عورت مارچ ۔۔۔۔۔ یا عورت کی تذلیل کا دن

Women March

Women March

تحریر : نسیم الحق زاہدی

گزشتہ دنوں سے سوشل میڈیا پر رائٹر خلیل الرحمن قمر اور نام نہاد آزادی نسواں کی حامی اور مغربی تہذیب کی دلدادہ ماروی سرمد کے مابین عورت مارچ کے حوالے سے متنازع بحث کا چرچا ہے ۔ ڈرامہ مصنف نے تو ان کو کھڑی کھڑی سنا دیں کیونکہ ٹی وی پروگرام میں شریک ماروی سرمد کا شمار ان مادر پدر آزاد عورتوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ” میرا جسم میری مرضی ” کا شرمناک نعرہ لگایا ۔ یہ وہ عورتیں جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی سروکار نہیں اور پردہ کو وہ بوجھ سمجھتی ہیں ۔ نکاح ، شادی بیاہ و ایک مرد سرے وفاداری کو وہ دقیا نوسی خیال کرتی ہیں۔ دراصل پچھلے چند سالوں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام دشمن قوتوں کے ایجنڈے پر ہے اور انہوں نے ملک سے اسلامی تشخص چھیننے کیلئے مسلسل سر گرم ہیں۔

سکول و کالج کے طلباء و طالبات ان کا آسان ٹارگٹ ہیں اور نجی تعلیمی اداروں پر ان این جی اوز کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے جو ہمارے لئے لمحہء فکریہ ہے ۔ نیوز چینل اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکروں میں رہتے ہیں دوسری جانب پیمرا کی نیند تب ٹوٹتی ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے ۔کوئی ضوابط اور کوئی ایسا لائحہ عمل تشکیل نہیں دیا جا سکا جو سڑکوں ، چوکوں پر حقوق کی آڑ میں اسلام کی طے کردہ سماجی و معاشرتی اور اٰخلاقی حدود و قیود کو پھلانگنے والی عورتوں کو بے لگام نہ ہونے دیں وہ پاکستان میں ایسی آزادی مانگ رہی ہے جو ہماری اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

اسلام واحد دین ہے جس نے عورت کو ذلت وپستی سے نکال کر اسے شرف انسانیت بخشا جبکہ اسلام سے پہلے دیگر مذاہب میں عورت کو ذلت، رسوائی وتحقیر کی علامت سمجھا جاتا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی تو آپ ۖ نے سب سے پہلے عورت کے اصلاح کی جانب خاص توجہ مبذول فرمائی اور عورت کو دنیا کے سامنے ایک مثالی نمونہ بناکر پیش کرکے معاشرے میں اعلیٰ مقام عطا کیا۔ انہیں امّہات المومنین، صحابیات جیسے خطابات سے نوازا خصوصاً عورت کو ماں کا درجہ دے کرکہ اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی واضح طور پر ذکر فرمایا !اور مردوں کے برابر عورتوں کے مساوی حقوق ارشاد فرمایا۔ جیسے تمہاری اولاد کے بارے میں کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے، جبکہ ظہور اسلام سے قبل عورت کا وراثت میں کوئی حصہ نہ تھا۔

آج بھی دیگر مذاہب میں عورت کا وراثت میں حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم آئے دن اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ فلاں عورت جہیز کی بھینٹ چڑھا کر نذر آتش کر دی گئی۔اسی طرح اسلام سے پہلے شادی و طلاق کا کوئی ضابطہ نہ تھا۔ اس لئے معاشرے میں انتشار و بگاڑ پیدا ہو گیا تھا۔ اس لئے اسلام میں ایک مرد کو صرف چار شادیوں کی اجازت دی قرآن کریم میں واضح طور پر فرمایاکہ اگر سب کے ساتھ مساوات نہ برت سکو تو ایک سے زیادہ شادی مت کرو۔ اسی طرح شوہر کے مرنے کے بعدبیواؤں کو دوسرا نکاح کرنے کی اجازت دی گئی۔ شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی کی مرضی کو محفوظ رکھا گیا۔ عورت کو اپنی مرضی سے خلع لینے کی اجازت دی گئی۔اسلام میں ہر بالغ مرد پراس کی عورت کا مہر واجب کردیا گیا۔ اگرچہ عورت کو پردے کا حکم دیا گیا، وہیں وقت ضرورت پردے کے ساتھ گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی۔ جہاں عورت پر مرد کے حقوق ہیں اسی طرح مرد پر بھی عورت کے حقوق ہیں جیسے مرد جو کھائے ، عورت کو بھی ویسا ہی کھلائے۔ مرد جو پہنے ویسے ہی عورت کو بھی پہنائے۔عورت کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ اس کی تمام ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی۔ جس طرح مرد گھر کا حاکم ہے اسی طرح عورت بھی اپنے گھر کی ملکہ ہے۔

گھر میں جو عزت مرد کو حاصل ہے، وہی حیثیت عورت کو بھی حاصل ہے۔تعلیم کے سلسلے میں حدیث شریف ہے کہ دینی تعلیم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے یعنی دونوں کو یکساں فرض قرار دیاگیا۔ اسی طرح نیک سیرت عورت جس کا شوہر اس سے راضی ہو، اور اس نے اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا اور گھر کو جنت کا نمونہ بنایا، اسے جنت کی بشارت دی گئی۔غرض یہ کہ عزت و شرف صرف اسلام ہی میں عورت کو حاصل ہے اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس سے عورت کو پستی سے نکال کر بلندی پر پہنچایا۔ مگر افسوس عورت آج اپنے اسلام کو بھلا کر مغربی تہذیب کو اپنا کر بلندی سے پستی کی جانب رواں دواں ہے۔مغربی معاشرہ پنے آپ کو ماڈرن تہذیب کا علمبردار کہلاتے ہوئے عورت کی آزادی کا نعرہ بلند کرتا ہے مگر جب ہم مغربی معاشرے میں عورت کی حیثیت اور اس کے حقوق کا جائزہ لیں تو انتہائی مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے۔ عورت کو مغربی معاشرے میں اذیتیں دی جاتی ہیں اور مردوں کے ظلم کا شکار رہتی ہے۔

عورت کو نائلٹ کلبز اور شراب خانوں میں برہنہ نچوایا جاتا ہے تے ہیں جہاں فحاشہ بننے پر داد ملتی ہے ، شادی کے بجائے گرل فرینڈ بنا کر ہوس پوری کی جاتی ہے اور عمر رسیدہ ہونے پر دھکے دیکر مرنے کیلئے اولڈ ہوم چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ یہ ہے وہ حقوق نسواں کے علمبردار ترقی یافتہ ، مہذب مغربی معاشرے میں عورت کی آزادی کا سفر جس کا اختتام نہات بھیانک ہے ۔اس سب کے باوجود ان شورو غوغا مچانے والی عورتوں کو اعتراض ہے کہ اسلام نے ا نہیں حقوق نہیں دیے، اپنی مرضی سے جینے کا حق نہیں دیا ۔ایک مسلمان عورت کواللہ تعالیٰ نے عزت دی ہے، اسلام نے تمہارے جسم کو بھی تحفظ دیا ہے کہ ایک مسلمان عورت کو ہر مرد نہیں چھو سکتا۔عورتوں کے حقوق کی عالمی تنظیم کے مطابق یورپ میں عورتوں کی نسبت جانوروں سے زیادہ اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی کتے کو سڑک پر کسی نے زخمی کر دیا وہ اس کی رپورٹ درج کروائے گا، لیکن اگر کوئی مرد اپنی عورت کو سرعام سڑک پر مارے تو اس کے لئے کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا گویا مغربی معاشرے میں ایک جانور اور کتے کی حیثیت عورت کی حیثیت سے زیادہ ہے۔

Naseem Ul Haq Zahidi

Naseem Ul Haq Zahidi

تحریر : نسیم الحق زاہدی
۔