امریکا میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبہ ایک نئی مصیبت میں

USA University

USA University

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ خزاں کے سیمیسٹر کے دوران جن طلبہ کی کلاسیں آن لائن ہوں گی ان بین الاقوامی طلبہ کو امریکہ میں رہنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے نے کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ حالات سے پہلے سے ہی پریشان غیر ملکی طلبہ کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

امریکی محکمہ امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) نے پیر کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکا ایسے غیر ملکی طلبہ کو ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دے گا جن کی موسم خزا ں کے سیمیسٹر کے دوران کلاسیں آن لائن ہوں گی۔ اور اگر ایف۔ ون اور ایم۔ ون ویزا رکھنے والے طلبہ خزاں کے سیمیسٹر کے دوران امریکا میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسا کوئی کورس لینا ہوگا جہاں آف لائن کلاسیں جاری ہوں۔

آئی سی ای کے مطابق ایف 1 ویزا ان طلبہ کو جاری کیا جاتا ہے جو اکیڈمک کورس کرتے ہیں جب کہ ایم 1ویزا ان طلبہ کو ملتا ہے جو امریکا میں تعلیم کے دوران کوئی ”ووکیشنل کورس‘‘ بھی کرتے ہیں۔

آئی سی ای کا کہنا ہے کہ اس نئے حکم پر عمل نہ کرنے والوں کو ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم فی الوقت یہ معلوم نہیں ہے کہ کتنے طلبا اس پابندی سے متاثر ہوں گے۔ حالانکہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث کئی یونیورسٹیاں اپنی کلاسوں کو آن لائن نظام پر منتقل کر رہی ہیں۔

ایسے بین الاقوامی طلبہ جو فی الوقت امریکا میں ہیں اور آئندہ سیمیسٹر کے لیے جن کے کورسیز آن لائن کردیے گئے ہیں وہ اگر امریکا میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اب ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔ ان میں کسی ایسے اسکول میں داخلہ لینا شامل ہے جہاں ’آف لائن کورسیز‘ ہورہے ہوں۔

آئی سی ای نے اسٹوڈنٹ اینڈ ایکس چینج پروگرام کے تحت حالانکہ غیر ملکی طلبہ کو اسپرنگ اور سمر کے سیمیسٹر کے لیے امریکا میں رہتے ہوئے آن لائن کورسیز لینے کی اجازت دے دی تھی، جس کے بعد وہ کسی حد تک مطمئن ہوگئے تھے۔ لیکن پیر کے روز کیے گئے اعلان کے بعد سے غیرملکی طلبہ میں گھبراہٹ پھیل گئی ہے۔ کیوں کہ آئی سی ای نے اپنے اعلان میں واضح طور پر کہا ہے کہ وہ غیر ملکی طلبہ جو آن لائن کلاسوں کے لیے مندرج ہوتے ہوئے امریکا میں رہیں گے اور اسکولوں یا کالجوں میں براہ راست پڑھائے جارہے کورس میں داخلہ نہیں لیں گے انہیں امیگریشن نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، جس میں ملک بدری کی کارروائی بھی شامل ہے۔

امریکا اور کینیڈا میں بھارتی طلبہ کے مفادات کے لیے کام کرنے والے غیر منفعت بخش ادارے نارتھ امریکن ایسوسی ایشن آف انڈین اسٹوڈنٹس (این اے اے آئی ایس) کے بانی سدھانشو کوشک نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”ہمیں اپنے سوالوں کے جواب نہیں مل پارہے ہیں۔ لوگوں میں گھبراہٹ صرف اس حکم کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ حکم واضح نہیں ہے۔ طلبہ کو ابھی تک یہ پتہ نہیں چل پارہا ہے کہ وہ اس حکم سے کس طرح اور کتنا متاثر ہوں گے۔“

کوشک کا کہنا تھا ”سب سے زیادہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ حکم ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب اگست کے وسط سے تعلیمی ادارے کھلنے والے ہیں اور اگر کوئی واضح بات سامنے نہیں آتی ہے تو اس سے موجودہ اور آنے والے طلبہ بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔“ انہوں نے متنبہ کیا کہ اس فیصلے کے طلبہ کے صحت پر براہ راست اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

دریں اثنا امریکی حکومت کے فیصلے پر امریکا کی متعدد یونیورسٹیوں نے بھی تشویش کااظہار کیا ہے۔ اسٹین فورڈ یوینورسٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس فیصلے سے غیر ملکی طلبہ کے لیے مزید غیر یقینی کی صورت حال اور پیچیدگیا ں پیدا ہوں گی۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ وہ امریکی انتظامیہ سے اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کریں گے۔

اییل اور پرنسٹن سمیت دیگر یونیورسٹیوں نے بھی اپنے بیانات میں کہا ہے کہ وہ نئے ضابطے پر غور کررہی ہیں کہ اس سے موجودہ اور نئے غیر ملکی طلبہ کس طرح متاثر ہوں گے۔

خیال رہے کہ دنیا بھر سے بڑی تعداد میں طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا جاتے ہیں اور یونیورسٹیوں کو ان سے ٹیوشن فیس کی مد میں خاصی آمدنی ہوتی ہے۔ امریکی محکمہ تجارت کے مطابق 2018 میں غیر ملکی طلبہ سے امریکی معیشت کو 45 ارب ڈالر کا فائدہ ہوا تھا۔