کیا ہم متحد قوم ہیں؟

Quaid-E-Azam

Quaid-E-Azam

پاکستانی عوا م کی گذشتہ 67 سالہ سیاسی تاریخ میں شاید ہی چند خوشگوار جھونکے آئے ہوں اور اس قوم کے پاس چند ہی چہرے ایسے تھے جو تہۂ خاک میں دفن ہیں، جن کی یادوں کو یہ عوام سینے سے لگائے ماضی کے قصیدے پڑھتے رہتے ہیں۔ اور حال کی المناکیوں سے یا تو سرے سے واقف ہی نہیں یا پھر انہیں سمجھنے کے لیئے تیار نہیں۔ قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ، علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ، سر سید احمد خان رحمتہ اللہ علیہ، وغیرہ جیسے اور چند نام ان کا سیاسی سرمایہ ہیں، جنہیں دہراتے رہنا ہی ان کا حیات ہے۔ اور حال کے تلخ حقائق سے منھ موڑ کر خوش ہونا بھی اس عوام کا شیوہ ہے۔ کہ وہ زندہ ہیںاور ان کی قیادت بے دار ہے۔ سچائی اور زمینی حقائق اس اُمید کے خلاف جا رہے ہیں اور شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک پاکستان میں بسنے والی قوم چاہے کسی گروہ، قبیلے، جماعت سے تعلق رکھتی ہو صرف جذباتیت کی زبان سمجھتی ہے اور آج کی قیادت قوم کی اس دکھتی ہوئی رَگ کو اچھی طرح پہچانتی ہے۔

میرے ایک جاننے والے اکثر یہ جملہ دہراتے ہیں کہ ” عوام کا اس وقت بہترین قائد وہ ہے جو یہ جانتا ہے کہ قوم کے جسم کے کون سے حصے میں کھجلی لگ رہی ہے اور لیڈر نہایت چابک دستی اور مہارت کے ساتھ اس جگہ کو کھجلاتا ہے”پاکستانی قوم کا یہ المیہ نہیں کہ وہ کچھ کرنا نہیں چاہتے یا کسی میدان میں آگے بڑھنے کی ان میں تڑپ اور بے چینی نہیں، یہ مٹی بڑی نم ہے اس میں اگر کاشت کی جائے تو تعلیم، اقتصادیات، معاشیات کے برگ و بار آنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری قیادت نے اس قوم کو تھپک تھپک کر سلانے کے سوا دوسرا کوئی اور کام انجام نہیں دیا۔ ہماری صفوں میں اس قدر انتشار اور افتراق ہے کہ شاید ہی پاکستان کی کسی قوم میں اس درجہ انتشار پایا جاتا ہو، ہر جماعت، ہر تنظیم اور ہر فرد صرف اپنی ذات کو مقدم رکھتا ہے۔

اسے قوم کے مفادات کے تحفظ کا ادنیٰ سا بھی خیال نہیں ہوتا اور نہ اس کے ذہن کے کسی دور کے گوشے میں بھی یہ بات نہیں ہوتی کہ وہ اخلاص کے ساتھ قوم کے لئے کچھ کرے، نہایت آسان اور سہل نسخہ لیڈروں کے ہاتھ لگا ہوا ہے اور وہ ہے قوم کا جذباتی استحصال، ہر دور کی قیادت نے قوم کا جتنا جذباتی استحصال کیا ہے اتنا شاید کسی اور ملک کی حکومتوں نے بھی نہیں کیا ہوگا۔ قرآنِ کریم کی بے حُرمتی کا واقعہ پیش آتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کارٹون بنانے کا بدبختانہ معاملہ سامنے آتا ہے۔ تو احتجاج کرنے والے معصوم و بے گناہ لوگوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے، فسادات برپا ہوتے ہیں ہوں یا خواتین اور معصوم بچیوں کی عصمت دری کے لرزا دینے والے واقعات سنائی دیتے ہیں تو بھی اُن فرعون صفت انسانوں کے خلاف بجائے فوری کاروائی کرنے کے مقدمے ردّی کی نظر کر دیئے جاتے ہیں۔

Terrorism

Terrorism

قوم تو یکدم بیدار ہوتی ہے مگر ان کے اس بیداری پر پردہ ڈالنے کی سعی کی جاتی ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک بیان، مگر نتیجہ صفر؟ پھر وقت کے ساتھ ساتھ قوم اپنے گھروں میں، اور لیڈران اپنے عشرت کدوں میں۔ یہ شکایت کسی خاص فرد، جماعت یا تنظیم سے نہیں اس صف میں سب برابر ہیں۔اور عمل کے اعتبار سے سب کا انداز یکساں اور برابر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی کسی انداز سے سامنے آتا ہے اور کوئی کسی طریقہ پر معاملات کو پیش کرتا ہے۔یہ فرق تو ہو سکتا ہے اس کے سوا کوئی اور فرق دیکھنے میں نہیں آتا۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ دنیا بھر میں مسلمان آج تک اپنا ایسا سیاسی پلیٹ فارم قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جہاں ان کی بات کا وزن محسوس کیا جا سکے اور جہاں ملک کی سیاسی جماعتوں کو ان کی اہمیت کا اندازہ ہو۔ شرم آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے یہ لکھتے ہوئے اور مثال پیش کرتے ہوئے مگر کیا کریں مجبوری ہے جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں اسی معاشرے سے ہی مثالیں تلاش کی جائیں گی اور اسی معاشرے کی نظائر تحریر میں لائی جائیں گی۔

ملک بھر میں دہشت گردی جاری و ساری ہے بس کبھی یہ سلسلہ تھم جاتا ہے اور کبھی دراز ہوتا جاتا ہے، اس کے ساتھ ہی قتل و غارت گری بھی جاری ہے اور اس کا بھی حال یہی ہے کہ کبھی کم اور کبھی زیادہ لوگ مار دیئے جاتے ہیں۔ میں کسی ایک کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت نہیں کر رہا ہوں، میرا ماننا ہے کہ اگر دہشت گردی ہے تو وہ ہے، خواہ اس اس میں کوئی بھی ملوث ہو اور اس کے لئے سخت سے سخت قانون بنایا جانا چاہیئے، نہ صرف قانون بنایا جانا چاہیئے بلکہ اس پر سختی کے ساتھ عمل در آمد بھی ہونا چاہیئے اور سرِ عام ہونا چاہیئے تاکہ اس قوم کو بھی معلوم ہو سکے کہ ایسے مجرمانہ فعل کی سزا ہمارے یہاں بھی ملتی ہے۔ مرکزی حکومت کو اس پر فیصلہ لینے کی ضرورت ہے اور کچھ ٹھوس اور مضبوط قدم اٹھانے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ معصوم لوگوں کو انصاف ملے اور ملک میں امن و آشتی بحال ہو سکے۔

جذبات سے اگر مسائل حل ہوا کرتے، مشتعل کر دینے والی تقاریر اگر ضرورتوں کا پیٹ بھر پاتیں، یا جذباتی بیانات قوم کے مستقبل کو سنوارنے میں کام آتے تو 67سال سے یہ قوم بے یار و مددگار ہر محاذ پر ناکام اور کمزور نہ ہوتے۔ اگر قیادت کمزور ہو تو قوم کے جسم سے خون رستا ہی رہے گا اور زخموں کا منھ ہمیشہ کھلا ہی رہے گا۔ اس قوم کا جذباتی استحصال کس کس طرح سے کیا جاتا ہے آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ پارٹی بدلنے سے لے کر عوامی فنڈ میں کرپشن تک، ہمارے یہاں بلند پرواز جاری ہے، اور پتہ نہیں یہ سلسلہ کب تک دراز ہوتا رہے گا۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص کروڑوں لگا کر الیکشن جیتے گا تو وہ اس کی وصولی بھی کرے گا۔ نظام ایسا ہونا چاہیئے کہ یہ سلسلہ ختم ہو جائے۔

Pakistan

Pakistan

پڑوسی ملک ایران میں ایک اخبار کے مطابق آٹھ کروڑ کی آبادی ہے اور وہاں شاید اکتیس صوبے ہیں۔ (واللہ علم) جبھی تو وہ ملک بھی ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ ہم اٹھارہ کروڑ کی آبادی رکھتے ہیں مگر ہمارے یہاں صرف چار صوبے اس کا مطلب صاف ہے کہ ہم اپنی قوم کی ترقی نہیں چاہتے۔ طاہر القادری صاحب نے پینتیس صوبے کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ واقعی عوام کی خوشحالی لانے میں مددگار و معاون ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے بھی قیادت کا بے باک ہونا اور اس قسم کے فیصلے کرکے عوام کو ترقی کے منازل طے کرانے میں مدد کرنی چاہیئے۔ قیادت کا لب و لہجہ، اُس کی زبان، اُس کی فکر، اُس کے تیور وہی ہونے چاہیئے۔

جو پاکستانی قوم کو کسی منزل تک پہنچا سکیں، مگر کیا کیجئے کہ خود قیادت کو عالیشان محلوں سے نکلنے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے، نہ وہ ایسے لوگوں کو اپنے قریب آنے دینا چاہتے ہیں جو واقعی ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں، اُن کے رویّے پر ماتم کیجئے یا دَم سادھ کر بیٹھ جایئے یہ دو ہی راستے ہیں اس قوم کے لئے۔ فیصلہ ساز بھی آپ ہی ہیں اور ووٹ کا حق بھی آپ ہی کے پاس ہے۔60سال گزر گئے ہیں اور 60 سال گزر جائیں گے۔ آپ کے وجود کو کون مٹا سکتا ہے اور آپ کو کون ختم کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے کو کیا ضرورت ہے جو یہ کام انجام دے آپ خود ہی اتنے تفرقے، نفرت، تہذیب اور روایت شکن کاموں میں الجھے ہوئے ہیں کہ آسانی سے یہ کارنامہ انجام پانے کو ہے۔ اور اگر یہ سلسلہ دراز رہا تو تعلیمی، اقتصادی، معاشی، تہذیبی، روایتی، ہر سمت میں آپ کے آثارِ قدم مٹتے چلے جائیں گے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اس قوم اور اس ملک پر اپنا خاص رحم و کرم فرمائے۔( آمین)

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی