یونین پر پابندی نہ صرف آئین پاکستان کی بلکہ تمام بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے عالمی معاہدات کی کھلی خلاف ورزی ہے ، محمد زبیر صفدر

لاہور: اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ محمد زبیر صفدر نے کہا ہے کہ طلبہ یونین پر پابندی نہ صرف آئین پاکستان کی بلکہ تمام بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے عالمی معاہدات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر 17 میں تمام شہریوں کو تنظیم سازی اور یونین سازی کی اجازت دی گئی ہے اور ان کے اس حق کے تحفظ کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ لہٰذا 9 فروری 1984ء کو مارشل لائی ضابطے 60 کے تحت لگائی جانے والی طلبہ یونین پر پابندی آئین پاکستان کی توہین ہے۔10 دسمبر 1984ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور ہونے والے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی دفعہ 20 کی شق نمبر1کے مطابق ” ہر شخص کو پُر امن طریقے سے ملنے جلنے اور انجمنیں قائم کرنے کی آزادی کا حق ہے”۔

1966ء میں تیار کیے گئے معاشی ، معاشرتی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی میثاق کی دفعہ 8 میںہر شخص کے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر یونین بنانے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ 1966ء ہی میں تیار کیے گئے شہری اور سیاسی حقوق کے عالمی میثاق کی دفعات نمبر 21 اور 22 پُر امن اجتماع اور یونین سازی کے حق کو تسلیم کرتی ہیں۔ پاکستان کی حکومت ان معاہدات کی پابند ہے اور وہ طلبہ یونین پر پابندی لگا کر ان معاہدات کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ہر ملک کے مستقبل کی صورت گری اس ملک کی درسگاہوں میں ہوتی ہے۔ ان درسگاہوں میں پڑھنے والے طلبہ نے ہی مستقبل کی باگ ڈور سنبھالنا ہوتی ہے۔ معیشت ہو یا معاشرت ،قانون ہو یا سیاست ہر میدان کا شہسوار مستقبل میں طلبہ نے ہی بننا ہوتا ہے۔ تعلیم کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ ہر طالبعلم قدرت الٰہی کی طرف سے عطاء کردہ صلاحیتوںسے پوری طرح آگاہ ہو جائے اور ان کو مکمل طور پر بروئے کار لانے کے قابل بن جائے۔ وہ تقلید کے بجائے دوسروں کے لیے نقوش پا چھوڑنے کا خوگربن جائے۔

یہ مقصد تب ہی حاصل ہو سکتا ہے جب طلبہ کو دور طالبعلمی ہی میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے ،پر اعتماد طریقے سے فیصلہ کرنے ، انتظامی اور قائدانہ ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابل بنایا جائے۔طلبہ یونین دراصل انہی امور کی انجام دہی کا ایک مؤثر اور منظم ذریعہ ہے۔ آزاد ی فکر اور آزادی رائے آزاد اور مہذب قوموں کی دو بنیادی خصوصیات ہیں۔جمہوری اکائیاں چا ہے جس صورت میں بھی ہوں ان کی اہمیت اور ضرورت معاشرے میں موجود رہتی ہے۔طلبہ بھی معاشرے کی ایک اہم اکائی ہیں ۔ ایک ان پڑھ شہری بلدیاتی اداروں سے لے کر ملک کے اعلیٰ ترین اداروں کے نمائندوں کے انتخابات کے لیے ووٹ کا حق رکھتا ہے لیکن ایک باشعور تعلیم یافتہ نوجوان نہایت چھوٹی سطح پر اپنے نمائندوں کے انتخابات کے لیے ووٹ کا حق استعمال نہیں کر سکتا ۔ ملک میںایک گریجویٹ طالبعلم کو اپنے تعلیمی ادارے کے چند سو طلبہ کی نمائندگی کا حق حاصل نہ ہونا ایک مضحکہ خیز بات معلوم ہوتی ہے۔

وطن عزیز میں جمہوریت کی بقاء اور اداروں کا استحکام اسی صورت میں ممکن ہے کہ طلبہ کو جمہوری روایات کا امین بنایا جائے اور ان کو اظہار رائے کی نہ صرف اجازت ہونی چاہیے بلکہ اس کا خصوصی بندوبست ہونا چاہیے ۔ان کو آزادانہ اپنے فیصلے کرنے کا حق دیا جائے اور ان پر بھرپور اعتماد کیا جائے کیونکہ اسی طرح معاشرے میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہو سکتی ہیں۔ طلبہ یونین دراصل پائیدار جمہوریت کا راستہ ہے۔طلبہ یونین کی عدم موجودگی نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں ایسے عناصر کو پنپنے کا موقع فراہم کیا جونظریہ پاکستان سے ناآشنا ہیں۔طلبہ یونین پر پابندی سے جہاں طلبہ فطری طور پر احساس محرومی اور عدم اعتماد کا شکار ہوئے ہیںوہاں ایسے عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع ملا جنہوں نے طلبہ میں بے مقصدیت ، قومی معاملات سے بے زاری اور نظریہ پاکستان سے نا آشنائی کے رجحانات پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔اس کاواضح عکس آج کے معاشرے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔طلبہ یونین ،طلبہ میں نظریاتی اقدار سے وابستگی ،حب الوطنی اور ایثار و قربانی پیدا کرنے کا ایک مؤثر فورم تھا۔ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کو اپنی تاریخ سے آشنا کرنے اور مستحکم پاکستان کی تعمیر کے تمام منصوبوں میں ان کی شرکت کو یقینی بنانادراصل اپنے مستقبل کو محفوظ کرنا ہے۔

اسلامی جمعیت طلبہ نے طلبہ یونین پر پابندی کو کئی سال پہلے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ مارچ 1993ء میں چیف جسٹس (ر) نسیم حسین شاہ کی سربراہی میں بنچ نے 40 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ سنایا کہ ” جمہوری ملک میں جمہوری آئین کی موجودگی میںطلبہ سیاست پر پابندی درست نہیں۔ سیاست تو ہماری زندگی کا جزواور مظہر ہے”۔ لیکن افسوس پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے اس فیصلہ پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا اور یہ امر بھی ناقابل تلافی کہ اس پر سیاستدان،تاجر،دانشور،صحافی ،شاعر ، ادیب اور دوسرا باشعور طبقہ بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی اپنے آغاز میں طلبہ یونین کی بحالی اور یونین انتخابات کا اعلان کیا تھا لیکن جمہوریت کے نام نہاد دعویداروں نے بھی طلبہ کے جمہوری حق پر آمریت کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوے اپنے دور حکومت میں غاصبانہ قبضہ برقراررکھا اور اسے ختم کرنے کے لیے اعلانات سے بڑھ کر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔

محمد زبیر صفدر نے پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ ہم چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے کیے گئے فیصلے پر از خود نوٹس لے کر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ فی الفور یونین کے انتخابات کروائے جائیںبصورت دیگر طلبہ اپنے جمہوری حق کے حصول کے لیے قانونی چارہ جوئی سمیت آئینی دائرے میں رہتے ہوئے جدو جہد کا حق محفوظ رکھتے ہیں ۔ نیز اسلامی جمعیت طلبہ ،طلبہ کے اس حق کے حصول کی جدو جہد میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی۔