حقوق نسواں اور پانچ عورتیں

Women's Rights

Women’s Rights

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا

عورت کے حقوق کے حوالے سے ہم غلط فہمیوں کا شکار ہیں ۔سادہ لوح عورتوں کو حقوق کے نام سے ورغلایا جارہا ہے ۔ اگر ہم حقیقت کا سامنا کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو یہ بات تسلیم کرنے میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں ہوتی کہ عورت کے جتنے حقوق ” دنیا اور آخرت ” میں کامیابی عزت و احترام کے لیے ضروری تھے وہ سب اللہ پاک کے پیارے نبی کریم ۖ نے آج سے ساڑھے چودہ سوسال قبل عطاء کر دئیے تھے۔ عورت کے مختلف کردار ہیں ماں بیٹی بیوی اور بہن ۔عورتوں کے حقوق مانگنے والوں کو تاریخ اسلام میں چار عورتوں کی فضیلت بیان کر کے اللہ پاک نے قیامت تک بنی انسانیت کی رہنمائی فرمادی جیسا کہ ۔۔۔۔۔ ”عورتوں میں بہترین عورتیں پانچ ہیں، حضرت مریم بنت عمران علیھماالسلام، (ام المومنین) حضرت خدیجة الکبریٰ علیھا السلام،حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا اور فرعون کی بیوی آسیہ علیہاالسلام”۔ان کو یہ اعلیٰ مرتبہ و مقام حاصل ہونے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہوئے اور اس مقام سے سرفراز فرمایا جو کسی اور کو نصیب نہ ہوا، وہ کردار کیا ہے؟

ایک ماں کا کردار حضرت مریم بنت عمران علیھا السلام ایک عظیم بیوی کا کردار حضرت خدیجہ الکبریٰ علیھا السلام
ایک عظیم بیٹی کا کردار حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا ایک عظیم عورت کا کردار حضرت آسیہ علیہا السلام اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام

حضرت مریم بنت عمران علیھما السلام:
حضرت مریم علیھا السلام کو بہترین عورت قرار دیا گیا، اس میں کونسا راز اور حکمت تھی جس کی وجہ سے ان کو یہ مقام ملا؟ اگر ہم حضرت مریم علیھا السلام کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ عورت ہو کر اللہ کی بہت بڑی ولیہ کاملہ، شاکرہ اور صابرہ تھیں۔ اللہ کی ذات پر اول و آخر اعتماد رکھتی تھیں۔ انہوں نے اللہ کی رضا کے لئے خاندان کے طعنوں کو صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ وہ ایک ایسے عظیم بیٹے کی ماں بننے والی تھیں جو اللہ کا نبی اور رسول تھا۔ وہ بہت پاکدامن اور پاکباز تھیں کہ جن کی پاکیزگی کی شہادت اللہ نے خود اپنے شیر خوار نبی کی زبان سے پنگھوڑے میں دلوائی۔یہ وہ صفات تھیں جن کی وجہ سے سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ مقام عطا فرمایا کہ عورتوں میں آپ کو منتخب فرمایا اور اس کا ذکر اپنی ابدی کتاب میں یوں فرمایا:

”اور جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بیشک اللہ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور تمہیں آج سارے جہان کی عورتوں پر برگزیدہ کر دیا ہے”۔ (آل عمران، 3: 42)

جو کوئی اپنے آپ کو اپنے خدا کے سپرد کردیتا ہے، اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے دین کی سربلندی کے لئے وقف کردیتا ہے، تو اللہ اس کو وہ مقام عطا کردیتا ہے کہ وہ جس جگہ رہتا ہے اللہ اس کو متبرک کردیتا ہے اور دوسروں کی دعاُوں کی قبولیت کی جگہ بنا دیتا ہے، کیونکہ حضرت مریم علیھاالسلام کی والدہ نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ مولا مجھے جو اولاد (لڑکا یا لڑکی) عطا کرے گا اس کو میں تیرے لئے وقف کر دوں گی۔ یہ ہے وہ ماں کا کردار جس نے عظیم ہستی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جنم دیا، اور آج بھی ضرورت ہے کہ جو ماں چاہتی ہے اپنی اولادوں کو عظیم بنائے وہ اللہ کی محبت کو اپنے من میں پیدا کرے، اپنے آپ کو اس کے دین کی سربلندی کے لئے وقف کردے، دین کی دعوت کے فروغ کے لئے گھر سے باہر نکلنے پر عار محسوس نہ کرے، تو پھر آج کے دور میں عظیم انقلابی جوان پیدا ہو سکتے ہیں۔

حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا:
اسلا م کا آغاز حضرت خدیجہ الکبریٰ علیھما السلام کی لازوال اور بے مثل قربانیوں سے ہوتا ہے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا مکہ کی بہت بڑی تاجرہ تھیں۔نیک سیرت اور بہترین نسب و شرف کی مالکہ، مگر جب ایک مثالی بیوی کے روپ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد زوجیت میں آئیں تو انہوں نے اپنا وقت اور اپنا سارا مال و دولت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں دین اسلام کی خدمت کے لئے وقف کردیا، وہ اعلانِ نبوت سے پہلے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و بلندمرتبہ کی قائل ہو گئی تھیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو نہ صرف زوجیّت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم شرف حاصل ہوا، بلکہ امّ المو?منین ہونے کے ساتھ ساتھ خیر النساء کے عظیم لقب سے بھی سرفراز ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے، گویا ایک عظیم بیوی کاکردار اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ دین کی جدوجہد کرنے والے اپنے شوہروں کا ساتھ دیں۔ یہاں تک کہ وقت آنے پر اپنا مال و دولت بھی دین کی سربلندی کے لئے خرچ کردیں۔ تب اللہ کی طرف سے خوشخبریاں ملتی ہیں۔

سیدہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا:
آپ ایک عظیم اور ہمہ گیر کردار کی مالکہ ہیں جو ایک بیٹی کے روپ میں، ایک ماں کی شکل میں اور ایک بیوی کے کردار میں قیامت تک آنے والی ماوں، بہنوں اور بیٹیوں کے لئے نمونہ حیات ہے جس کو آج کے دورِ جدید میں آئیڈیل بنانے کی ضرورت ہے۔ آج کا معاشرہ اور جدید تہذیب اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک خیر النساء العالمین سیدہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہاکی سیرت طیبہ سے اپنے آپ کو رنگ نہ لے اور حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکے نقش قدم پر نہ چلیں۔ آپ کو اگر بیٹی کے روپ میں دیکھو تو اپنے بابا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کرتی نظر آتی ہیں، اگر بیوی کے روپ میں دیکھو تو اطاعت شعاری کے ساتھ اپنے خاوند حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ شیر خدا کی خدمت کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز بھی نظر آتی ہیں۔ ماں کے روپ میں دیکھو تو ایسے عظیم تربیت یافتہ دو شہزادے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما تیار کئے کہ جنہوں نے دین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ کو اپنے مقدس لہو سے روشن کر دیا۔ آج کی تہذیب میں ایک عورت کو اپنی حیثیت کا اندازہ حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی سیرت کی روشنی میں کرنا ہوگا۔

حضرت آسیہ زوجہ فرعون:
حضرت آسیہ زوجہ فرعون کونسا کردار، عمل اور فعل ایسا تھا کہ جس نے اس خاتون کو جو ایک کافر و جابر اور ظالم بادشاہ کی بیوی ہونے کے باوجود وہ عظیم عزت اور مرتبہ سے سرفراز کیا کہ خیر النساء کا لقب عطا ہوا۔ یہ عظیم کردار ایک عورت کو اس کی حیثیت کی راہ دکھلاتا ہے۔ اور ظاہری عیش و عشرت، بنائو سنگھار، شاہانہ زندگی کو اللہ کی رضا کی خاطر، اس کی محبت کے لئے قربان کر دینے کا درس دیتا ہے۔ تو پھر اللہ وہ مقام عطا فرماتا ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کی بیویوں اور بیٹیوں کے ساتھ ملا دیتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے دین کی خاطر دنیا کی ظاہری عیش و عشرت سے کنارہ کش ہو جائے۔

حضرت ہاجرہ علیہا السلام
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فرمانبردار بیوی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی یاد بھی آتی ہے کہ جنہوںنے اللہ تعالیٰ اور اپنے خاوند کے حکم کی تعمیل میں بے آب وگیاہ وادی میں رہنا قبول کرلیا تھا۔پھر جب وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے،پانی کی تلاش میں دیوانہ وار صفا اور مروہ کے درمیان دوڑیں تو اللہ نے ان کی فرمانبرداری اور خلوص کی قدر کرتے ہوئے، ان کے اس عمل کی تقلید قیامت تک کے لیے تمام مردوں پر لازم کردی۔ المختصر یہ اسلام ہی کا کارنامہ ہے کہ حواء کی بیٹی کو عزت و احترام کے قابل تسلیم کیا گیا اور اس کومرد کے برابر حقوق دیے گئے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کی ابتدا ہی عورت کے عظیم الشان کردار سے ہوتی ہے۔
( ماخوز :۔ ماہانہ دخترانِ اسلام جولائی 2017 )

آخر میں اتنا عرض ہے ہر عورت اپنی عزت مقام و مرتبہ چاہتی ہے اگر وہ ماں ہے ؟ بہن ہے؟ بیوی ہے؟ یا بیٹی ہے؟ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز اور حقوق صرف وہ ہی جو اسلام نے دئیے ہیں ۔باقی سب تباہی بربادی ، عیاشی اور دھوکہ کے سوا کچھ نہیں۔

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا