ڈبلیو ایچ او کی سائٹ پر جموں کشمیر کہاں ہے اور بھارت کی پریشانی کیا ہے؟

Kashmir

Kashmir

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی پارلیمان میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گيا کہ ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ پر جموں و کشمیر کے کچھ حصے کو پاکستان اور چین میں دکھا يا گيا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ادارے کے ساتھ نقشے کا مسئلہ ’سختی سے اٹھایا‘ گیا ہے۔

بھارتی پارلیمان کے بجٹ اجلاس کے پہلے ہی روز متنازعہ خطے جموں و کشمیر کے مبینہ طور پر غلط نقشے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گيا ہے۔ وزيراعظم نريندر مودی کی حکومت میں شامل ایک سرکردہ وزیر جیوتی رادتیہ سندھیا نے سوال پوچھا کہ آخر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ویب سائٹ پر بھارتی سرحدوں کو غلط انداز سے کیوں پیش کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے وزارت خارجہ سے جواب طلب کیا کہ کیا وزارت خارجہ نے عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر جو بھارتی نقشہ ہے، اس بارے میں ادارے سے کوئی بات چیت کی ہے کہ آخر اس میں، ’جموں و کشمیر اور لداخ جیسے مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو بالکل مختلف رنگ میں کیوں دکھایا گيا ہے۔ کیا حکومت نے اس پر کوئی احتجاج کیا ہے یا نہیں؟‘
مودی حکومت کا موقف

ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں وزارت خارجہ کی جانب سے تحریری جواب آيا کہ اس کی جانب سے اس پيش رفت پر سخت اعتراض کیا گیا ہے۔ تحریری جواب پڑھتے ہوئے مملکتی وزیر خارجہ وی مرلی دھرن نے کہا، ’’عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ویب سائٹ پر بھارتی نقشے کی غلط تصویر کشی کا معاملہ اعلی سطح پر ادارے کے حکام کے ساتھ سختی سے اٹھایا گیا ہے۔‘‘

وزیر کا مزید کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او نے جنیوا میں بھارتی مشن کو مطلع کیا ہے کہ انہوں نے اس معاملے میں اپنے پورٹل پر وضاحت پیش کرتے ہوئے اپنی دستبرداری کی بھی نشاندہی کی ہے۔

ان کا کہنا تھا، ’’چند خصوصی عہدیداروں کی جانب سے پیش کردہ مواد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے کسی ملک، علاقے یا خطے کی سرحدوں کو قانونی حیثیت دی گئی ہو یا سرحدوں یا حدود کی حد بندی کے بارے میں کسی رائے کا اظہار کیا گيا ہو۔ نقشوں پر نقطے دار اور ڈیشڈ لائنیں اندازاً ان سرحدی لکیروں کی نمائندگی کرتی ہیں جن کے بارے میں ابھی تک کوئی مکمل معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود بھی بھارتی حکومت نے، ’’اپنی حدود اور سرحدوں سے متعلق صحیح تصویر کشی کے لیے اپنے موقف کو غیر واضح انداز میں دہرایا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او کی مختلف ویب سائٹوں پر بھارت کا جو نقشہ اس وقت موجود ہے اس میں بھارت کے زیر انتظام خطہ کشمیر اور لداخ کو بھارت کا حصہ دکھانے کے بجائے، ایک الگ علاقہ دکھایا گیا ہے اور اسی پر بھارت کو سخت اعتراض ہے۔

چند روز قبل ہی ترنمول کانگریس سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان سانتنو سین نے اس نقشے کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ پوسٹ میں حکومت سے اس معاملے پر فوری اقدام کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ٹیگ کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کی سائٹ کے متنازعہ نقشے کا لنک بھی پوسٹ کیا تھا۔ انہوں نے لکھا، ’’جموں و کشمیر کو بھارت سے مختلف رنگ میں الگ دکھایا گيا ہے۔ اگر اس پر کووڈ کے لیے کلک کریں تو بھارت کے بجائے پاکستان اور چین کا ڈیٹا دکھائی ديتا ہے۔‘‘

انہوں نے وزیر اعظم مودی کے نام اپنے ایک مکتوب میں یہ بھی لکھا ہے کہ متنازعہ ریاست اروناچل پردیش کے بھی ایک حصے کو بھارت سے بالکل الگ پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو عوام کے سامنے اس بات کی وضاحت پيش کرنی چاہیے کہ آخر اتنی مدت سے اس غلطی کو درست کیوں نہیں کیا گیا۔
متنازعہ نقشہ ہے کیا؟

گزشتہ برس ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ پر کورونا وائرس سے متعلق ڈیش بورڈ پر بھارت کا جو نقشہ پیش کیا گیا تھا اس میں متنازعہ خطے جموں و کشمیر اور لداخ کو بھارتی نقشے سے بالکل مختلف رنگ میں پیش کیا گیا۔ اس کے برعکس اکسائی چن سمیت خطے کے دیگر متنازعہ علاقوں کو چین کے نقشے میں دکھایا گیا ہے۔

بھارت کو اسی پر سخت اعتراض ہے اور اسی لیے اس نے حالیہ مہینوں میں تین بار اس معاملے کو ڈبلیو ایچ او کے ساتھ اٹھایا۔ بھارت نے اس معاملے پر ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس اڈہانوم گیبیریئس کے نام ایک سخت مکتوب بھی بھیجا تھا اور تب سے جنیوا میں بھارتی حکام اس نقشے کو ہٹا کر دوسرا نقشہ لگانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

بھارت کا موقف ہے کہ عالمی ادارے کو بھارتی حکومت کا جاری کردہ نقشہ اپنی سائٹ پر لگانا چاہیے۔ لیکن ادارے نے ایسا کرنے کے بجائے اپنی ویب سائٹ پر ایک وضاحتی بیان شائع کر کے یہ کہا کہ اس کے اس نقشے کا مطلب کسی ملک کی سرحد کا تعین نہیں ہے۔

بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام خطہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس پر دونوں ملک اپنا اپنا دعوی کرتے ہیں۔ بھارت اسے اپنا اٹوٹ حصہ بتاتا ہے جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت اس علاقے پر غیر قانونی طور پر قابض ہے اور اس کے حل کے لیے استصواب رائے کی وکالت کرتا ہے۔

جی 20 سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے پر بطور یادگار سعودی عرب نے اپنا بیس ریال کا جو نیا کرنسی نوٹ جاری کیا تھا اس میں بھی پورے خطہ کشمیر کو بھارت اور پاکستان سے الگ رکھا گیا ہے۔ بھارت نے اس پر بھی سخت اعتراض کیا تھا۔