واپڈا کی تباہی اورچیف جسٹس سے اپیل

Pakistan

Pakistan

گذشتہ روز ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آئی تو ہر طرف حکومتی اداروں بلخصوص ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی ناقص کارکردگی کے حوالہ سے ٹیلی ویژن اور اخبارات پر ایک لمبی بحث شروع ہوگئی مگر ان سب باتوں سے ہٹ کر جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس وقت پاکستان میں تقریبا تمام سرکاری ادارے بری طرح ناکام ہو چکے ہیں وہیں پر تمام سرکاری ملازم بھی عوام کے لیے ذہنی تکلیف کا باعث بنے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان مسائل میں گھرا ہوا ہے۔

پاکستانی بھوک سے خود کشیاں کررہے ہیں مگر کیا مجال ہے کہ کوئی ایک حکومت بھی ان اداروں کو ٹھیک کرسکے ملک میں سقوط ڈھاکہ سے لیکر اسامہ بن لادن کی شہادت تک ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ ہم سوائے شرمندگی اور ندامت کے کچھ نہ کرسکے اور ایسے تمام واقعات کی حقیقی تصویریں دوسرے ممالک کے میڈیا کے زریعے منظر عام پر آئی مگر بدقسمتی سے ہمارے حکمران ہمیشہ ملک دشمن افسران جن کو سوائے اپنے مفادات کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا کو مکمل تحفظ دیتے رہے ہیں۔

ملکی مفاد کا بہانہ بنا کر چوروں اور ڈکوئوں بلخصوص ایسے سرکاری افسران کو کسی بھی قسم کی کاروائی سے بچا لیتے ہیں جو اپنے ہی محکمہ کو ڈبونے لگے ہوئے بعض اوقات ان سرکاری افسران کی بددیانتیاں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے ہمیں کسی بیرنی دشمن کی ضرورت نہیں ہمارے اپنے ہی ہمیں تباہ وبرباد کرنے کے لیے کافی ہیں بدقسمتی سے ہم آج تک ایک محب وطن قوم نہ بن سکے اور ہم اپنے ہی گھر کو لوٹنے میں مصروف ہیں اور اپنی انکھیں بند کیے اپنا ہی تماشا دیکھنے میں مصروف ہیں۔

میں نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک کالم میں 5 ماہ قبل ملک میں اچانک بجلی کے طویل بریک ڈائون کے حوالہ سے کچھ حقائق درج کیے تھے اور تفصیلات پھر کبھی لکھنے کا وعدہ کیا تھا اب میں اس طویل بریک ڈائون کی حقیقت اور واپڈا افسران کی ملک دشمنی کی حقیقت واضح کرتا ہوں یہ غازی بروتھا پاور ہائوس ہے اور 24 فروری 2013ء کورات کے 11 بجکر 27 منٹ ہوئے ہیں کنٹرول روم میں تین جونیئر انجینئر امیر محمد ،لیاقت اور عبدالرئوف ڈیوٹی پر ہیں جن میں سے امیر محمد جاگ رہا ہے اور باقی کے دونوں سوئے ہوئے ہیں۔

Turbine

Turbine

امیر محمد وقت گذاری کے لیے کمپیوٹر سے کھیل رہا تھا اور اسی کھیل کے دوران اس نے بغیر کسی وجہ کے 3 ٹربائنیں بند کر دی اس وقت ایک ٹربائن 290 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہی تھی اس طرح تینوں مشینیں ملکر 870 میگا واٹ بجلی پیدا کرکے ملک میں روشنی کا باعث بنی ہوئی تھی جبکہ اس وقت پانی کا لیول 330.8 میٹر فور وے تھا اور یہ مشینیں 329 میٹر فوروے پانی کے لیول تک کام کرسکتی ہیں مگر اس واقعہ کے بعداب پانی کے لیول کی حد 329.5 رکھ دی گئی ہے جس وقت امیر محمد نے غلطی سے یہ تینوں مشینیں بند کی اس وقت تمام مشینیں بلکل اپنی صحیح حالت میں کام کر رہی تھی۔

پانی کالیول بھی پورا تھا اور مشینوں میں شور نام کی بھی کوئی چیز نہیں تھی اور سب سے بڑی بات یہ کہ جہاں پر مشینیں چل رہی ہیں وہاں سے کنٹرول روم تک آوازیں بلکل نہیں آتی اور جیسے ہی جونینئر انجینئر امیر محمد نے غلطی سے بجلی پیدا کرنے والی 3 مشینیں بند کی تو باقی سارے پاور ہائوس بھی خود بخود بند ہوگئے اور سوائے کراچی کے پورا ملک تاریکی میں ڈوب گیا اور دوبارہ بجلی بحال ہونے میں کم از کم 48 گھنٹے لگتے ہیں اور اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔

مگر حکومت اور حکومتی اداروں کی نااہلی کی اس سے گھٹیا اور بدترین مثال کیا ہوسکتی ہے کہ کسی نے بھی اس واقعہ کی موقعہ پر جاکر انکوائری کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اور اس وقت غازی بروتھا کے جی ایم زاہد خان جو اپنی ریٹائرمنٹ کے بلکل قریب تھے اور چیف انجینئر فیروز دین نے اپنے آپکو اور اپنے جونیئر افسران کو بچانے کے لیے حکومت کو ایک من گھڑت کہانی سنا دی ان افسران کی یہیں پر ہی تسلی نہیں ہوئی انہوں نے اور آگے کا سوچا کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے پاکستان کو ابھی اور سبق سکھانا ہے۔

ان افسران نے فوری طور پر غلطی کرنے والے جونیئر افسرامیر محمد کو جو ابھی کنٹریکٹ پر تھاکنفرم کرکے منگلا ٹرانسفر کردیا اور بلکل درست حالت میں چلنے والی 5 مشینوں کو اپنے مستریوں کے زریعے کھلوا دیا اور مینٹی نینس کے نام پر لاکھوں روپے فضول میں ضائع کردیے یہ وہ مشینیں تھی جو 2003ء سے چل رہی ہیں۔

ان سے آج تک کسی قسم کی کوئی آواز پیدا نہیں ہوئی سوائے بجلی کے مگر ہمارے اپنے ہی محافظ نما ڈاکوئوں نے ہمیں تباہی و بربادی کے دھانے تک پہنچا دیا ہے میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری سے اس کالم کی توسط سے اپیل کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اس واقعہ کا بھی نوٹس لیں اور غریب پاکستانیوں کے ٹیکسوں پر پلنے والے ان سورما ئوں کو انکے منتقی انجام تک پہنچائیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03466444144