اقوام متحدہ ماحولیاتی کانفرنس: امریکی تنقید پر چین کا سخت رد عمل

Wang Wenbin

Wang Wenbin

چین (اصل میڈیا ڈیسک) چین نے ماحولیات سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس میں صدر شی جن پنگ کی غیر حاضری پر امریکی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے اپنے رد عمل میں کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے محض ”خالی نعروں” سے کام نہیں چلنے والا۔

چین نے ماحولیات سے متعلق گلاسگو میں ہونے والی اقوام متحدہ کی سربراہی کانفرنس، سی او او پی 26، میں چینی صدر شی جن پنگ کی غیر موجودگی پر امریکی صدر جو بائیڈن کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ”اعمال الفاظ سے کہیں زیادہ زور سے بولتے ہیں۔”

چینی صدر شی جن پنگ اور روس کے صدر ولادیمر پوٹن گلاسگو میں ہونے والی اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے، جس پر امریکی صدر جو بائیڈن نے یہ کہہ کر تنقید کی تھی کہ یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔

چین کا رد عمل
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جو بائیڈن کے بیان پر بدھ کے روزسخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے صرف باتوں کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے اور الفاظ سے کہیں زیادہ زور اعمال میں ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کھوکھلے الفاظ کے بجائے ہمیں ٹھوس کارروائی کرنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے چین کے اقدامات حقیقی ہیں۔”

چینی ترجمان نے اس موقع پر امریکا پر اس حوالے سے بھی طنز کیا کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے تو ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے سے ہی امریکا کو الگ کر لیا تھا، جس کی وجہ سے عالمی ماحولیاتی نظم و نسق اور معاہدے کے نفاذ کو کافی نقصان پہنچا۔

اس سے قبل اقوام متحدہ کے لیے چینی سفیر زانگ جون نے بھی صدر جو بائیڈن پر یہ کہہ کر تنقید کی تھی کہ ماحولیات کی تبدیلی کے مسئلے سے محض خالی نعروں سے نہیں نمٹا جا سکتا اور اس کے لیے، ” نہ بدلنے والی پالیسیوں، لگژری گاڑیوں کے قافلوں اور انفیکیشن میں اضافہ کرنے والے ہجوم” سے آگے نکل کر سوچنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا، ”چینی رہنما نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں پر چین کے اپنے حل کو شیئر کیا اور چینی وفد ذاتی طور پر اس کانفرنس میں شریک ہوا۔ چین نے کاربن کے اخراج سے متعلق اپنے اہداف کا اعلان کیا ہے، اور ایک ایکشن پلان کے ساتھ ہی پالیسیاں بھی جاری کی ہیں۔ ہماری کامیابیوں کو تو بڑے پیمانے پر تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔”

گلاسگو کانفرنس کے دوران ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک بیان میں چینی صدر کی عدم شرکت پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی تھی کہ وہ عالمی رہنما بننے کی خواہش تو رکھتے ہیں تاہم اتنی اہم کانفرنس سے غیر حاضر ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ”یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور وہ اس میں نہیں آئے۔ آپ ایسا کرتے ہوئے قیادت حاصل کرنے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟ چین کا شریک نہ ہونا، واضح طور ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ باقی دنیا چین کی طرف دیکھ رہی کہ آخر وہ کیا قدریں فراہم کر رہے ہیں۔”

امریکی صدر جو بائیڈن نے اس کانفرنس میں عالمی رہنماوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماحولیاتی تباہیوں کا موجودہ دور، ”عالمی تاریخ میں ایک اہم موڑ” ہے۔انہوں نے کہا، ”ہم دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ امریکا نہ صرف بات چیت کی میز پر واپس آ چکا ہے بلکہ اس مہم کی قیادت کے لیے ایک ٹھوس عملی مثال بھی پیش کرے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا، ”مجھے معلوم ہے کہ ماضی میں ایسا نہیں ہو پایا اور یہی وجہ ہے کہ میری انتظامیہ اب مصمم ارادے سے کام کر رہی ہے۔”

گلاسگو میں جاری اقوام متحدہ سی او پی 26 ماحولیاتی کانفرنس کو سن 2015 کے پیرس معاہدے کے تسلسل کا ایک اہم جز قرار دیا جا رہا ہے، جس میں عالمی برادری نے عالمی درجہ حرات میں اضافے کو دو ڈگری سیلسیئس تک محدود کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

گلاسگو سمٹ میں 120 سے زائد سربراہان مملکت شریک ہوئے جبکہ متعدد بین الاقوامی تنظیمیں اور ماہرین ماحولیات حصہ لے رہے ہیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ سمٹ گلوبل وارمنگ سے انسانیت کو بچانے کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔