دنیا کے مختلف ممالک میں جنگلاتی آگ بدستور بے قابو

Fire

Fire

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) اس وقت یورپ، امریکا اور شمالی افریقہ کے بعض ملکوں میں جنگلاتی آگ سے شدید جانی و مالی نقصان ہو چکا ہے۔ مختلف بستیوں کو خالی کرایا جا رہا ہے تا کہ انسانوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔

اس وقت امریکا میں کیلیفورنیا کے علاقے میں جنگلاتی آگ سے خوف ہراس پایا جاتا ہے، ایسا ہی صورت حال کا سامنا یورپ میں یونان اور اٹلی کو ہے۔ شمالی افریقہ میں الجزائر میں لگنے والی آگ سے چالیس سے زائد انسان ہلاک ہو چکے ہیں اور روس کے علاقے سائبیریا میں لگی آگ نے بھی قریبی انسانی بستیوں میں پریشانی کی لہر پیدا کر رکھی ہے۔ ترکی بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا کر چکا ہے۔

شمالی افریقی ملک الجزائر کے علاقے کابیلیا میں لگی جنگلاتی آگ سے مرنے والوں کی تعداد بیالس تک پہنچ گئی ہے۔ ان ہلاک شدگان میں پچیس فوجی بھی شامل ہیں جو آگ بجھانے کے عمل میں شریک تھے۔ الجزائر کی وزارتِ دفاع کے مطابق کئی دوسرے فوجی بھی آگ سے شدید جھلس گئے ہیں۔ حکومت نے مزید فوجیوں کو کابیلیا روانہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

کابیلیا کے پہاڑی علاقے میں پھیلی ہوئی آگ سے اٹھنے والے گہرے دھوئیں کو دور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ آگ قریب پچاس جنگلاتی مقامات پر لگی ہوئی ہے۔ کابیلیا کا علاقہ ملکی دارالحکومت سے مشرق میں بحیرہ روم کے کنارے پر واقع ہے۔

الجزائری وزیر داخلہ کامل بلجود نے بتایا ہے کہ آگ پیر نو اگست کو بھڑکی تھی اور انہوں نے اس کی ذمہ داری ایسے افراد پر ڈالی جو مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہیں اور آگ بھڑکانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بلجود نے آگ لگانے والے مجرمانہ ذہنیت کے افراد کے حوالے سے مزید تفصیل مہیا نہیں کی۔

یونانی علاقے پیلوپنیزے میں آگ بھڑکنے سے مزید بیس دیہات کو خالی کروا لیا گیا ہے۔ پیلوپنیزے کا علاقہ قدیمی بستی اولمپیا کے نزدیک ہے۔ اسی اولمپیا کے مقام پر اولمپک گیمز کی شمع روشن کی جاتی ہے۔

اس یورپی ملک میں گزشتہ نو ایام سے آگ لگی ہوئی ہے۔ آگ بجھانے والے محکمے کے درجنوں افراد آگ کو بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یونانی سرزمین پر پانچ سو سے زائد مقامات پر آگ لگی ہوئی ہے۔ بے شمار دیہات جل چکے ہیں اور ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ یونانی حکام کو خشک موسم اور تیز ہوا کا بھی سامنا ہے اور جنگلاتی آگ اس باعث بھی قابو نہیں آ رہی۔

یونان میں لگی آگ کو بجھانے کے لیے دیگر یورپی ممالک بھی شامل ہو چکے ہیں۔ ان ملکوں میں جرمنی، چیک جہمہوریہ، برطانیہ اور فرانس بھی شامل ہیں۔ روس نے بھی آگ بجھانے کے لیے اپنا عملہ یونان بھیج دیا ہے۔

ابھی تک گورتینیا میں لگی آگ بہت شدید اور بے قابو ہے۔ ایک جزیرے ایویا کے ساحلی مقام پیفکی کی جنگلاتی جھاڑیوں میں بھی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ پیفکی میں لگی آگ کو بجھانے کے لیے واٹر بموں کے علاوہ ہیلی کاپٹروں سے بھی پانی پھینکا جا رہا ہے۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا کے علاقے ڈکسی کی جنگلاتی جھاڑیوں میں لگی آگ قریب ایک ماہ سے درختوں اور علاقے کو خاکستر کر رہی ہے۔ مقامی فائر فائٹرز محکمے کے ترجمان ایڈون زونیگیا کا کہنا ہے کہ ابھی بھی کئی مقامات پر آگ شدید ہے۔ اس آگ کی وجہ سے ایک ہزار عمارتین جل چکی ہیں اور ساڑھے پانچ سو مکانات بھی راکھ ہو چکے ہیں۔ اس آگ کی وجہ سے ایک گاؤں گرین وِل پوری طرح جل چکا ہے۔

مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ڈکسی میں لگی آگ سے کم سے کم چودہ ہزار عمارتیں خطرے کا شکار ہیں۔ یہ عمارتیں ڈکسی کی پہاڑیوں میں واقع ہیں۔ فائر بریگیڈز عملے کا کہنا ہے کہ آگ پر قابو پانا ابھی تک بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے کیونکہ تیز ہوا میں کمی اور جلد بارش کا امکان نہیں۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا میں لگی آگ سے جلتے درختوں کے انگارے بکھرے ہوئے ہیں۔ ان انگاروں کے بیچ سے گزرتی اِکا دُکا کاروں کو چلانے والے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔

ڈکسی کے قریبی علاقے میں آگ چودہ جولائی سے بھڑکی ہوئی ہے اور یہ سات سو چھیاسی مربع میل میں پھیلی ہوئی ہے۔ کیلیفورنیا کے کسی ایک علاقے میں لگی یہ سب سے بڑی آگ قرار دی گئی ہے۔

سائبیریا میں آگ
روسی علاقے سائبیریا کے شہر یاکوٹسک کے جنگلاتی علاقے بھی شدید آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ سائبیریا میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ حالیہ موسم گرما میں یاکوٹسک اور گرد و نواح میں ٹمپریچر انتالیس ڈگری سیلسیئس تک پہنچ گیا تھا۔ رواں برس اس علاقے میں گزشتہ ڈیڑھ سو برسوں کی شدید خشک سالی بھی پائی گئی ہے۔ اس وقت لگی آگ کو متاثرہ علاقے میں بحران سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ یاکوٹسک کا علاقہ بحر قطب شمالی کے قرب میں ہے۔

یاکوٹسک میں لگی آگ پر قابو پانے کی کوششوں میں سینکڑوں فائر فائٹرز مصروف ہیں۔ یہ اس خطے میں لگنے والی سب سے بڑی آگ قرار دی گئی ہے۔ ایک درجن سے زائد جنگلاتی علاقوں میں بھڑکی آگ تک رسائی بھی ایک مشکل امر بتایا گیا ہے۔

سائبیریا کے یاکوتیا علاقے کے شہر گورنی کے انتظامی افسر نیکیتا اندریئف کا کہنا ہے کہ آگ بجھانے میں افرادی قوت کی کمی بھی حائل ہے۔ رواں برس لگنے والی مختلف جنگلاتی آگ کی وجہ سے اب تک ساڑھے گیارہ ملین ہیکٹرز علاقہ خاکستر ہو چکا ہے۔

رواں برس اسپین کو بھی شدید گرمی کا سامنا ہے۔ درجہ حرارت چوالیس ڈگری سیلسیئس کو چھونے لگا ہے اور اس باعث حکام جنگلات میں آگ بھڑکنے کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے۔ مختلف علاقوں میں انتظامی ادارے چوکس ہیں۔

رواں برس چھبیس جولائی کو کاتولانیا کے دو جنگلاتی مقامات پر آگ لگی اور اس نے پندرہ سو ہیکٹرز سے زائد رقبے کو جلا ڈالا تھا۔ اس آگ پر قابو پا لیا گیا تھا۔

پرتگالی وزیر اعظم نے عوام کو متنبہ کیا ہے کہ گرم موسم میں جنگلاتی آگ کے خطرے سے آگاہ رہیں اور کسی بھی ہنگامی صورت حال کے لیے تیار رہیں۔ اس وقت پرتگال میں چند مقامات پر ہلکی نوعیت کی جنگلاتی آگ کے لگنے کی اطلاعات ہیں۔

پرتگالی حکومت نے مختلف مقامات پر لگی آگ پر قابو پانے کے لیے بارہ ہزار فائر فائٹرز کو چوکس کر رکھا ہے۔ تین ہزار کے قریب پانی پھینکنے والی بھاری ٹینکر وہیکلز بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ ان کے علاوہ ساٹھ پانی پھینکنے والے ہوائی جہاز بھی تیار ہیں۔

لزبن حکومت کی کوششوں سے پرتگال نے آگ کے پھیلاؤ کو کسی حد تک کنٹرول کر رکھا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سن 2017 میں پرتگال میں جنگلاتی آگ سے ایک سو سے زائد انسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور گزشتہ چار برسوں میں جنگلاتی آگ سے مزید کوئی ہلاک نہیں ہوا ہے۔