عالمی یوم ماحولیات اور ہزارہ کے جنگلات

Hazara Forests

Hazara Forests

اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو عطاکی گئی عظیم ترین نعمتوں میں ایک بہت بڑی اور بنیادی نعمت جنگلات بھی ہیں۔اپنے بندوں کے لئے اللہ کی بنائی عالیشان جنت کی نعمتوں میں بھی کثرت سے باغات اور نبانات کا خصوصی ذکر ملتا ہے۔ لمبے اور گھنے سائے والے درختوں، ان کے سائے ا ور ان سے پیدا ہونے طرح طرح کے پھلوں اور میووں کو اللہ نے خود جنت کی اعلیٰ ترین نعمتوں میں بیانکیا ہے۔ کرہ ارضی بھی تو درختوں اور سبزے کی وجہ سے ہی سب سے زیادہ خوبصورت و شاداب ہے۔

انسان ہمیشہ اپنے ارد گرد درختوں اور سبزے کو ہی دیکھنا چاہتا ہے۔ دنیا میں جنگلات سے کہیں بڑھ کرصحرا اور برفانی گلیشئیرز ہیں لیکن کتنے ایسے لوگ ہیں جو تھکن دور کرنے اور سکون حاصل کرنے کے لئے صحرائوں یا گلیشئیرز کا رخ کرتے ہیں ؟لیکن کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ یہی انسان آج انہیں درختوں کا سب سے بڑا دشمن بھی بن کر سامنے آچکا ہے۔جی ہاں!وہی درخت جو اپنے قاتل اسی انسان کی بے شمار ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔اگر ان نباتات کو زمین سے خارج کیاجائے تو انسانی زندگَی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہی جنگلات ہماری غذائی ضروریات میں ‘غلہ ‘پھل ‘پھول اور ادویات کے علاوہ ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والی لکڑی بھیمہیاکرتے ہیں۔ جنگلات ہی جانوروں اور چرندوں کا مسکین ہیں۔علاوہ ازیں حیوانی زندگی کا وجود، انسانوں کی سماجی ‘نفسیاتی اور جمالیاتی زندگی کی تکمیل کے لیے از حد ضروری ہے۔انسانی زندگی کے سفر میں یہی درخت ایک وفادار مخلص اور معاون دوست کی طرح ہر قدم پر موجود ہیں۔یہی درخت جہاں ماحول کی خوبصورتی کا سبب بنتے ہیں، وہیں ہوا کو صاف رکھنے، آندھی اور طوفانوں کا زور کم کرنے، آبی کٹاؤ کو روکنے، آکسیجن میں اضافے اور آب و ہوا کے توازن برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی موجودہ دور کا ایک گمبھیر مسئلہ ہے اور درخت ہی اس پیچیدہ مسئلے کا ایک اچھا اور آسان ترین حل ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق ایک بڑا درخت 36ننھے منے بچوں کو آکسیجن مہیا کرتا ہے جبکہ10بڑے درخت نہ صرف ایک ٹن ائیر کنڈیشنر جتنی ٹھنڈک پیدا کرتے ہیں بلکہ ساتھ ہی فضائی آلودگی اور شور کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گندے نالوں کے دونوں اطراف لگائے جانے والے درختوں کی جڑیں پانی میں موجود گندے مادوں کو جذب کرکے ناگوار بو کم کرتی ہیں، جبکہ اس کے پتے اردگرد کے ماحول کو صاف ہوا مہیا کرتے ہیں۔ماہرین موحولیات ا ور سائنس دانوںکی متفقہ رائے ہے کہ ہر ملک کی خوشحالی، بقا ،ترقی اور آگے بڑھنے کے لئے اس کا 25فیصد حصہ ہر صورت جنگلات پر مشتمل ہونا لازمی ہے لیکن انتہائی دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت دنیا میں رقبے کے لحاظ سے 37واں لیکن آبادی کے لحاظ سے چھٹا نمبر رکھنے والے ہمارے پیارے پاکستان میں جنگلات کا وجود تیزی سے مٹنے کے باعث اب ہمارے جنگلات صرف بمشکل تک4فیصد رہ گئے ہیں۔اس کا خوفناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے ملک میں اب وہ سلسلہ وار بارشیں تقریباََ ختم ہو کر رہ گئی ہیں،جن پر ہمارے زرعی ملک کی زراعت کا سب سے زیادہ دارومدار اور انحصار تھا۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ بھارت ہمارا پانی تیزی سے بند کررہاہے۔ اس کام کے لئے وہ مقبوضہ کشمیر سے آنے والے ہمارے حصے کے دریائوں پر بھی بڑے چھوٹے سینکڑوں ڈیم بنا رہا ہیجن میں سے درجنوں مکمل ہو چکے ہیں۔اسی وجہ سے اب ہمارے دریائوں میں پانی کا بہائو بہت کم ہو گیا ہے ۔

بھارت کی اس آبی جارحیت کو ہر ممکن طریقے سے روکنابہرطور ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پانی کی اس کمیابی ،ماحولیاتی اور ہر سال سیلابوں سے ہونے والی تباہی وبرباد ی میں ہمارا پنا حصہ بھی کسی سے کم نہیں ۔اس ناقابل تلافی نقصان میں جنگلات کی دن رات بربادی ہی بنیا د ہے اور یہ کام ہمارے اپنے اسی ملک کے لوگوں کا ہی کیا دھرا ہے ۔1994میں موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کی ہیحکومت تھی کہ ملک میں ایک خوفنا ک سیلاب نے تباہی مچائی تھی۔اس سیلاب کے محرکات پر جب غور کیا گیا توماہرین کی آراء سے پتہ چلاکہ گزشتہ کچھ عرصہ میں آزاد کشمیر اور ہزار ہ کے جنگلات کو برے طریقے سے کاٹا گیا ہے ،جس کے باعث اب زمین میں بارشوں کاپانی روک کر جمع کرنے کی صلاحیت بہت کم ہو گئی ہے۔اس پر میاں نواز شریف نے انہی دنوںجنگلات کی کٹائی پر مکمل پابندی عائد کرکے جنگلات بڑھانے پر توجہ مرکوز کی لیکن انہیں جلد ہی اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔اس کیبعد آنے والی حکومت کے دور میں یہ پابندی صرف نام کی حد تک ہی رہ گئی اور جنگلات کا تیز تر صفایا پھر شروع ہو گیا۔اس وقت تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ہزارہ کے اضلاع ایبٹ آباد،مانسہرہ ،کوہستان اور تورغر کے انتہائی قیمتی جنگلات کوبے دردی اور تیزی سے صاف کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ کہ کاغذات کی حد تک پابندی بھی عائدہے، لیکن اس کی کسی کو پرواہ نہیں ۔ہزارہ کے ان علاقوں میںپہنچ کر اور دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہپورے علاقے میںاس حوالے سے قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

Hazara Trees

Hazara Trees

راقم کا ہزارہ کے دور دراز علاقوں میں سفر کے دوران بار بار کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جنگل سمگلر چوکیداروں کی معمولی پیسے سے مٹھی گرم کر کے بلا خوف و خطر طاقتور جیپیں اور فور وہیل گاڑیاں لے کر ہر وقت بلند و بالا جنگلوں میں بھی گھسے، ان کے صفائے میں مصروف رہتے ہیں۔وہ یہ لکڑ ی لے کرجب چلنا شروع کرتے ہیں تواس لکڑی کو روکنے کے لئے جگہ جگہ قائم چیک پوسٹوں پر بھی وہ معمولی نذرانہ دے کر بآسانی اپنی منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔ جنگل سمگلر صرف ان چھوٹے اہلکاروں کو ہی نہیں خریدتے بلکہ لگ بھگ سارا محکمہ ہی ان سے اپنا اپنا حصہ بقدر جسہ وصول کرتا ہے۔ہزارہ میں اس سبز سونے کی لوٹ مار کے لئے سڑک کے علاوہ تربیلا جھیل کا بھی استعمال کیا جاتا ہے ،جہاںلکڑی کشتیوں اور لانچوں کے ذریعے پہلے ہری پور اور پھر آگے منتقل کر دی جاتی ہے۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ملک دشمن جنگل سمگلروں کا نشانہ دیودار اور بیاڑ کے قیمتی درخت ہی ہوتے ہیں۔ان درختوں کے جوان ہونے کے لئے ڈیڑھ سو سے دوسو سال کا عرصہ درکا ر ہوتا ہے جنہیں پلک جھپکنے میںیہ”جنگلاتی دہشت گرد”زمین بوس کر کے اپنی جیب میں چار پیسے ٹھونس لیتے ہیں۔مانسہرہ اور ہزارہ کے جنگلات کو دن رات کاٹنے والے جنگل سمگلر اس قدر طاقتور ہیں کہ یہ کسی کی جان لینے سے بھی نہیں چوکتے ۔ان مخالفین ان کی اسی ہیبت سے بھی زبان بند رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ہزارہ کے جنگلات کے یوں تیزی سے کٹنے کا نتیجہ وہاں کے عوام سے ہی پوچھ لیجئے کہ اب ان کے علاقوں کا کیا حال ہو گیا ہے۔ ملک میں سب سے سر سبز و شاداب سمجھا جانے والا علاقہ ہزارہ جسے دنیا ”گرین ہزارہ ” کے نام سے پکارتی تھی ، اب اسی ہزارہ میں سارا سال بہنے والے پانی کے خوبصورت چشمے اور آبشاریں ناپید ہو چکی ہیں اور بہت مشکل سے کہیں خال خال ہی آبی جھرنے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

علاقے کا حسن خوبصورت پرندے ،پھول اور ہریالی جویہاں کی سب سے بڑی پہچان تھی ، جنگلات کے خاتمے اور پھر بارشیں نہ ہونے سے سب تیزی سیختم ہورہا ہے ۔بہت سے علاقوں میں توان قدرتی رعنائیوں کا نام و نشان بھی مٹ چکا ہے۔وہی ہزارہ جہاں سے آنے والے پا نی پورا ملک سیراب ہوتا تھا، اب اس کے اپنے موسم اور بارشوں کے سلسلے بہت حدتک بدل چکے ہیں۔اگر ہزارہ کے ان جنگلات کو فوری طور پر بچانے کی تدبیر نہ کی گئی، تو اللہ نہ کرے، خونی دہشت گردی سے کہیں بہت پہلے ہمیں یہ جنگلاتی اور ماحولیاتی دہشت گردی نہ لے ڈوبے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ آزاد کشمیر کے جنگلات تو بہت حد تک محفوظ ہیں لیکن ہزارہ کے جنگلات کا کوئیپرسان حال نہیں۔اس لئے جناب وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ صوبہ خیبر پرویز خٹک سے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر خاص طور پر گزارش ہے کہ ملک کے بہتر مستقبل اور خوشحالی کے لئے اس سنگین مسئلے کیبھی فوری فکر کیجیے اور ملک و قوم کی خاطر معمولی توجہ کر کے ہزارہ کے تیزی سے مٹتے جنگلات کو بچا لیجئے کہ شاید پھر مہلت نہ ملے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر : علی عمران شاہین