ہم جنگ سے بچنا اور اعتماد قائم کرنا چاہتے ہیں: ماکرون کی پوتین سے گفتگو

Emmanuel Macron and Vladimir Putin

Emmanuel Macron and Vladimir Putin

ماسکو (اصل میڈیا ڈیسک) فرانسیسی صدر عمانوایل ماکرون نے پیر کو کریملن میں مذاکرات کے آغاز میں روسی ہم منصب ولادی میر پوتین کو بتایا کہ ان کے دورے کا مقصد جنگ سے بچنا اور اعتماد کی فضا قائم کرنا ہے۔

وہ روس کی جانب سے یوکرین کے ساتھ سرحد پر ہزاروں فوجیوں کے اجتماع کے بعد ماسکو کا دورہ کرنے والے مغرب کے پہلے بڑے لیڈر ہیں۔ انھوں نے روسی صدر کو بتایا کہ ’’وہ ایک ’مفید‘جواب کے خواہاں ہیں۔ یقیناً ہمیں جنگ سے بچنے، اعتماد اور استحکام کی اینٹیں تعمیر کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

صدر پوتین نے جواب میں کہا کہ ’’روس اور فرانس کو یورپ میں سلامتی کے بارے میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر ایک مشترکہ تشویش لاحق ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ فرانس کی موجودہ قیادت اور صدر ذاتی طور پر یورپ میں سنجیدہ تاریخی تناظر میں بحران کو حل کرنے کے لیے کتنی کوششیں کر رہے ہیں‘‘۔

صدر ماکرون نے خود کو روس اور مغرب کے درمیان یوکرین پر تنازع میں ایک ممکنہ ثالث کے طور پر پیش کیا ہے۔نیز فرانسیسی حکام نے واشنگٹن، لندن اور دیگر مغربی دارالحکومتوں کی ان پیشین گوئیوں پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے کہ روس یوکرین پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے۔

ماکرون نے ماسکو کے دورے کے موقع پراخبار جرنل دو دیمانچے کو بتایا کہ آج روس کا جیو پولیٹیکل مقصد واضح طور پر یوکرین نہیں بلکہ وہ نیٹو اور یورپی یونین کے ساتھ برابری کے قواعد وضع کرنا چاہتا ہے۔اپنی آمد پر ماکرون نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا:’’میں کافی پرامید ہوں لیکن میں خودساختہ معجزوں میں یقین نہیں رکھتا‘‘۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے دونوں صدور کے درمیان مذاکرات سے قبل کہا:’’صورت حال بہت پیچیدہ ہے اور صرف ایک ملاقات میں فیصلہ کن کامیابیوں کی توقع نہیں کی جاسکتی‘‘۔

روس نے یوکرین کی سرحد کے قریب ایک لاکھ سے زیادہ فوجی تعینات کیے ہیں۔اس نے حملے کی منصوبہ بندی کی تردید کی ہے لیکن کہا ہے کہ اگر مطالبات پورے نہ کیے گئے تووہ غیرمتعین ’فوجی تکنیکی اقدامات‘کرنے کو تیار ہے۔اس میں نیٹو کی جانب سے یوکرین کو کبھی شامل نہ کرنے اور مشرقی یورپ سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے فوجیوں کو واپس بلانے کا وعدہ بھی شامل ہے۔

واشنگٹن نے ان مطالبات کو غیر ضروری قرار دے کر مسترد کر دیا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ وہ ہتھیاروں پر قابوپانے اور اعتماد سازی کے اقدامات کے بارے میں بات کرنے کو تیار ہے۔

دمتری پیسکوف نے کہا کہ حالیہ دنوں میں روس کی سلامتی کی ضمانت کے موضوع پرکوئی نئی بات نہیں ہوئی ہے کیونکہ ہمارے مغربی مکالمہ کار اس موضوع کو نہ چھیڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

امریکا اوراس کے اتحادیوں نے فوجی طاقت کے ساتھ یوکرین کا دفاع کرنے سے توانکارکیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی حملے کا جواب پابندیوں، ہتھیاروں کی ترسیل اور قریبی نیٹو ممالک کی مضبوطی کی صورت میں دیں گے۔

گذشتہ ہفتے امریکی صدرجوبائیڈن نے نیٹو کے مشرقی حصے کی بہتر حفاظت کے لیے پولینڈ اور رومانیہ میں قریباً تین ہزار امریکی فوجیوں کو تعینات کرنے کا حکم دیا تھا۔ایک امریکی جنرل ہفتے کے روز پولینڈ پہنچے تھے اور وہاں نئی امریکی افواج کا بڑا حصہ پیر کو آنے کی توقع تھی۔
دفاعی اتحاد

دریں اثناء جرمنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ نیٹو کے جنگی گروپ کو تقویت دینے کے لیے لتھووینیا میں ساڑھے تین سو فوجی تعینات کرے گا۔جرمن وزیرخارجہ انالینا بیربوک نے یوکرین کی واضح حمایت کا وعدہ کیا ہے۔وہ گذشتہ تین ہفتوں میں کیف کا دوسرا دورہ کررہی ہیں۔

ادھر لندن میں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے ترجمان نے کہا کہ نیٹو کی ممکنہ جارحیت کے بارے میں روس کے خدشات بنیادی طور پر بے بنیاد ہیں کیونکہ نیٹو اپنی ہیئت ترکیبی اور نوعیت کے اعتبار سے ایک دفاعی اتحاد ہے۔انھوں نے کہا کہ برطانیہ ماسکو سے مل کر اس نکتے پر یقین دہانی کرانا چاہتا ہے۔

تاہم روس تین دہائیاں قبل سردجنگ کے خاتمے کے بعد نیٹومیں 14 نئے مشرقی یورپی ارکان کے اضافے کو اپنے اثر و رسوخ کے دائرے میں تجاوز اور اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

جرمنی نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ یوکرین کو 5000 فوجی ہیلمٹ بھیجے گا- کیف کے میئر نے اس پیش کش کو’مذاق‘قرار دیا ہے کیونکہ یوکرین اپنے دفاع کے لیے ہتھیاروں کی تلاش میں ہے۔

جرمنی نے بیسویں صدی کی عالمی جنگوں میں اپنے کردار سے پیدا ہونے والی تاریخی وجوہات کی بنا پر یوکرین کو مہلک ہتھیار بھیجنے سے انکار کیا ہے لیکن یوکرین کے وزیرخارجہ ڈمیٹرو کلیبا نے کہا کہ وہ اس معاملے کو دوبارہ بیربوک کے سامنے اٹھائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ جرمنی نے باربار اور عوامی سطح پر اس فیصلے کی وضاحت کی ہے۔ ہم یوکرین کے حوالے سے ان وضاحتوں کو غیرمنصفانہ سمجھتے ہیں۔ہمیں یقین ہے کہ جرمنی کے لیے کارروائی کرنے کی وسیع جگہ موجود ہے۔اینجیلا مرکل کی 16 سالہ قیادت کے بعدگذشتہ سال چانسلر کا عہدہ سنبھالنے والے اولاف شلزپیر کو وائٹ ہاؤس میں بائیڈن سے ملاقات کرنے والے تھے اور وہ اگلے ہفتے کیف کا دورہ کریں گے۔