عورتوں کے حقوق

Women's Rights

Women’s Rights

تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری

اسلام وہ واحد دین متین ہے جس نے خواتین کو حقوق کو اولین ترجیح کے طورپر تسلیم کرتے ہوئے ہمہ جہتی بنیادی حقوق کی ضمانت بھی دی ہے۔بہت سی تنظیمیں عورت کے حقوق پر کام کررہی ہیں۔ان تنظیموں کے کام میں بنیادی خامی یہ واقع ہورہی ہے کہ وہ عورت کو اس کا جائز حق و مقام دلوانے کی بجائے اس کو مردوں کو برابر کھڑاکرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ تنظیمیں صرف طاقتور و مالدار خواتین کے حقوق کی بحالی کی جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں۔صحرائوں اور بیابان دیھاتوں میں بسنے والی خواتین کے حقوق کے تحفظ کی کوشش و سعی تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتی۔ حقوق خواتین پر کام کرنے والی تنظیموں کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ عورت کو ہر مقام پر مردوں کے برابر بٹھادیں۔ اگر ایسا ہوبھی جائے تو کیسے ممکن ہے کہ دیہی علاقوں کی خواتین کی احساس محرومیوں کا خاتمہ ہوجائیگا۔ عورت کو معاشرہ میں برابر مقام دینے کی کوشش بہت دیر سے شروع ہوئی ہے۔ ہم تو ان خواتین کی بات کرتے ہیں جو دوردراز علاقوں میں روکھی سوکھی کھاکر زندگی بسر کرتی ہیں اور ان کو معاشرہ میں ان کا مناسب و جائز مقام بھی نہیں دیاجاتاجیساکہ یہ مشہور ہے کہ عورت اپنے گھر سے دو صورتوں میں ہی نکلتی ہے ایک باپ کے گھر سے بیاہ کراور دوسرا خاوند کے گھر سے اس کا جنازہ نکلتاہے۔یہ کس قدر بھونڈا مذاق ہے اور کس طرح عورت پر ظلم کیا جاتاہے۔

ہمم دیکھتے ہیں کہ این جی اوز یا حقوق خواتین پر کام کرنے والی تنظیمیں پردہ کو مسئلہ پر بڑا لے دے کرتی نظر آتی ہیں اور وہ اس پابندی سے پوری قوت کے ساتھ نجات کا تقاضا کرتی نظرآتی ہے۔ یہاں ہم مبنی براعتدال یہ بات ضرور پیش کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت سے چہرہ کا پردہ طلب نہیں کیا۔ہم متشدد اقوال کو اختیار نہیں کرتے بلکہ ہم اس بات کو بیان کرتے ہیں جس کو بعض فقہاء نے اختیار کیاکہ عورت کا چہرہ،اس کے ہاتھ اور اس کی آواز کا پردہ نہیں ہے۔ بلکہ ان تین امور سے متعلق اختیار کیا جانے والامئوقف شدت پسندی پر مبنی ہے۔البتہ اسی طرح ہم عورت کی مادر پدر آزادی کو بھی جائز تسلیم نہیں کرتے جس کا راگ موجودہ دور میں عورت کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں الاپ رہی ہیں۔

بہت بڑی سازشیں برپاکی جاتی ہیں عورت کے حقوق کے نام پر اور ان تمام تر انقلابی باتوں کا مقصد اس کے ماسوا کچھ بھی نہیں کہ وہ دنیا کے سامنے عورت کو ایک چیز بناکر پیش کریں یا پھر عورت کو کام کرنے کی اجازت دلوائیں اور عورت کو عریاں لباسی کی فضا ہوار کرالیں ۔لیکن جن امور کی انجام دہی ضروری ہے اس پر ان کی قصداً توجہ ہی نہیں مبذول ہوتی۔ وہ یہ کہ دیہاتوں میں عورت کی شادی مسائل، عورت کو وراثت میں اس کا حق دلانے، اس کی جائز معاملات میں حمایت و تائید،لالچی لوگوں سے اس کی حفاظت کا اہتمام کرنا، قانون کی ایسی عملداری کہ جس سے محروم شدہ حقوق کا حصول اس کے لیے ممکن ہوجائے،تعلیم کے حصول کے مواقع پیدا کرنا اور اس کو دنیاکی نظروں میں عزت و عظمت کا مینارہ بنانا شامل ہو۔اگر عورتوں کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہے تو لازمی بات ہے کہ ان کی اکثریت تعلیم یافتہ ہوتاکہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد بآسانی کرسکیں اور کوئی بھی ان کے حقوق پر شب خون نہ مارنے پائے۔چاہے وہ ظلم باپ، بھائی،خاوند اور چچاکی طرف سے ہی کیوں نہ ہو اس سلسلہ میں اہم ترین مشکل مسئلہ وراثت کی تقسیم کا ہے جس کی ادائیگی میں پس و پیش سے کام لیا جاتاہے۔

معاشرے میں ایسے بھی طبقے اور گروہ موجود ہیں جو عورت کی جبری شادی کراتے ہیں ،عورت کو فروخت کرتے ہیں تاکہ اس سے انکا گزربسر ہوسکے ،کھلی بات ہے کہ یہ دونوں امور انسان کی شرافت و عدالت اور عزت و عظمت کے ناصرف خلاف ہے بلکہ اسلامی تعلیمات سے روگردانی کا موجب بھی۔ہمیں غور سے دیکھنا ہوگا کہ ملک کے طول عرض کے دیہاتوں میں عورت کا استحصال کس قدر ظلم کے ساتھ جاری ہے جب کہ احناف نے عورت کو عہدہ دینے کی اجازت دیی ہے مگر آج اکیسویں صدی میں عورت کے ساتھ کیسا بھیانک سلوک روارکھا جارہاہے۔امام ابوحنیفہ اور ان کے مذہب میں ترقی و برتری حاصل کرنے کی اجازت مردو خواتین دونوں کے لیے یکساں ہے اور ان کی اس ترقی یافتہ سوچ کو سات صدیوں سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔

عورت کے حقوق پر کام کرنے والوں کے لیے جدوجہد کا میدان بہت وسیع اور کشادہ ہے جس کے بعد عورت کی حفاظت اور اس کے حقوق کی حفاظت ممکن ہوسکے گی۔ ایک گائوں کی لڑکی نے امتحانات میں اچھے نمبر حاصل کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا اپنی آنکھوں میں خواب سجایا اور وہ علم طب(میڈیکل)کے شعبہ میں مزید تعلیم حاصل کرنے لگی۔جب وہ چوتھے سال کی تعلیم مکمل کررہی تھی تو اس کے باپ نے اس کا نکاح اپنے بھتیجے سے صرف اس لیے کردیا کہ کہیں لڑکی پڑھ لکھ کر کسی ڈاکٹر کے ساتھ شادی کے لیے آمادہ نہ ہوجائے کیونکہ اس طرح ان کی وراثت دوسرے خاندان میں منتقل ہوجائیگی۔اس وجہ سے اس لڑکی نے ناراضگی و ندامت سے کے ساتھ اس ظالمانہ فیصلہ کو قبول کیادرانحالیکہ وہ اپنے کزن کو پسند بھی نہیں کرتی تھی۔

اس طرح کی بے شمار مثالیں معاشرے میں آئے روز پیش آتی رہتی ہیں۔ ہم ایسا قانون چاہتے ہیں جو اس طرح کی عورتوں کی حفاظت کا ضامن ہوجائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ بھی اپنی ذمہ داریوں سے شناساہوجائے کہ جو اللہ تعالیٰ نے عورت کو حقوق عطاکیے ہیں ان کی حفاظت کو یقینی بنائیں اور ان کوتعلیم حاصل کرنے کی آزادی دی جانی چاہیے۔کیا ہم سنتے ہیں کہ معاشرے میںبرپا ہوتی تبدیلی عورت کے پیدائش سے وفات تک کے حقوقکو محفوظ بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے؟اسلام ازل سے ابدتک متجدد اور ترقی یافتہ دین ہے البتہ اکثر لوگ اس سے ناآشنا ہیں۔لہذا ایسے میں ضروری ہے کہ علماء کرام اور معاشرے کے تمام مقتدر حلقے عوام الناس میں خواتین کے حقوق کا تحفظ فراہم کرانے کی شعوری مہم چلائی جائے تاکہ مسلم معاشرے سے اس قبیح رسم کا سدباب ہو سکے۔

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری