یوکرائن پر حملہ روس کو بہت مہنگا پڑے گا، جوبائیڈن

Biden and Putin

Biden and Putin

یوکرائن (اصل میڈیا ڈیسک) یوکرائن میں کشیدگی کم کرنے کے لیے امریکی صدر نے ہفتے کو روسی صدر کیساتھ ٹیلیفون پر بات چیت کی تاہم کوئی خاطر خواہ حل نہیں نکل سکا۔ روسی خارجہ پالیسی کے ایک مشیر نے موجودہ صورتحال کو ’دیوانے پن کی انتہا‘ قرار دیا ہے۔

ہفتہ 12 فروری کو امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ بذریعہ ٹیلیفون یوکرائن کے بحران کے بارے میں بات چیت کی۔ بائیڈن نے روس کو ایک بار پھر خبردار کیا کہ اگر اُس کی طرف سے یوکرائن پر فوجی حملہ ہوا تو کریملن کو”فوری اور بہت بھاری قیمت‘‘ ادا کرنا پڑے گی۔ روسی صدر نے مغربی ممالک کی طرف سے روس کو دباؤ میں لانے کی کوشش اور اُس کے یوکرائن پر فوجی حملے کے ارادوں کے بارے میں دعووں پر شدید تنقید کی ہے۔ پوٹن نے مغرب کے اس اقدام کو ”اشتعال انگیزی اور قیاس آرائیاں‘‘ قرار دیا ہے۔

ہفتے کو امریکا اور روس کے صدور کے مابین ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کے بعد کریملن میں خارجہ پالیسی کے مشیر ژوری اوشاکوف نے ایک کانفرنس کال میں کہا، ”دیوانگی عروج پر ہے۔‘‘

کشیدگی برقرار

روس اور مغربی ممالک کے مابین ہفتوں سے چلا آرہا تناؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ روس نے اپنے مغربی پڑوسی ملک یوکرائن کی سرحد پر ایک لاکھ سے زائد فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ یوکرائن کا تنازعہ اُس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب واشنگٹن نے خبردار کیا کہ ”کسی بھی وقت ایک ہمہ گیر حملہ شروع ہو سکتا ہے اور روس جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوکرائن پر قبضہ کر لے گا۔‘‘ دوسری جانب روس نے بحیرہ اسود کے پار اپنی کئی برسوں کے مقابلے میں سب سے بڑی فوجی مشقیں شروع کر دی ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق بائیڈن نے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے پوٹن کو بتایا، ”اگر روس کی جانب سے یوکرائن پر حملہ کیا گیا تو امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کریملن کو فیصلہ کُن جواب دے گا اور اس طرح روس کو اپنے کیے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔‘‘ امریکا کی طرف سے یوکرائن کے معاملے میں روس کے ساتھ سفارت کاری پر آمادگی کا اظہار کیے جانے کے دوران ہی امریکی صدر نے یہ بھی کہا، ”امریکا دیگر امکانات کے لیے بھی یکساں طور پر تیار ہے۔‘‘ اس وقت امریکی اور روسی اقوام سرد جنگ کے بعد سے اب تک کی کشیدہ ترین صورتحال کا سامنا کر رہی ہیں۔

امریکی اور روسی صدور کی ہفتے کو ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہی۔ اس کے بعد ایک سینیئر امریکی اہلکار نے نامہ نگاروں کو بتایا، ”دونوں رہنماؤں کی بات چیت ٹھوس اور پیشہ ورانہ ہونے کے باوجود اس سے موجودہ تنازعے کے محرکات میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔‘‘ اُدھر امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے امریکی انتباہ کو دہرایا، ”روس یوکرائن پر حملے کے لیے کوئی بھی جھوٹا ناٹک رچا سکتا ہے۔‘‘ بلنکن نے بھی ہفتے کے روز اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف سے بات چیت کی۔ بعد اذاں بلنکن نے اپنے بیان میں کہا، ”اگر روس کسی قسم کی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتا ہے، جسے وہ بعد میں اپنی فوجی کارروائی کا جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔‘‘

دریں اثناء روسی وزیر دفاع نے کہا، ”روس نے ایک ایسی امریکی آبدوز کا تعاقب کیا جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ شمالی بحرالکاہل کے کورل جزائر کے نزدیک پانیوں میں داخل ہو گئی تھی۔‘‘ تاہم ‘یو ایس انڈو پیسیفک کمانڈ‘ نے اس امر کی تردید کی کہ وہ روس کے نزدیکی پانیوں میں کسی قسم کا آپریشن کر رہی تھی۔

ادھر روسی صدر پوٹن نے ہفتے کی سہ پہر فرانسیسی صدر ماکروں کے ساتھ بھی تقریباً دوگھنٹے تک گفتگو کی۔ ایمانویل ماکروں کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق دونوں صدور نے بات چیت جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن اس گفتگو میں بھی روس اور امریکا کے صدور کی گفتگو کی طرح کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔