خواتین کے حقوق گولی یا گالی

Women Rights

Women Rights

تحریر: روہیل اکبر

خواتین کو اسلام نے جتنی عزت دی اتنی شائد کہیں نہ ہو مگر ہمارے نام نہاد ملا،مولوی اور مفاد پرست عناصر نے اسلام کے نام پر خواتین کے حقوق نہ صرف غضب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے بلکہ انکے پیروکار خواتین کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہوئے بے دردی سے قتل بھی کردیتے ہیں جہاں بھی بہادر خواتین اپنے حقوق کی بات کرینگی وہیں پر انہیں خاموش کروادیا جاتا ہے گولی سے یا گالی سے ابھی چند ہفتے قبل مالا کنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والی شیبا گل ہر طرف سے مایوس ہوکر پشاور پریس کلب میں انصاف کے حصول کے لیے آئی تو پھر اس کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہمارے معاشرے میں ایک مظلوم اور مجبور خاتون کے ساتھ ہوتا ہے نہ صرف اسے بلکہ اسکے باپ کو بھی قتل کردیا گیا۔

خاص کر ہمارے قبائلی علاقہ جات میں خواتین کو جب جائیداد میں سے حصہ دینے کا معاملہ درپیش ہوتا ہے تو اس وقت ان مظلوم خواتین پر کاروکاری جیسے گھٹیا الزام لگا کر موت کے منہ میں دھکیل دیا جاتا ہے ہر گرو اور فرقے کے اپنے اپنے مفادات ہیں کوئی مذہب کی آڑ میں کھیل رہا ہے تو کوئی اپنے باپ دادا کی بنائی ہوئی رسم رواج کا قیدی ہے مقصد صرف دوسروں کے حقوق غضب کرنے کا ہے خواہ اس کے لیے کوئی بھی راستہ اختیار کرنا پڑے اور پھر جسکا جب دل چاہا مذہب کی آڑ لیکردوسرے کو واجب القتل قرار دینا بھی معمولی سی بات بن جاتی ہے سیالکوٹ کاتازہ تازہ واقعہ بھی ہمارے سامنے ہے ایسے افراد کا اسلام سے کوئی تعلق ہے نہ ہی انسانیت سے یہ صرف وہ مفاد پرست ہیں جو موقعہ کی تاڑ میں رہتے ہیں اور پھر جیسے ہی وہ موقعہ انہیں ملتا ہے تو پھر یہ بنکوں کے باہر پڑی ہوئی اے ٹی ایم مشینیں تک اکھاڑ کر لے جاتے ہیں اسلام چونکہ امن،محبت اور بھائی چارے کا دین ہے جس کے آتے ہی خواتین کو مساوی حقوق دیے گئے زندہ درگور ہونے والی بچیوں کو ایک مقام دیا گیااور ماں کے قدموں تلے جنت بچھا دی گئی اور ہمیں حکم ہوا کہ عورت کو دیکھ کر اپنی نگاہ نیچی رکھی جائے عزت ہم نے عورت کو دینی ہے۔

اگر ہم اندر سے ہی بدنیت ہیں تو پھرعورت اگر سات پرپردوں میں بھی ہمارے سامنے آئے گی تو ہم اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھیں گے اگر ہماری نیت ٹھیک ہو گی تو پھر بغیر پردے کے بھی اس خاتون میں اپنی ماں،بہن یا بیٹی کی شکل نظر آئے گی ابھی آپ افغانستان کے حالات کا بھی مشاہدہ کریں کہ وہاں پر اسلام کے نام پر خواتین کے ساتھ کیا کیا جارہا ہے ایسے لگتا ہے کہ ورت نہیں بھیڑ بکریاں ہیں جنہیں وہ اپنی مرضی سے ہانکتے ہیں سکولوں اور کالجوں میں ایک خوف کی فضا ہے بچیاں تعلیم حاصل نہیں کرسکتی اورنہ ہی اپنی مرضی سے کہیں آ جاسکتی ہیں۔

پردہ ایسا سخت کہ انکا چلنا بھی مشکل بن جاتا ہے اللہ تعالی قران مجید میں فرماتے ہیں کہ (ترجمہ)اے نبی! اپنی بیبیوں،اپنی بیٹیوں اور مؤمنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکایا کریں تاکہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں تکلیف نہ دی جائے بیشک اللہ بخشنے والا رحم والا ہے۔(الاحزاب:58، 59)۔ایک اور جگہ (سورہ نور:30، 31) اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ(ترجمہ)مومنوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کیلئے زیادہ پاکیزگی ہے اور اللہ جانتا ہے جو وہ اپنی طرف سے گھڑتے ہیں اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کسی کے سامنے نہ دکھائیں مگر جو ان میں سے ظاہر ہو جائے اور اپنی چادروں کو اپنے سینوں پر ڈالیں اور اپنی زینت کو نہیں دکھائیں مگر اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپ کے سامنے یا شوہروں کے باپ کے سامنے یا بیٹوں کے سامنے یا شوہروں کے بیٹوں کے سامنے یا بھائیوں کے سامنے یا بھتیجوں کے سامنے یا بھانجوں کے سامنے یا اپنی عورتوں کے سامنے یا جن کے مالک ان کے معاہدے ہوں یا ان تابع مردوں کے سامنے جن میں رغبت نہ ہو یا ان بچوں کے سامنے جو عورتوں کے پوشیدہ رازوں سے واقف نہیں اور اپنے پیر نہ پٹخیں تاکہ چھپی ہوئی زینت کا پتہ چلے اور اللہ کی طرف سب توبہ کرو الے مومنو! ہوسکتا ہے کامیاب ہو جاؤ۔

جب طالبان کے روایتی پردے کا تصور اجاگر ہوتا ہے تو ان آیات پر عمل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے سلئے کہ نظروں کی حفاظت کا ماحول نہیں ہوتا اللہ نے مسلمان عورتوں کو اپنی زینت چھپانے کا حکم دیا ہے عورت کی زینت کو اردو میں ”حسن النساء”کہتے ہیں یعنی عورتوں کی اضافی چیز حسن النساء ہے یہی ان کی زینت ہے عورت اپنے شوہر اور اپنے محرموں کے سامنے دوپٹہ نہ بھی لیں تو قرآن نے اجازت دی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمان عورتوں کی اکثریت اسلام کے فطری حکم پر عمل کرتی ہے۔ دورنبوی میں عورتیں رفع حاجت، لکڑیاں لینے، پانی بھرنے، پنج وقتہ نماز، اقرباء کے ہاں جاتیں،طواف، حج وعمرہ، مجاہدین کی خدمت کرتی تھیں۔ مدارس،،دفاتر، کالج ویونیورسٹیوں کا وجود نہ تھا لیکن جس معاشرے کا زمانہ تھا تو مرد کے شانہ بشانہ عورت کی سرگرمیاں تھیں غلام اور لونڈی کا وجود تھا لونڈیوں کا لباس بہت مختصر ہوتا تھااگر ہم قرآن اور نبیﷺ کی سیرت پر چلنا شروع کردینگے تو یقینا کامیابی ہمارے قدم چومے گی اور کامیاب نظام بنانے میں دیر نہیں لگے گی اگر دیکھا جائے تو اس وقت پنجاب میں دیگر صوبوں کی نسبت خواتین حقوق پر سب سے زیادہ عمل ہورہا ہے خاص کر وزیراعلی سردار عثمان بزدار خواتین کے حقوق پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں اور اسی مقصد کے لیے انہوں نے سابق رکن پنجاب اسمبلی نبیلہ حاکم کو صوبائی محتسب تعینات کررکھا ہے جو خود خواتین حقوق کی بہت بڑی علمبردار ہیں جن کی وجہ سے پنجاب میں خواتین کو ہراسا کرنے کا عمل بھی کسی حد تک رکا ہوا ہے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر