امریکی فوج کے لیے افغانستان میں کام کرنے والے کانٹریکٹرز اب دبئی میں’قید‘

US Army Afghanistan Contractors

US Army Afghanistan Contractors

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں امریکا کی ’ابدی جنگ‘ کے دوران امریکی فوج کو رسد کی امداد فراہم کرنے والے غیر ملکی ٹھیکیدار اپنے گھروں کو پہنچنے کی بجائے کورونا وبا کے سبب بین الاقوامی سفری پابندیوں کی وجہ سے دبئی میں پھنسے ہوئے ہیں۔

قریب دو دہائیوں کے بعد افغانستان سے امریکی فوج کے تیز رفتار انخلا کے سبب ہزاروں نجی سکیورٹی کانٹریکٹرز یا ٹھیکیداروں کی زندگیاں درہم برہم ہو کر رہ گئی ہیں۔ ان ٹھیکیداروں میں سے چند کا تعلق دنیا کے غریب ترین ممالک سے ہے۔ ان افراد کا افغانستان کی جنگ میں کردار امریکی فوج کے کرائے کے ہتیھاروں جیسا تو نہیں تھا مگر یہ امریکی فوج کے لیے کرائے کی افرادی قوت کی حیثیت سے بہت فعال تھے اور انہوں نے امریکا کی جنگی کوششوں میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔

برسوں ان کارکنوں نے بحیثیت باورچی، صفائی کا کام کرنے والے، تعمیراتی کارکن اور تکنیکی کاموں میں مدد کرنے والوں کے امریکی فوجی اڈوں پر اپنی خدمات انجام دیں۔ اب افغانستان سے امریکی فوج کے بہت جلد بازی میں ہونے والے انخلا نے انہیں بھی انتہائی جلد بازی میں سفری مشکلات سے دو چار کر دیا ہے۔ دبئی کے ہوٹلوں میں پھنسے ہوئے یہ مسافر اب کورونا وبا کی وجہ سے بین الاقوامی سفری قوائد و ضوابط اور سختیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ خاص طور سے فلپائن اور دیگر ممالک کی طرف سے غیر ملکی مسافروں پر سفری پابندیاں عائد کیے جانے کی وجہ سے ان ممالک سے تعلق رکھنے والے امدادی کارکن دبئی میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں مختلف ہوٹلوں میں قید جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔

غریب اور پسماندہ ممالک سے تعلق رکھنے والے نجی ٹھیکیداروں اور کارکنوں کو افغانستان کی جنگ کے دوران جس طرح سے امریکی فوج کی خدمات کے لیے استعمال کیا گیا اُس پر خود امریکی تجزیہ کار تنقید کر رہے ہیں۔ واشنگٹن میں قائم ‘سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹر نیشنل اسٹیڈیز‘ کے سکیورٹی تجزیہ کار اینتھونی کورڈسمن کہتے ہیں، ” یہ ایسی ہی صورتحال ہے جیسی کہ دنیا بھر میں غیر ملکی ٹھیکیداروں کی ہوتی ہے۔ ایسے افراد جنہیں اس بارے میں بہت کم شعور و آگہی ہوتی ہے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور کتنے غیر یقینی تعلقات کی بنا پر وہ کس نوعیت کی ذمہ داریاں سنبھالنے جا رہے ہیں۔ جب وہ بیرون ملک پہنچ جاتے ہیں تب ان کو اپنی قانونی حیثیت اور نقل و حرکت کے بارے میں پتا چلتا ہے۔‘‘

امریکا جیسے جیسے افغانستان سے اپنے فوجی واپس بلا رہا ہے ویسے ویسے ماہرین اور تجزیہ کاروں کی طرف سے تنقید سامنے آ رہی ہے۔ زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ پینٹاگون کی ‘لاجسٹکس آرمی‘ جتنی افراتفری میں افغانستان سے روانہ ہو رہی ہے اُس سے ایک تکلیف دہ حقیقت سامنے آ رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نجی نظام میں بہت سی بد انتظامی رہی ہے، جس کی زیادہ تر مالی اعانت امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے کی گئی اور یہ عمل امریکی قانون کے دائرے سے باہر ہے۔ امریکی تجزیہ کار اینتھونی کورڈسمن کے بقول، ”جنگ کے دوران ٹھیکیداروں کے ساتھ معاہدوں کی شرائط حقیقت میں آجر کو تمام تر ذمہ داریوں سے بری کر دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ کارکنوں یا تنخواہ داروں کی بیرون ملک سے واپسی کے حقوق بھی غیر یقینی ہوسکتے ہیں۔‘‘یورپ سے افغان مہاجرین کی ملک بدری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، ایمنسٹی

یہ امر واضح نہیں کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ساتھ کتنے ٹھیکیدار اس وقت بیرون ملک پھنسے ہوئے ہیں اور کورونا وبا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی قوانین و ضوابط کے تحت اپنے ملک پہنچنے کے بجائے دیگر ممالک خاص طور سے خلیجی ریاست دبئی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسو سی ایٹیڈ پریس کے ایک صحافی کے مطابق اُس نے انجینیئرنگ اور کنسٹرکشن کمپنی سے تعلق رکھنے والے کم از کم ایک درجن فلپائینی ٹھیکداروں کو دبئی کے اندرون شہر کے ضلع بَر میں قائم ‘مؤو این پک ہوٹل‘ میں پھنسے دیکھا ہے۔ ہوٹل انتظامیہ نے اس بارے میں کسی تبصرے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ، ” رازداری کی پالیسی کی وجہ سے انتظامیہ کو نہ تو ہوٹل کے مہمانوں نہ ہی ہوٹل کے کسی کارپوریٹ شراکت دار کی تفصیلات افشا کرنے کی اجازت ہے۔‘‘

دریں اثناء امریکی ملٹری سینٹرل کمانڈ نے سکیورٹی کے نجی ٹھیکداروں کے حوالے سے کسی قسم کا بیان دینے سے انکار کرتے ہوئے اس سلسلے میں اُٹھنے والے تمام سوالات کی ذمہ داری کمپنیوں کو سونپ دی ہے۔ اُدھر دبئی میں پھنسے ہوئے فلپائنی ٹھیکیداروں کے بارے میں امریکی ملٹری کانٹرٹکٹنگ آفس اور دبئی میں قائم فلپائنی قونصل خانے نے متعدد بار اس سلسلے میں بیان دینے کی درخواست کے باوجود خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

افغانستان کی تعمیر نو کے اسپیشل انسپکٹر جنرل کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جون کے اوائل تک دو ہزار چار سو اکانوے غیر ملکی کنٹریکٹ ورکرز افغانستان کے مختلف امریکی فوجی اڈوں میں تعینات تھے جبکہ اپریل میں ان کی تعداد چھ ہزار تین سو ننانوے تھی۔

امریکا کے افغانستان میں فوجی مشن کے رواں ماہ کے اواخر تک خاتمے کے باضابطہ فیصلے کے ساتھ ہی بیشتر کارکنوں نے افغانستان سے نکلنے اور ہوائی جہاز کے ذریعے اپنے گھروں کا رُخ کرنا شروع کر دیا اور ان کی فلائٹس کا انتظام ان کے آجرین کی طرف سےکیا گیا۔ ان ٹھیکیداروں کو افغانستان جنگ کے سالوں کے دوران دراصل افغانستان میں پینٹاگون لاجسٹکس کے لیے اربوں ڈالروں کے ٹھیکے ملے تھے۔

15 جون کو افغانستان سے جن ورکرز کی اچانک روانگی کا سلسلہ شروع ہوا، انہیں دبئی پہنچایا گیا۔ ان کا شمار اتنے مراعت یافتہ ورکرز یا خوش قسمتوں میں نہیں تھا۔ فلپائن، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ورکرز کی فلائٹس جولائی کے وسط میں ہی متحدہ عرب امارات میں روک دی گئیں۔ جس کی وجہ کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا کے پھیلاؤ کے سبب لگنے والی سفری پابندیاں تھیں۔

ان حالات کا سامنا کرنے والے فلپائنی ورکرز نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو اپنی شناخت نا ظاہر کرتے ہوئے اپنے مسائل اور غیر یقینی صورتحال کے بارے میں بتایا۔