امریکا اور عراق امریکی افواج کے انخلاء پر بات چیت کے لیے تیار

US Forces

US Forces

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا اور عراق کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں اور مشرق وسطی کے اس ملک میں موجود ڈھائی ہزار امریکی افواج کے انخلاء کے طریقہ کار پر فریقین کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہے۔

وائٹ ہاوس نے منگل کے روز بتایا کہ امریکا اور عراق اپریل میں اسٹریٹیجک مذاکرات بحال کرنے والے ہیں۔

ان مذاکرات کا آغاز ٹرمپ انتظامیہ کے دوران جون 2020 میں ہوا تھا اور گزشتہ جنوری میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد جو بائیڈن انتظامیہ میں یہ پہلی میٹنگ ہوگی۔

امریکی فوج ‘آئی ایس‘ کے خلاف جنگ میں معاون
دونوں ممالک عراق میں اس وقت موجودہ ڈھائی ہزار امریکی فورسز کی واپسی کے طریقہ کار پر بات چیت کریں گے۔

وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی نے ایک بیان میں کہا”ان میٹنگوں سے یہ بات مزید واضح ہوجائے گی کہ اتحادی افواج کی عراق میں موجودگی کا واحد مقصد عراقی فوج کو تربیت دینا اور اس امر کو یقینی بنانے میں ان کی مدد کرنا ہے کہ آئی ایس آئی ایس یا اسلامی ریاست دوبارہ خود کو منظم کرنے نا پائے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ حکام سکیورٹی، تجارت، ماحولیات اور ثقافت جیسے دیکر امور پر بھی بات چیت کریں گے۔ امید ہے کہ فریقین ‘باہمی مفادات‘ کے اہم امور اور واشنگٹن اور بغداد کے مابین تعلقات پر پڑنے والے ان کے اثرات پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ باہمی تعلقات میں کشیدگی میں جنوری 2020 سے اس وقت مزید اضافہ ہو گیا ہے جب امریکا نے بغداد ہوائی اڈے کے ٹھیک باہر ایران کے چوٹی کے فوجی رہنما جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی ملیشیا کے لیڈر ابو مہندی المنہدس کو ہلاک کر دیا تھا۔

اس حملے کے بعدعراقی قانون سازوں نے ملک سے امریکی اتحادی افواج کو باہر نکال دینے کے حوالے سے پارلیمان میں ایک قرارداد منظور کی تھی۔

حالانکہ گزشتہ سال مئی میں وزیر اعظم مصطفی القدیمی کے عراقی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے تعلقات میں نسبتاً بہتری آئی ہے لیکن بعض جماعتیں اور بالخصوص پارلیمان میں ایرانی حمایت یافتہ فتح گروپ اب بھی امریکی افواج کی واپسی کے مطالبے پر مصر ہے۔