ٹرمپ انتظامیہ ڈریمر امیگریشن پروگرام بحال کرے، امریکی عدالت

US Court

US Court

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) ایک امریکی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ وہ ’ڈریمر‘ امیگریشن پروگرام پوری طرح بحال کرے۔ یہ پروگرام کم عمری میں غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والے غیر ملکیوں کو ملک بدری کے خلاف تحفط فراہم کرتا ہے۔

امریکی سپریم کورٹ کے سامنے ڈی اے سی اے پروگرام کی بحالی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کرنے والے تارکین وطن
امریکی سپریم کورٹ کے سامنے ڈی اے سی اے پروگرام کی بحالی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کرنے والے تارکین وطن

غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والے تارکین وطن سے متعلق یہ امریکی پروگرام نابالغ اور بالغ دونوں طرح کی عمروں کے غیر قانونی تارکین وطن کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے، کیونکہ اس کے لیے کسی تارک وطن کا ممکنہ ملک بدری کے وقت کم عمر ہونا لازمی نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس شرط یہ ہوتی ہے کہ ایسا کوئی بھی غیر قانونی تارک وطن امریکا میں کبھی بھی لیکن کم عمری میں اور غیر قانونی طور پر داخل ہوا ہو۔

بروکلین کی ایک ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج نکولس گاراؤفس نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ امریکی حکومت کو ڈی اے سی اے (DACA) کہلانے والے اس پروگرام کے تحت تمام ‘حق دار‘ تارکین وطن کو امریکا میں قیام کا حق اور ملک بدری سے تحفظ کی اجازت دینا ہو گی۔

جج نکولس گاراؤفس نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو اس پروگرام کو پوری طرح بحال کرتے ہوئے ایسے تارکین وطن کو بھی عرف عام میں ‘ڈریمر‘ امیگریشن پروگرام کہلانے والے اس قانون کے تحت درخواستیں دینے کی اجازت دینا ہو گی، جو حال ہی میں ایسی درخواستین دینے کے اہل ہوئے ہوں۔

اس سال موسم گرما میں ٹرمپ انتظامیہ نے ایک ہدایت نامے کے ذریعے اس پروگرام کو صرف ایسے غیر قانونی تارکین وطن تک محدود رکھنے کا حکم جاری کر دیا تھا، جو پہلے ہی امریکا میں رہائش کے اجازت ناموں کے لیے اپنی درخواستیں جمع کرا چکے تھے۔

ڈی اے سی اے نامی پروگرام 2012ء میں اس دور کے صدر باراک اوباما نے ایک صدارتی حکم نامے کے تحت متعارف کرایا تھا۔ اس کا مقصد ملک میں ایک کروڑ سے زائد غیر ملکیوں میں سے ایک بہت بڑی اکثریت کے لیے زندگی آسان بنانا تھا۔

یہ افراد ملک میں مقیم 10 ملین سے زائد ایسے غیر قانونی تارکین وطن ہیں، جن کے پاس امریکا میں قیام کی کوئی باقاعدہ قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔