اربن ڈیمو کریٹک فرنٹ (UDF) کے بانی و چیئرمین ناہید حسین نے کہاہے کہ کراچی گزشتہ کئی سالوں سے بدامنی کی بدترین آگ میں جل رہاہے

کراچی : اربن ڈیمو کریٹک فرنٹ (UDF) کے بانی و چیئرمین ناہید حسین نے کہاہے کہ کراچی گزشتہ کئی سالوں سے بدامنی کی بدترین آگ میں جل رہاہے کبھی یہ آگ دھیمی ہوتی ہے کبھی شدت اختیار کر جاتی ہے یہاں فوجی آپریشن ہوئے، رینجرز کو بلایا گیا، پولیس کے اختیارات میں بھی اضافہ کیاگیا لیکن کراچی کی روشنیاں کبھی مستقل طور پر نہ لوٹ سکیں اب توکراچی باقاعدہ بدامنی کابین الاقوامی شہر بن چکا ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے میڈیا پر سنز سے گفتگو کے دوران کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو جماعت کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کے تجاویز کی مخالفت کرتی تھی وہ بھی آج فوج کی طلبی کا مطالبہ کررہی ہے۔

جو سیاسی جماعتیں امن کی بحالی کے لئے کراچی کوفوج کے حوالے کرنے پر زور دیتی تھی وہ آج فوج کے آنے کی مخالفت کررہی ہیں نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ کراچی کے عوام اپنے پیاروں کے جنازے اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں آج کراچی میں امن کی بدترین صورتحال میں بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جارہی ہے ناہید حسین نے کہا کہ 25 سال کے دوران جمہوری نیم جمہوری اور آمرانہ حکومتیں آتی رہی لیکن کراچی کوامن کی ڈگر پر چلانے کی Commitment کسی حکومت کی طرف نظر نہیں آئی اکثر منافقانہ مصالحت دیکھنے میں آئی جس کے سبب کبھی ایک گروپ کی کراچی کی برتری قائم ہوئی تو کبھی دو، دو، تین، تین گروہوں کی۔

انہوں نے کہاکہ آج کراچی میں اجارہ داریوں کی جنگ لڑی جارہی ہے غیر سیاسی عناصر غلبہ پاتے اور سیاسی گروپ پسپائی اختیارکرتے نظر آتے ہیں ان سب کاروائیوں کے پیچھے یقینابھارت ہے اور اس کی خوفیا ایجنسی” را”اس کی سرپرست امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد ہے جو شاید مشرقی پاکستان والے حالات پیدا کرنے چاہتے ہو اور کہیں ایسا تو نہیں کہ بھارت کی سرپرستی میں یہ دہشت گردمکتی بہانی کا روپ اختیار کر لیں لیکن اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ کراچی میں سیاسی مداخلت اور مصلحت پسندی کی وجہ سے رینجرز اور پولیس کو مؤثر طور پہ استعمال نہیں کیا گیا اور آج بیرون ملک میں بھی کراچی کی بھتہ خوری کی شہرت پہنچ چکی ہے۔

جس کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کاریہاں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ یہاں امن وامان کا مسئلہ ہے اور بھتہ خوری ،تاجروں کے اغواء، ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات یہاں کاروبار کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگ شہر کے مختلف حصوں میں اپنا راج قائم کرنے کے لئے اسلحے کے زور پر ایک دوسرے سے دست گریباں ہیں ہر روز لاشے گرتے اور گھرا جڑ تے ہیں دوکاندار لُٹ رہے ہیں اور کاروبار تباہ ہو رہا ہے ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے کارخانے جلائے جارہے ہیں دن دہاڑے بھتوں کی پرچیاں انعامات کے کوپن کی طرح تقسیم کی جارہی ہیں۔

بچوں کے اغواء برائے تاوان کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے شہر کی سڑکوں اور ندی نالوں میں بوری بند لاشوں کا سلسلہ جاری ہے روزانہ کی بنیاد پر 10 سے 15 افراد کو موت کے گھاٹ اتارناعام ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر کراچی کے ہزاروں گھروں کے جراغ گل ہوئے ہیں ظالم اور سفاک قاتلوں نے شاعروں ، ادیبوں، دانشوروں، ڈاکٹروں، انجینئرز، اساتذہ کو بھی نہیں بخشا۔ جنہیں ہر معاشرے میں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو کسی بھی قوم یامعاشرے کا حصہ ہوتے ہیں ان کی آواز وں کو خاموش کر دیا گیا۔

اس سے بڑا سانحہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ ناہید حسین نے آخر میں کہا کہ آپریشن جزوی حل ہے اور اس میں بھی محتاط رویے کی ضرورت ہے اورایسا تاثر نہیں ملناچاہیے کہ آپریشن کسی مخصوص جماعت، علاقے اور زبان بولنے والے لوگوں کے خلاف ہے بلکہ جرائم میں ملوث افراد کے خلاف بلاامتیاز کاروائی کی جائے اور شہرقائد میں پھر سے قلم، کتاب اور انصاف کی فراہمی کے کلچر کو روشناس کرایا جائے۔