’ایک اور باسفورس‘: ایردوآن کا خواب، استنبول کا ڈراؤنا خواب

Istanbul

Istanbul

استنبول (اصل میڈیا ڈیسک) ترک صدر ایردوآن استنبول میں ’ایک اور آبنائے باسفورس‘ تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جس سے معیشت اور ماحول کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اسی لیے استنبول کے میئر اس تعمیر کو روکنا چاہتے ہیں مگر انہیں طاقت کی کشمکش کا سامنا بھی ہو گا۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن ملک کے سب سے بڑے شہر استنبول میں بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں کے لیے اپنی چاہت اور ذاتی پسندیدگی کی وجہ سے بھی مشہور ہیں۔ بات چاہے شہر کے نئے ہوائی اڈے کی ہو، ترکی کی نئی اور سب سے بڑی مسجد کی تعمیر کی یا پھر آبنائے باسفورس کے نیچے سے گزرنے والی اور ٹریفک کے لیے بنائی گئی سرنگ کی، صدر ایردوآن نے یہ سب عظیم تر منصوبے بہت ہی مختصر وقت میں اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے مکمل کروائے۔

لیکن وہ نیا منصوبہ جس کے بارے میں ایردوآن کافی عرصے سے سوچ رہے ہیں اور جس کی وہ شدید خواہش بھی رکھتے ہیں، ان گزشتہ تعمیراتی منصوبوں سے کہیں عظیم تر اور مہنگا بھی ہو گا۔ صدر ایردوآن 16 ملین کی آبادی والے شہر استنبول میں ایک ایسی نئی نہر تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جو ناقدین کے بقول اس شہر کے ایشیائی اور یورپی حصوں کو ملانے والی آبنائے باسفورس کی طرز ہر ‘ایک نئی آبنائے باسفورس‘ تعمیر کرنے کی کوشش ہو گی۔

استنبول شہر کے میئر امامولُو چاہتے ہیں کہ شہر میں ایسی کوئی نئی نہر تعمیر نہ کی جائے۔ لیکن صدر ایردوآن ان کی رائے سے متفق بالکل نہیں، اسی لیے اس اختلاف رائے کا نتیجہ لازمی طور پر شہر کی بلدیاتی انتظامیہ اور ملکی حکمرانوں کے مابین طاقت کی شدید کشمکش کی صورت میں ہی نکلے گا۔

انقرہ حکومت کا ارادہ ہے کہ یہ نئی نہر، جس کے لیے نئی ‘استنبول کینال‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے، دراصل اس قدرتی تنگ آبی گزرگاہ کی طرح ہی ہو گی، جو ہے تو ایک قدرتی آبنائے مگر اس طرح کا دوسرا آبی راستہ اس سے مختلف اس طرح ہو گا کہ وہ سو فیصد انسانوں کا تعمیر کردہ ہو گا۔

ترک حکومت کا ارادہ ہے کہ یہ نئی نہر شہر کے مغربی حصے سے شروع ہو کر تقریباﹰ 45 کلومیٹر فاصلے تک موجودہ آبنائے باسفورس کے متوازی ہی جاتی رہے اور اس کے ذریعے بحیرہ اسود کو بحیرہ مرمرہ سے جوڑ دیا جائے۔ ترک صدر ایردوآن نے گزشتہ برس جون میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ اگر وہ دوبارہ ملکی صدر منتخب ہو گئے، تو وہ نہر سوئز کی طرز پر استنبول میں ایک اور نہر ضرور تعمیر کریں گے۔

اس منصوبے کی تیاری تو 2011ء میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ پھر یہ پلاننگ کئی برسوں تک جمود کا شکار ہو گئی۔ اب انقرہ حکومت نے اس منصوبے سے متعلق حتمی پلاننگ تیز تر کر دی ہے۔ صدر ایردوآن یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اس نئی اور بہت چوڑی نہر کی تعمیر پر کام جلد ہی شروع کر دیا جائے گا۔ ترک حکومت کا موقف یہ ہے کہ اس نہر کی تعمیر سے آبنائے باسفورس میں بہت زیادہ تجارتی جہاز رانی کی وجہ سے پڑنے والے دباؤ اور بار بار پیش آنے والا حادثات دونوں کو کم کیا جا سکے گا۔

استنبول کے موجودہ میئر اس شہر کے گزشتہ 25 برسوں میں اقتدار میں آنے والے وہ پہلے میئر ہیں، جن کا تعلق صدر ایردوآن کی جماعت سے نہیں بلکہ سوشل ڈیموکریٹک سوچ کی حامل اپوزیشن جماعت سی ایچ پی سے ہے۔ میئر امامولُو کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد ‘استنبول شہر سے غداری‘ کے مترادف ہو گا۔

امامولُو نے حال ہی میں کہا، ”یہ منصوبہ ایک قاتل منصوبہ ثابت ہو گا اور شہر کے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ شہری اس کی مخالفت کریں گے۔‘‘ امامولُو نے یہ کہتے ہوئے جو سوچا، وہ کر بھی دکھایا۔ انہوں نے شہر کی بلدیاتی انتظامیہ کی طرف سے ملکی حکومت کے ساتھ کیا گیا اشتراک عمل کا وہ معاہدہ ہی منسوخ کر دیا، جو ان کے پیش رو میئر نے انقرہ حکومت کے ساتھ طے کیا تھا۔

استنبول کے میئر کے علاوہ مقامی شہریوں اور کئی ماہرین کی طرف سے اس منصوبے کی مخالفت اس وجہ سے بھی کی جا رہی ہے کہ ان کے مطابق اس پروجیکٹ پر ہوش ربا لاگت آئے گی اور اس کی وجہ سے ہونے والے اقتصادی اور ماحولیاتی نقصانات بھی بہت زیادہ ہوں گے۔ تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والے ماہرین کے مطابق اس ‘نئی آبنائے باسفورس‘ کی وجہ سے خطے کے ماحولیاتی نظام پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوں گے۔

اقتصادی اور ماحولیاتی پہلوؤں سے اس منصوبے کے بارے میں ظاہر کیے جانے والے خدشات کے علاوہ مالیاتی حوالے سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اس نئی ‘استنبول کینال‘ کی تعمیر پر تقریباﹰ 11.5 بلین یورو کے برابر لاگت آئے گی۔ لیکن یہ ممکنہ لاگت تو سرکاری اندازوں کے مطابق ہے۔ اس کے برعکس غیر حکومتی مالیاتی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ تعمیراتی لاگت ساڑھے گیارہ بلین یورو سے کہیں زیادہ ہو گی اور اس کے لیے سارا بوجھ بھی حتمی طور پر ترک ٹیکس دہندگان پر ہی پڑے گا۔

ترکی میں صدر ایردوآن کی حکمران جماعت اے کے پی کی اعلیٰ قیادت کا کہنا ہے کہ استنبول کے میئر جو کچھ بھی کہیں، یہ نئی نہر تعمیر تو ہر حال میں کی جائے گی۔ اس پارٹی کے مرکزی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ شہر کے میئر امامولُو یا استنبول کی شہری انتظامیہ کی عمل داری میں تو آتا ہی نہیں۔

داخلی سیاسی طور پر متنازعہ ہو چکے اس عظیم تر تعمیراتی منصوبے کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ صدر ایردوآن اسے کئی برسوں سے اپنے ایک ‘خواب‘ کا نام دیتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں، ”یہ بات کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، یہ نہر تو تعمیر کی ہی جائے گی۔‘‘ مگر دوسری طرف استنبول کے میئر اکرام امامولُو کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے اس منصوبے کے خلاف ہیں کہ یہ استنبول کے لیے ایک ‘ڈراؤنا خواب‘ ثابت ہو گا۔