جیسا کہ دور فاروقی میں حضرت نافع بن حارث مکہ کے گورنر تھے اور انہوں نے جنگلات کا ناظم عبدالرحمن بزی کو مقرر کیا۔

جو ایک غلام تھے ۔ حضرت عمرنے پوچھا غلام کو یہ منصب کیوں دیا گیا۔ گورنر نے کہا کیونکہ وہ کتاب اللہ کا زیادہ پڑھنے والا ہے ۔ حضرت عمرنے فرمایا سچ ہے ان اللہ یرفع بھٰذا الکتاب اقواما ویضع بہ آخرین۔ اللہ تعالی اس کتاب کی وجہ سے بعض کو بالا اور بعض کو پست کردیتا ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور اقتدار میں ہندوستان، کابل ، بلخ ، بخارا، سمرقند اور سرزمین شام کے بیشتر علاقے مفتوح ہوئے ۔ افریقہ کے بیشتر علاقوں پر آپ کے جرنیل عقبہ بن نافع کی قیادت میں پرچم اسلام لہرانے لگا۔ جنگجو قوم بربر کو زیرنگین کیا البدایہ والنہایہ میں ابن کثیر نے لکھا ہے کہ لشکر اسلام حضرت عقبہ بن نافع کی قیادت میں گھنے جنگل میں داخل ہوا ۔ رات گہری ہونے لگی جنگل کے درندے اور موذی جانور اپنی کمین گاہوں سے نکلنے لگے جس سے لشکر اسلام میں خوف و ہراس پیدا ہونا قدرتی امر تھا ۔ امیر لشکر نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے اللہ سے دعا کی اور پھر بآواز بلند جنگل کے درندوں سے مخاطب ہو کر کہا ۔ اے جنگل کے درندوں آج کی رات یہاں غلامان محمد پڑاؤ کرنا چاہتے ہیں لہذا تم سب یہ جنگل خالی کردو ۔ اس اعلان کے گونجتے ہی لوگوں نے یہ منظر اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھا کہ درندے اپنے بچوں کو اٹھائے ہوئے جنگل سے بھاگے چلے جارہے ہیں ۔ یاد رہے کہ اسی جنگل میں پھر ایک بستی تعمیر کی گئی جس کا نام قیروان ہے اور یہ شہر آج تک آباد ہے ۔سیدنا امیر معاویہ نے ہند ، روم اور افریقہ میں فتوحات حاصل کرنے کے بعد داخلی نظام کو مربوط کرنے کی طرف توجہ دی۔ عامة الناس کو عدل و انصاف فراہم کرنے کیلئے قابل قاضیوں کی تقرریاں کیں۔

زراعت کو فروغ دینے کیلئے نہریں کھدوائیں ۔ حفاظتی نقطہ نظر سے قلعے تعمیر کروائے ، مساجد کی تعمیر اور ان کا نظام بہتر بنانے کیلئے اقدامات کیے ۔پیغام رسانی کیلئے ڈاک کا محکمہ تشکیل دیا ۔طب یونانی کو عربی میں منتقل کروایا۔ رعایا کے کمزور طبقے کو خوشحال بنانے کیلئے وظائف تقسیم کیے ۔ کبار صحابہ ، ازواج مطہرات اور خا نوادہ رسالت کی خدمت گزاری کیلئے وافر مقدار میں تحائف اور عطیات بھیجتے رہے۔ام المومنین حضرت عائشہ نے ایک مسکین کی حالت دیکھ کر فرمایا اگر میرے پاس دس ہزار درہم بھی ہوتے تو میں تمہیں دے دیتی ۔ اسی شام حضرت معاویہ نے دس ہزار درہم بھجوا دئیے جو اسی وقت ادا کردئیے۔ روضہ رسول ۖ کی جگہ کا سودا حضرت امیر معاویہ نے حجرہ عائشہ جہاں قبررسول تھی اسے خریدکرعوام کے نام کردیااورجگہ کی قیمت ایک لاکھ اسی ہزار درہم لگائی ۔جو ام المومنین نے اسی وقت صدقہ کردی گویا روضہ رسول کی موجودہ جگہ صدقہ جاریہ ہے حضرت امیر معاویہ کا۔تمام لوگ ان کی فیاضی ہمدردی اور خوش اخلاقی سے بہت خوش تھے ۔ آخر کار بیاسی سال کی عمر میں ١٥ رجب ٦٠ ہجری میں وقت اجل آپہنچا اور آپ نے وفات پائی ۔ آپ نے بیس سال گورنر دمشق اور انیس سال پورے عالم اسلام کے خلیفہ کی حیثیت سے حکمرانی کے فرائض کامیابی سے سرانجام دیے ۔ آپ کے جنت الفردوس منتقل ہونے کی خبر نے پورے عالم اسلام کو سوگوار کردیا کیونکہ آج وفات پانے والی شخصیت نے سرزمین شام ہی نہیں پوری مملکت اسلامیہ کو اپنے تدبر حسن عمل و کردار سے دیوانہ بنا رکھا تھا۔

رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ منگل١٣اپریل٢٠١٠ سورہ الفتح میں مزید ارشاد ہوا ”بے شک اللہ مومنوں سے خوش ہو گیا جب وہ درخت تلے تم سے بیعت کر رہے تھے ، ان کے دلوں میں جو تھا وہ اس نے معلوم کر لیا۔ اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی اور انہیں قریب کی فتح بخشی (١٨) اور بہت سی غنیمتیں جنہیں وہ حاصل کریں گے ، اور اللہ غالب حکمت والا ہے(١٩)سورہ الاحزاب میں فرمایا: مومنوں میں ایسے مرد بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ سے کیا تھا اسے سچا کر دکھایا’ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی موقعہ کا منتظر ہے اور کسی نے بھی اپنا رویہ نہیں بدلا ( ٢٣ )سورہ التوبة میں فرمایا:”اور وہ مہاجرین اور انصار جو سب سے پہلے دعوت ایمان قبول کرنے میں سبقت لے گئے نیز وہ جو راستبازی میں ان کے پیچھے آئے اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے (١٠٠) قاضی عیاض نے اس کے بعد ان روایات کا ذکر کیا ہے جن میں صحابہ کرام کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ ٭مثلاً ایک حدیث میں آتاہے کہ حضور ۖنے فرمایا لوگو :میں ابوبکر سے خوش ہوں، میں عمر سے ، علی سے ، عثمان سے ، طلحہ سے ، زبیر سے ، سعد سے ، سعید سے ، عبدالرحمن بن عوف سے اور ابو عبیدہ سے خوش ہوں۔ تم ان کا مرتبہ پہچانو ۔٭اے لوگو! حق تعالیٰ نے جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کی اور بیعت رضوان میں شریک ہونے والوں کی مغفرت فرما دی ہے ۔٭تم میرے صحابہ کے بارے میں میرا لحاظ کیا کرو اور ان لوگوں کے بارے میں جن کی بیٹیاں میرے نکاح میں ہیں یا میری بیٹیاں ان کے نکاح میں ہیں۔

ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ روز قیامت تم سے کسی ظلم کے بدلے کا مطالبہ کریں پھر وہ معاف نہیں کیا جائے گا٭ایک اور حدیث میں ہے کہ میرے ساتھیوں اور میرے دامادوں کی رعایت کیا کرو۔ جو ان کے بارے میں رعایت کرے گا اللہ دنیا و آخرت میں اس کی حفاظت فرمائیں گے ۔اور جو ان کے بارے میں میرا بھی لحاظ نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے بری ہیں ۔ اور جس سے اللہ بری ہوجائے وہ اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتا ٭ میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، ان کو ملامت کا نشانہ نہ بناؤ جو شخص ان سے محبت کرتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ میری وجہ سے بغض رکھتا ہے ۔جو شخص ان کو اذیت دیتا ہے وہ مجھے اذیت دیتا ہے ، عنقریب وہ اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتا٭ حضور نے فرمایا میرے صحابہ کو گالیاں نہ دیا کرو اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کی برابر سونا خرچ کرے تو وہ ثواب کے اعتبار سے صحابہ کے ایک مد یا آدھے مد کی برابر بھی نہیں ہوسکتا ٭ ایک روایت میں ہے کہ جو میرے صحابہ کو گالیاں دے اس پر اللہ کی لعنت اور فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ۔ نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل ٭ اللہ نے انبیاء کرام کے بعد تمام مخلوق میں سے میرے صحابہ کو چھانٹ لیا ہے اور ان میں سے چار کو ممتاز کیا ہے ۔ ابوبکر و عمر وعثمان اور علی ۔ان کو تمام لوگوں پر فضیلت دی ۔سہل بن عبداللہ تستری کہتے ہیں کہ جو شخص صحابہ کی تعظیم نہ کرے وہ حضور پر ایمان ہی نہیں رکھتا ۔حضرت ایوب سختیانی کہتے ہیں کہ جس شخص نے ابوبکر سے محبت کی وہ صراط مستقیم پر چلا اور جس نے عمر سے محبت کی اس نے دین کے واضح راستے کو پالیا اور جس نے عثمان سے محبت کی وہ اللہ کے نور سے منور ہوا اور جس نے علی سے محبت کی اس نے دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا ۔جو صحابہ کی تعریف کرتا ہے وہ نفاق سے بری ہے اور جو صحابہ کی بے ادبی کرتا ہے وہ بدعتی ، منافق اور سنت کا دشمن ہے مجھے اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوگا۔

Agha Durrani

Agha Durrani

تحریر:پروفیسر حافظ عبدالاعلےٰ درانی۔۔بریڈفورڈ
aala121@hotmail.com