پانی کا عالمی دِن، بھارتی آبی جارحیت اور کالا باغ ڈیم

Springs

Springs

کون نہیں جانتا کہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اور کامیابی کے ساتھ پانی کا قریبی واسطہ ہے ۔بارش ،طوفانوں ،چشموں ،ندی نالوں اور دریائوں کے پانی کو محفوظ کرنے کے بعد اسے آبپاشی اور بجلی بنانے کے لئے استعمال کرکے ملکی ترقی کو دو چند کیا جا سکتا ہے۔جبکہ یہی پانی ہے جو بے قابو ہو کر دنیا میں ہر سال انسانی جانوں ہی نہیںبلکہ اربوں ڈالرکا بھی ضیاع ہو رہا ہے۔

پانی کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 22دسمبر1992ء کو منعقد ہونے والے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک قرار داد کے ذریعے ہر سال 22مارچ کو دنیا بھر میں پانی کا عالمی دِن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔فیصلہ ہو ا کہ دنیا میں ہر سال پانی کی اہمیت ،اسکی ضرورت ،پانی کے وسائل کی ترقی ،اور اسکو ذخیرہ کرنے کی ضرورت کے بارے میںتحریری لٹریچر،دستاویزی فلموں ،کانفرنسوں اور سیمیناروں کے ذریعے کو شعور و آگہی دی جائے۔اس مقصد کے حصول کے لئے اقوامِ متحدہ کانفرنس اقوامِ متحدہ کانفرنس برائے ماحولیات و ترقی (یو این سی ای ڈی)کے تحت 3جون 1992ء تا 14جون 1992ء منعقد ہونے والے اجلاس میں دستاویز کے باب 18میں نکتہ نمبر 21 شامل کیا گیا۔

جس میں پانی کے متعلق ایک ایک مکمل اور جامعہ پروگرام پر عمل درآمداور نگرانی شامل ہے ۔پانی سے آنے والی آفات اور انکے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو کم کرنے اور پانی کے ذخیرے کو محفوظ کرکے تباہی کی بجائے ترقی کی طرف بڑھانے کے لئے انٹرنیشنل ہائیڈرولوجیکل پروگرام (آئی ایچ پی )بنایا گیا جو گلوبل ہائیڈرولوجیکل اور بائیو کیمیکل کے باہمی عمل ،زمین پر پیدا ہونے والے نقصانات اور انہیں رکھنے کے لئے ذخیرے بنانے اور زیر زمین پانی کے ذخائرکے محفوظ استعمال جیسے آٹھ نکات پر مشتمل ہے ۔پانی کے عالمی دِن کے موقع پر دنیا بھر میں پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف ملکوں میں کانفرنسیں اور سیمینارز منعقد کئے گئے ۔پاکستان میں بھی ایگری اینڈ واٹر کونسل نے ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے ملک میں آبی منصوبوں کی تعمیر پر زور دیتے ہوئے پانی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

انٹرنیشنل ہائیڈرولوجیکل پروگرام کو دیکھا جائے تو اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دنیا پانی کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے پر عمل پیرا ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کے سیاستدان اور بیوروکریسی کی عدم دلچسپی کی بناء پر ہم پانی جیسی قیمتی نعمت کو کھوتے جا رہے ہیں۔کبھی بھارتی آبی جارحیت کے خلاف حکومتی خاموشی کا منظر آنکھوں کے سامنے گھومتا ہے تو کبھی کالا باغ ڈیم کے مخالفین کے غیر سنجیدہ بیانات نظروں سے گزرتے ہیں،کبھی بگلیہار ڈیم بنانے کی دھمکیاں ملتی ہیں تو کبھی کِشن گنگا ڈیم بنا کر نیلم کا پانی روکنے کے نعرے کانوں کو تکلیف دیتے ہیں لیکن ان سارے نعروں اور باتوں کے باوجود ہمارے ملک کی بیوروکریسی اور سیا ستدانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

Rivers

Rivers

ایک طرف پاکستان کا دوسرا بڑا دُشمن بھارت پاکستانی دریائوں کے پانیوں پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے اور دوسری جانب ہمارے ملک میں موجود شرپسند عناصر ملکی ترقی کے منصوبوں میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے ہمہء وقت اوچھے ہتھکنڈوں میں مصروف رہتے ہیں۔بہر حال یہاں یہی کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستانی بیوروکریسی اور سیاسی قوتوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فی الفور آبی منصوبوں پر کام شروع کرنا چاہئے۔

پانی کے عالمی دِن کے موقع پر قارئین کو بھارتی آبی جارحیت کے بارے میں بھی کچھ آگاہ کرنے کی جسارت حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ دراصل بھارت اُس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے جو یکم اپریل 1960ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائے سندہ کے پانی کی تقسیم کے سلسلہ میںورلڈ بینک کی ثالثی میں ہوا تھا۔اِس معاہدے کے مطابق ستلج ،بیاس اور راوی کے پانی کے استعمال کا حق بھارت کو دیا گیا تھا جبکہ سندہ،جہلم اور چناب کے پانی کو پاکستان کا حق قرار دیا گیا۔

سندہ طاس کے معاہدہ 1960ء کے بعد ڈیموں اور رابطہ نہروں کی تکمیل کے سبب ہندوستان نے 1970ء میں دریائے ستلج اور دریائے راوی کا پانی مکمل طور پر اپنے استعمال میں لانا شروع کر دیاجس سے پاکستان شدید آبی بحران کا شکار ہو گیااور پاکستان کے دریائوں میں دھول اُڑنے لگی اور اِس آبی بحران کی وجہ سے آب گاہوں کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔آبی حیات اور انسانی زندگی بچانے کے لئے اِن دریائوں میں پانی آنا بے حد ضروری ہے لیکن افسوس کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک کو نہ تو آبی حیات کی زندگی سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی انسانی زندگیوں کی کوئی پرواہ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان 2000ء میں اُس وقت تنازعہ شروع ہو گیا جب بھارت نے دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم کی تعمیر شروع کر دی۔

2007میں عالمی بینک نے پاکستا ن کے جو تین اعتراضات تسلیم کرتے ہوئے بھارت کو ہدایات جاری کیں تھیں اُن میں سے ایک یہ تھا کہ دریائے چناب پر واقع بگلیہار ڈیم کی اونچائی ڈیڑہ میٹر کم کی جائے،دوسرا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے عالمی بینک نے ہدائیت کی کہ ڈیم کے ذخیرے کی استعداد پچاس لاکھ کیوبک میٹر کم کی جائے جو ہندوستان کو 37ملین کیوبک میٹر سے کم کر کے 32ملین پر لا نا تھی۔عالمی بینک نے پاکستان کا تیسرا مطالبہ بھی مانا اور ہدائیت کی کہ توانائی حاصل کرنے کے لئے بھارت کو مزید تین میٹر اونچائی سے پانی لینا ہو گا۔ بھارت نے دریائے چناب کا پانی روک کر نہ صرف سندہ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی بلکہ عالمی قوانین کو بھی چیلنج کیا۔

بھارت کے چناب کا پانی بند کرنے کی وجہ سے کپاس اور گنے کی فصلیں بُری طرح متاثرہوئیں اور اگر بھارت نے اپنے یہی عزائم جاری رکھے تو پاکستان کو 35فیصد پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اب یہاں دیکھنا یہ ہے کہ عالمی قوانین کیا کہتے ہیں؟عالمی قوانین کے مطابق اُن ملکوں پر جہاں سے کوئی دریا شروع ہوکر کسی دوسرے ملک میں بہتا ہوا جاتا ہے اُن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی حدود میں اُن دریائوں کے پانی کا بیجا استعمال نہ کریںجس سے کسی دوسرے ملک میں پانی کی کمی ہو رہی ہو۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بھارت نے نہ تو عالمی قوانین کی کوئی پرواہ کی ہے اور نہ ہی سندہ طاس معاہدے کی۔

دریائے چناب 1086کلومیٹر لمبا ئی کا حامل یہ دریا بھارتی علاقہ ہماچل پردیش سے نکلتا ہے جس پر پاکستان کی حدود میں مرالہ ،خانکی ،قادرآباداور تریمو بیراجز واقع ہیں جِن سے نکلنے والی ہزاروں میل لمبی نہریں لاکھوں ایکڑ رقبے کو سیراب کر رہی ہیں۔ دریائے چناب کا پانی روک کر بھارت نے زبر دست قحط اور غذائی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اگر بھارت نے دوبارہ معاہدے کی خلاف ورزی کی تو مرالہ راوی لنک کینال ،اپر چناب کینال،اپر گوگیرہ برانچ کینال،لوئر گوگیرہ برانچ کینال،رکھ برانچ کینال،جھنگ برانچ کینال،برالہ مین کینال،میانوالی مین کینال(ایل سی سی ایسٹ)، اور سینکڑوں ڈسٹری بیوٹریز کا پانی استعمال کرنے والے کاشتکار بے حد متاثر ہونگے۔اورپنجاب کے اضلاع سیالکوٹ،گوجرانوالہ،لاہور،شیخوپورہ،حافظ آباد،ننکانہ صاحب،فیصل آباد،ٹوبہ ٹیک سنگھ ،جھنگ،ساہیوال،اوکاڑہ، اور دیگر علاقوں کا ہزاروں ایکڑ رقبہ بنجر ہونے کا خطرہ ہے۔

Ganga Dam

Ganga Dam

پاکستان نے اِس ایشو پر بار بار احتجاج کیا لیکن بھارت نے سُنی اَن سُنی کر دی ہے جبکہ پاکستانی کسان ورلڈ بینک اور اقوامِ متحدہ سے یہی مطالبہ کر تے رہے کہ بھارتی حکومت کے عزائم کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کروایا جائے بھارت کی اِس حرکت کی وجہ سے پاکستان کو روزانہ 30ہزار کیوسک سے زائد پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان ابھی بگلیہار ڈیم کی تعمیر کے غصے سے باہر نہیں نکلا تھا کہ ہمیں کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے بارے میں بھی سرخ جھنڈی دکھا دی گئی اور عوام غم و غصے کا اظہار کرنے لگے لیکن حُکمران اپنی کرسیاں اور سیاسی پارٹیاں مستحکم کرنے کے درپے ہو گئے۔اقوامِ متحدہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بھارت پر زور دے کہ وہ آئندہ سندہ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہ کرے ۔ پاکستانی حکومت کو بھی چاہئے کہ آئندہ برٹش ماہرین کا سہارا لینے کی بجائے ملک میں انٹر نیشنل واٹر لاء کے ماہرین تیار کئے جائیں۔

ہم نے ماضی میں بھی انٹرنیشنل واٹر لاء سے متعلقہ برٹش ماہرین کی خدمات حاصل کیں تھیںاور موجودہ حالات اور وقت ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم بین الاقوامی عدالتوں میں اپنے موقف بیان کرنے کے لئے سہارے ڈھونڈتے پھریں۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ آج اگر ہمیںواٹر ایشو پر کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر جانا پڑے تو ہمارے پاس انٹر نیشنل واٹر لاء کے ماہرین موجود نہیں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ارسا(IRSA) نے بھی انٹر نیشنل واٹر لاء کے ماہرین تیار کرنے کی تجویز دی تھی لیکن ابھی تک اُس تجویز پر بھی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔حکومتِ وقت کو چاہئے کہ وہ پانی کی صورت حال کو غور سے دیکھتے ہوئے دور اندیشی سے سوچے کہ ہم نے اپنے ملک کے اثاثوں اور سرحدوں کا تحفظ خود کرنا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کو بچانے کے لئے ہمیں چاہئے کہ تمام اختلافات بھول کر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو عملی جامہ پہنا دیں ورنہ یہاں صومالیہ اور ایتھوپیا جیسی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔اِس تمام تر صورتحال کے پیشِ نظر پاکستان کی آبی ضرورت اِس امر کی متقاضی ہے ہمیں دستیاب پانی کے ایک ایک قطرے کو زرعی اور اقتصادی استحکام کی خاطر بروئے کار لانے کے لئے فوری طور پر طویل المعیاد آبی منصوبے شروع کرنے چاہئیںلیکن بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بڑھکیں تو بہت ماری گئیں کہ ہم کالا باغ ڈیم اور دوسرے ڈیم ضرور بنائیں گے لیکن یہ بڑھکیں صرف اخباری بیانات کی حد تک رہیں۔

دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور ہم ابھی اسی جھگڑے سے باہر نہیں نکلے کہ ” کالاباغ ڈیم بننا چاہئے/کالا باغ ڈیم نہیں بننا چاہئے” ۔پاکستان کے کروڑوں لوگ چیخ چلا رہے ہیں کہ ملکی ترقی کی خاطر آبی منصوبوں بالخصوص کا لا باغ ڈیم کی اشد ضرورت ہے لیکن اُن کروڑوں لوگوں کی اس پکار کو کوئی نہیں سُن رہا بلکہ اُن چند جاگیرداروں کی آواز حکمرانوں کے کانوں میں فوراً پڑتی ہے جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم نہیں بننا چاہئے اور انکی اس بات کو بنیاد بنا کر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ چاروں صوبوں کو اعتماد میں لینے کے بعد کالا باغ کی تعمیر شروع کی جائے گی اور بعد میں اعتماد میں تو کیا اس منصوبے کا خاتمے کا ہی اعلان کر دیا جاتا ہے۔میںحکومتِ وقت سے صرف ایک سوال کرتا ہوں کہ کیا اگر پاکستان کی سالمیت خطرے میں ہو تو کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے عوام کو اعتماد میں لیا جائے گا یا حکومت اپنی مرضی سے اقدام اُٹھائے گی؟۔اگر حکومت اپنی مرضی سے فوری اقدام ضروری سمجھے گی تو حکومتِ وقت کو یہ جا ن لینا چاہئے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بغیر پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔

Devastated Economy

Devastated Economy

کیونکہ قحط ذدہ ملکوں کے لوگ اپنے ملک کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کرتے ہیں اور ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اگر پاکستان میںفوری طور پر نئے آبی ذخائر کی تعمیر یقینی نہ بنائی گئی تو چند سال تک یہاں کی عوام بھی پانی کی بوند کو ترسے گی کیونکہ ہمارا ہمسایہ ملک ہماری معیشت تباہ کرنے کے لئے مکمل منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے اور ہماری طرف آنے والے دریائوں کا پانی روکنے کے لئے منصوبے پایہء تکمیل تک پہنچا رہا ہے۔بہر حال میں حکومتِ وقت سے یہی اپیل کرتا ہوں کہ خدا
راہمارے ملک کو بچائیں اور ملکی معیشت کو تباہی سے بچانے کے لئے کالا باغ ڈیم کی فوری تعمیر کا آغاز کر دیں۔دوسر ی جانب میں چاروں صوبوں کے عوام سے بھی ایک مئودبانہ گزارش کرتا ہوں کہ میرے پیارے پاکستان کو بچا سکتے ہیں تو بچا لیں کیونکہ اگر ہم آپس میں لڑتے رہے تو باہر سے کوئی بھی ہماری مدد کو نہیں آئے گا۔

یہ صوبائی تعصب ختم کرکے پاکستان کے مفاد کی خاطر یک جان ہو جائیں کیونکہ ہم جب تک ایک قوم کی شکل اختیار نہیں کریں گے تب تک ہمارے ملک کو بیک گئیر لگا رہے گا۔کہتے ہیں ہمسائے کا منہ سرخ ہو تو بعض لوگ تھپڑ مار کر اپنا منہ سرخ کر لیتے ہیںپس ہمیں بھی اسی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا اور اپنے ہمسائے ملک چین کو مثال بناتے ہوئے اپنے پاکستان کو بھی ترقی کی راہوں پر گامزن کرنا ہوگا۔آئیے ہم سب مل کر پاکستان کوقحط سے بچائیں۔
تحریر : محمد اکرم خان فریدی
email#akramkhanfaridi@gmail.com