ہمیں اتا ترک نہیں، طیب اردوان چاہیے

Tayyip Erdogan

Tayyip Erdogan

تحریر: علی عمران شاہین

ترکی میں طالبات کو حجاب کی اجازت مل گئی۔ ترکی نے شامی مہاجرین کے لئے ملکی سرحدیں کھول دیں۔ترکی نے حماس کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ ترکی کے نو منتخب وزیر اعظم احمد دائود اوغلونے سب سے پہلے بیان میں فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے تک اسرائیل سے تعلقات بحال نہ کرنے کا پیغام دے دیا۔ترکی جب تک طاقتور ہے مظلوموں کے لئے اس کا امداد و محبت کا ہاتھ کھلا رہے گا۔یہ چند تازہ ترین خبریںان بے شمار خبروں کا حصہ ہیں جنہوں نے آج کے ترکی کو عالم اسلام کا نیا رہبر اور ہیرو بنا دیا ہے۔جی ہاں وہی ترکی کہ جس میں اسلام کو پھر سے معاشرے میں رواج دینے اور مصطفی کمال اتاترک کے بنائے بتوں کوریزہ ریزہ کرنے والے رجب طیب اردوان پارلیمانی انتخابات کے بعد صدارتی انتخاب بھی پہلے سے بڑے مینڈیٹ کے ساتھ جیت کر اب صدر بنے ہیں تو انہی کی پارٹی کے رہنما وزیراعظم بن چکے ہیں۔

طیب اردوان کون ہیں اور ان کی سوچ اور فکر کیا ہے؟یہ جاننے کے لئے عالمی شہرت یافتہ فلسفی اور مصنف راجر سکروٹن کے 27 اگست 2013 کو بی بی سی پر نشر ہونے والے اس مضمون”اسلام اور جمہوریت ” کا ایک پیرا ہی کافی ہے جس میں انہوں لکھا ہے کہ”طیب اردوان کی جسٹس پارٹی برائے نام سیکولر ہے۔ وہ خود ایک ایماندار اور عوامی آدمی ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآن ہی میں انسانی زندگی گزرانے کے لیے موزوں رہنما اصول وضع کیے گئے ہیں۔ وہ ایسے آئین سے خوش نہیں ہیں جو حب الوطنی کو تقویٰ داری پر ترجیح دیتا ہے اور جو مسجد کے بجائے فوج کو سماجی نظام کا پاسدار بناتا ہے۔”

آج کے جی ٹونٹی کے رکن ترکی کے صدریہی طیب اردوان ہیں جنہوں نے ایک نئے ترکی کی بنیا د رکھی ہے۔جنہیں 1997ء میں ایک ”باغیانہ ”نظم پڑھنے کے جرم میں جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی ،جس کے بول کچھ یوں تھے: ”مسجدیں ہماری پناہ گاہیں ہیں ۔ان کے مینار ہمارے نیزے ، گنبد ہماری ڈھال ہیں اور اہلِ ایمان ہمارے سپاہی ہیں ۔”اس پر انہیں ڈیڑھ سال قید کی سزا دی گئی تو پورا ترکی سڑکوں پر آ گیا۔سو مجبوراََ اردوان کو رہا ئی ملی ۔یہ کما ل اتا ترک کون تھا جس کی ڈالی ہوئی بنیاد کا آج ترکی سے جنازہ نکل رہا ہے۔نام تو اس کا مصطفی تھا لیکن… تاریخ میں وہ جو کچھ کر گیا اس نے کروڑوں انسانوں کو محسن انسانیت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہی کیا تھا۔اورسب سے بڑھ کر تیرہ سو سالہ مقدس خلافت کے خاتمہ کا ناپاک اقدام بھی اپنے نام کر گیا۔ مصطفی کمال اتاترک… جسے موجودہ ترکی کا بانی و رہبر کہا جاتا ہے، تاریخ کی ستم ظریفی نے اسے ”اتاترک” یعنی ”ترکوں کا باپ” بنا دیا۔

کمال پاشااتاترک 19مئی 1881ء کو قصبہ سالونیکا میں پیدا ہوا تھا جوکہ اب یونان میں ہے اور تھسلونیکی کہلاتا ہے۔وہ بچپن سے ہی ذہانت و فطانت کے ساتھ اسلام بیزاری لے کر جوان ہوا تھا۔ 1905ء میںوہ فوج میں بطور لیفٹیننٹ بھرتی ہوا۔ جلد ہی ترقی کرتا بڑے عہدے تک پہنچا تواپنے جیسے مذہب بیزار افسروں کو ساتھ ملا کر خلیفہ عبدالحمید ثانی کو بے اثر کرنے لگ گیا اور آخرکار انہیں خلافت سے دستبرداری پر مجبور کر دیا۔ اسی دوران میں پہلی جنگ عظیم میں صلیبی اتحادی افواج نے ترکی پر حملہ کیا۔ کمال پاشا نے فوج کی قیادت کی اور بچے کھچے ترکی خصوصاً اناطولیہ کو یورپ کے بڑے وار سے بچا یاجو کہ اس کی ذمہ داری تھی۔ترک قوم کی بیرونی حملہ آوروں کے خلاف یہ پہلی کامیابی نہیں تھی۔

اس سے قبل لگ بھگ 300سال تک یورپ کے کئی ملکوں کی افواج کبھی تنہا تو کبھی اتحاد بنا کر ترکی کے خلاف میدان میں اترتیں لیکن وہ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ نہ کر سکیں۔سارے خطے خصوصاً یورپ میں خلافت عثمانیہ نے ہی آسٹریا کے قلب تک اپنی سلطنت کو پھیلا دیا تھا اور یہی قلق اہل یورپ کو صدیوں سے چین نہ لینے دیتا تھا۔ بہرحال پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا اتحادی ہونے کی وجہ سے فاتحین نے انتقام میں ترکی کے حصے بخرے کئے مگر 1919-20ء کی جنگ میں فتح نے کمال اتاترک کو ہیرو بنایا تو اس نے بھی ریاست پر قبضے کی تیاری کر لی۔سو اتاترک نے پہلے گرینڈ اسمبلی تشکیل دی اور یکم نومبر 1923ء کو اقتدار پر قبضہ کر کے اگلے سال 2 مارچ کو خلافت سرے سے ختم کرکے خلیفہ عبدالمجید ثانی جیسے نیک انسان کو ملک بدر بھی کر ڈالا۔اس سانحہ جانکاہ پر علامہ اقبال بھی تڑپ کر کہہ اٹھے۔

چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا” اتاترک شراب کا اتنا رسیا تھاکہ اس کی موت کا سبب بھی کثرت مے نوشی بنی کیونکہ اسی سے اس کا جگر ناکارہ ہو گیا تھا۔کمال اتاترک چونکہ اسلامی خلافت کے خاتمے کی بنیاد بنا تھا ،سو اس نے اسلام کی ہر نشانی ترکی سے بے دخل کرنا شروع کی۔ ہزاروںعلماء کو پھانسیاں دیں۔بے شمار مساجد کی تالہ بندی کی۔نئی مساجد کی تعمیر پر پابندی لگائی۔بہت سی مساجد کو عجائب گھر بنایا۔ مدارس بند کر کے دینی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کی۔

Islamic Culture

Islamic Culture

حد تو یہ کہ عربی زبان میں اذان تک پر پابندی عائد کر دی۔کسی کو قمیص، شلوار یا پینٹ سے باہر رکھنے کی اجازت نہ تھی، بلکہ اسے پینٹ یا پاجامہ میں ڈالنے کا حکم تھا۔ حجاب پر سخت پابندی لگائی۔ شراب عام کی۔مردوں کے داڑھی رکھنے پر پابندی لگا کر بڑے کناروں والا ہیٹ پہننا لازمی قرار دے دیا تاکہ وہ نماز ادا اور سجدہ نہ کرسکیں۔ اس نے اسلامی ثقافت اور تاریخ پر کاری ضرب لگاتے ہوئے ترک زبان جوعربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی اور اس کے ہجے عربی اور فارسی سے ملتے تھے ،اسے سرکاری اعلان کے ساتھ لاطینی رسم الخط میں لکھاجانے لگا۔ عربی خط کی ترکی زبان پر مشتمل تمام کتب ضبط کرلی گئیں اور ان کی جگہ لاطینی حروف میں لکھی گئی کتب لگادی گئیں۔مساجد کے شہراستنبول سے دارالحکومت بھی اسی لئے انقرہ منتقل کردیا گیا تاکہ لوگوں میں سے محبت ختم کردی جائے۔

روس کو شکست دینے والے اسلام کے شیدائی جنرل ضیاء الحق کو ڈکٹیٹر کہہ کر اور گستاخانہ طرز تخاطب سے دل کی بھڑاس نکالنے والے ”دانشور” جو کمال اتا ترک کے پرستار ہیں، وہ منافقت میںیہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اس دور کا سب سے بڑا ڈکٹیٹر تھا جس نے یک جماعتی نظام رائج کیا۔ وہ کسی معمولی مخالف کو موت سے کم سزا نہ دیتا تھا۔ لیکن جب ملک کی حکومت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (عدل و کمال پارٹیسی)نے سنبھالی اور2002میں رجب طیب اردوان پہلی بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے نئے ترکی کی بنیادرکھی اور ایسی حکمت عملی اپنائی کہ لادین و اسلام دشمن فوج کو پسپاکر دیا۔ ایک فیصلے میں درجنوں اسلام دشمن جرنیل نکال باہر کئے یا وہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ان کی پالیسیوں سے چند سال میں یورپ کا’ مرد بیمار’ عالمی معاشی طاقتوں میں شمار ہونے لگا۔

خاندانی منصوبہ بندی پر پابندی لگا کر مسلم نسل کشی کی مہم روکی تو یورپ جو آج افرادی قوت کی قلت کا شکار ہے، اس کو ترکی افرادی قوت مہیا کر رہا ہے۔ موجودہ صدر بطور وزیراعظم دوسری مرتبہ 2007 اورپھر تیسری مرتبہ 2011میں منتخب ہوئے تو ہر بار پہلے سے زیادہ اکثریت حاصل کی۔ انہوں نے مساجداور شعائر اسلامی پر عائد پابندیاںختم کیں۔ سرعام شراب نوشی ا ور خریدوفروخت پر پابندی لگائی اور سخت قوانین اور اصول بنا کر لسی کو قومی مشروب قرار دیا۔انہوں نے سپیکرز پر اذانیں شروع کیں۔یوں ان کی مقبولیت کو چار چاند لگ گئے۔

حجاب پر پابندی ختم ہوئی تو ہر طرف سکارف نظر آنے لگا۔پھرپارلیمنٹ میں خواتین اول کے لئے باحجاب داخلے کے لئے باقاعدہ بل پاس ہوئے کیونکہ اتا تر ک کے ترکی میں یہ سوچنا محال تھا۔اسی لئے تو یورپین میڈیا انہیں ”منتخب خلیفہ ” کہنے پر مجبور ہو گیا۔آج اسی ترکی میں سلفیت تیزی سے مقبول ہو رہی ہے جس کا اعتراف ایک ایسے ہی ”دانشور” (فرخ سہیل گوئندی) اپنے زبان و قلم سے کر کے باقی سارے عالم کو ڈرا رہے ہیں۔اسلام سے محبت کا دم بھرنے والے آج کے ترکی کامسلمانوں پرکہیں کوئی آفت ٹوٹے یا مظالم ہوں کا دل ان کے غم میں سب سے بڑھ کر دکھتا ہے۔

برما میں مسلمانوں پر مظالم ہوئے تو اردوان کی اہلیہ بیٹے کے ہمراہ وہاں پہنچ گئیں۔ اہل غزہ سے ان کی حالیہ محبت سب کے سامنے ہے۔مسلم دنیا میںاسرائیل کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والا اتاترک کا ترکی اب اسی اسرائیل کے لئے سب سے بڑا سردردہے۔ اتاترک کے چاہنے والے دین بیزار دیکھ لیں کہ ترکی میںاس کا باطل نظریہ پاش پاش ہے تو ان کے خواب پاکستان میں کبھی پورے نہیں ہو سکتے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین