کیا امریکا مشرقی یروشلم میں فلسطین کے لیے اپنا سفارتی مشن دوبارہ کھول سکے گا؟

Naftali Bennett

Naftali Bennett

یروشلم (اصل میڈیا ڈیسک) فلسطین کا کہنا ہے کہ مشرقی یروشلم میں امریکا کے دوبارہ قونصل خانہ کھولنے کے فیصلے پر اسرائیل کو ویٹو کرنے کا حق نہیں ہے۔ تاہم اسرائیل نے امریکی قونصل خانے کو دوبارہ کھولنے کے عمل کو مسترد کر دیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی نے سات نومبر اتوار کے روز وعدے کے تحت مقبوضہ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے لیے امریکی سفارتی مشن دوبارہ کھولنے کو مسترد کرنے کے اسرائیلی فیصلے پر سخت تنقید کی۔ امریکی قونصل خانہ دوبارہ کھولنے کا مقصد شہر میں فلسطینیوں کے لیے واشنگٹن کے اہم سفارتی مشن کو بحال کرنا ہے۔

امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے مقبوضہ مشرقی یروشلم کے امریکی قونصل خانے کو بند کر دیا تھا، جو برسوں سے فلسطینیوں کے لیے ایک طرح سے سفارت خانے کے طور پر کام کرتا رہا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسے دوبارہ کھولنے کا وعدہ کیا تھا، تاہم اسرائیل نے اسے مسترد کر دیا ہے۔

اس سفارتی مشن کے دوبارہ کھولنے سے فلسطینیوں کے ساتھ امریکی تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے، جسے ٹرمپ انتظامیہ نے پوری طرح سے نظر اندازا کر دیا تھا۔ لیکن اسرائیل کا کہنا ہے کہ امریکا کے یہ اقدام شہر پر اس کی خود مختاری کو چیلنج کرتے ہیں۔

اتوار کے روز فلسطینی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس قونصل خانے کو دوبارہ کھولنے کو، ان علاقوں پر اسرائیل کے دہائیوں سے جاری قبضے کو ختم کرانے کے لیے بین الاقوامی برادری کے عزم کے ایک اظہار کے طور پر دیکھتی ہے اور فلسطینی اس علاقے کو مستقبل کی ریاست کے لیے دارالحکومت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گيا،’’ مشرقی یروشلم مقبوضہ فلسطینی سرزمین کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہے اور ریاست فلسطین کا دارالحکومت بھی ہے۔ ایک قابض طاقت کے طور پر اسرائیل، امریکی انتظامیہ کے فیصلے کو ویٹو کرنے کا حق نہیں رکھتا۔‘‘

اس سے قبل ہفتے کے روز اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینٹ نے کہا تھا کہ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے لیے امریکی سفارتی مشن کھولنے کی کوئی بھی جگہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا،’’ یروشلم میں کسی دوسرے امریکی قونصل خانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یروشلم ایک ریاست کا دارالحکومت ہے اور وہ اسرائیلی ریاست ہے۔‘‘

دوسری طرف اسرائیل کے وزیر خارجہ یایر لپید کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے لیے سفارتی مشن ان کے اپنے مرکزی علاقے راملّہ میں کھولا جا سکتا ہے۔ تاہم فلسطینی صدر محمود عباس کے ایک ترجمان نے اسرائیلی وزیر خارجہ کی اس تجویز کو مسترد کر دیا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں صدر کے ترجمان نبیل ابو روزینہ کا کہنا تھا، ’’ ہم فلسطینی ریاست کے لیے دارالحکومت یروشلم میں ہی امریکی قونصل خانے کو قبول کریں گے۔ اسی کا امریکی انتظامیہ نے اعلان کیا تھا اور یہی کرنے کا عہد بھی کیا تھا۔‘‘

اسرائیل نے سن 1967 کی جنگ کے بعد مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا اور اب اس کا دعوٰی ہے کہ غیر منقسم یروشلم ہی اسرائیل کا دارالحکومت ہے جبکہ فلسطینی اپنا مشرقی یروشلم واپس چاہتے ہیں اور وہ اس علاقے کو مستقبل کی ریاست فلسطین کا اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔

سابق امریکی صدر ٹرمپ عموماً ہر معاملے میں اسرائیل کی یکطرفہ طور پر حمایت کرتے تھے اور انہوں نے مشرقی یروشلم میں فلسطین کے لیے امریکی سفارتی مشن کو بند کر دیا تھا۔ تاہم بائیڈن انتظامیہ نے اسے دوبارہ کھولنے کا وعدہ کیا تھا اور اب یہ مسئلہ اسرائیل کے نئے وزیر اعظم اور بائیڈن انتظامیہ کے درمیان تعلقات کے لیے ایک امتحان بنتا جا رہا ہے۔

ٹرمپ نے سن 2018 میں اسرائيل کے لیے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا تھا۔ اس فیصلے پر فلسطینی اتھارٹی نے سخت ناراضی کا اظہار کیا تھا اور احتجاجاً امریکا سے تقریبا تمام تعلقات منقطع کر لیے تھے۔

امریکی وزیر خارجہ نے دوبارہ سفارتی مشن کھولنے کا وعدہ تو کیا ہے تاہم انہوں نے اس کے لیے کوئی تاریخ یا وقت متعین نہیں کیا ہے۔ امریکی حکام کہتے ہیں کہ اس حوالے سے اسرائیل کی مزاحمت ایک بڑی رکاوٹ بھی بن سکتی ہے۔