ہمیشہ ہی نہیں رہتے چہرے نقابوں میں

Petroleum Crisis

Petroleum Crisis

تحریر : مسز جمشید خاکوانی

سوشل میڈیا کی دنیا بھی کیا دنیا ہے انسان بچنا بھی چاہتا ہے اور نکل بھی نہیں سکتا اس لیے کہ یہ وہ دنیا ہے جس میں بھانت بھانت کے لوگ اور بھانت بھانت کی بولیاں ہیں یہ اور بات کہ اس میں سب کے چہروں سے نقاب اتر گئے ہیں وہ بھی اس طرح کہ کسی کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی لوگوں کوخفت پڑ گیاہے ایک پیٹرول مہنگاہو تو تمام چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں اس لیے پیٹرول سے ہی شروع کرتے ہیں اب یہ نہ سمجھیں اسی حکومت میں سب برا ہو رہا ہے ھاں یہ سمجھ لیں اس حکومت میں سب سامنے آ رہا ہے پہلے سب کچھ قالین کے نیچے چھپا تھا۔

اب پیٹرولیم کمیشن کی رپورٹ پبلک ہو گئی ہے آپ کو یاد ہو گا 2020 میں پیٹرولیم کا بحران پیدا ہوا تھا تب چیف جسٹس محمد قاسم خان نے از خود نوٹس لیا اور انہوں نے ایک پانچ رکنی کمیٹی بنا دی پیٹرولیم کمیشن نے ایک سو اڑسٹھ صحفات پر مشتمل رپورٹ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو پیش کی رپورٹ کیا تھی ایک نوحہ ہے ہماری بے بسی کا کس طرح یہ گدھ ہمیں نوچ رہے ہیں رپورٹ کے مطابق ” آئل اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی ”2002میں بنی مگر اسیچلانے کے لیئے قوانین نافذ ہوئے 2016میں یعنی چودہ سال ایڈ ہاک عارضی حکم ناموں سے کام چلایا جاتا رہا کمیشن رپورٹ کے مطابق اوگرا قوانین کے تحت کوئی بھی آئل کمپنی زخیرہ بنائے بغیر کام نہیں کر سکتی مگر ہماری پچیس آئل کمپنیوں کے پاس آئل زخیرہ ہی نہیں تیل بحران کی وجہ یہ تھی کہ تیل کمپنیوں نے ہنگامی صورتحال کے لیے بیس دن کا تیل زخیرہ رکھنا تھا جو نہیں رکھا گیا جب تیل کی قیمتیں نیچے آ رہی تھیں تب سب کمپنیاں اسی چکر میں تھیں جب تیل کی قیمتیں زمین پر آ گریں گی تب تیل خریدیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا جب تیل کی قیمتیں اوپر جانے لگیں تو PSO کے علاوہ تمام کمپنیوں نے زخیرہ اندوزی کر کے تیل بحران پیدا کر دیا جو کچھ بھی غلط ہو رہا تھا اسے اوگرا نے روکنا تھا مگر اوگرا کٹھ پتلی بنی رہی وہ سب کچھ وذارت پیٹرولیم پر ڈالتی رہی اور وذارت پیٹرولیم اوگرا پر ڈالتی رہی (یاد رکھیے یہ سب کچھ عمران خان کی حکومت سے پہلے ہو رہا تھا )کمیشن رپورٹ کے مطابق 2002میں یہاں چار آئل کمپنیاں تھیں مگر آج 66آئل کمپنیاں ہیں لیکن مزے کی بات کاغذوں میں سب آئل کمپنیاں خسارے میں ہیں جی ہاں اب یہ خسارے میں چلنے والی کمپنیاں ٹیکس بھی نہیں دے پاتیں ہونگی ظاہر ہے انہں نے یہ کمپنیاں ٹیکس دینے کے لیئے تھوڑی بنائی تھیں۔

اندازہ لگائیی ہم سے سات گنا بڑے ملک بھارت میں صرف سات ،سری لنکا میں تین بنگلہ دیش میں چھ ،جبکہ ہمارے ہاں یہ کاروبار اتنا منافع بخش ہے کہ چھیاسٹھ کمپنیاں مگر سب کی سب خسارے میں ،یہ آئل کمپنیاں ہیں کن کی ؟بلکہ یہ کہا جائے کہ ملک کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا جس کے بڑے کی آئل کمپنی نہ ہو سب محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہیں آئل کمیشن رپورٹ بتائے کہ یہ آئل کمپنیاں ملک کو سالانہ ڈھائی سو ارب کا ٹیکہ لگا رہی ہیں یعنی ان اٹھارہ سال میں اربوں ڈکار کر بھی انہیں بد ہضمی نہیں ہوئی ہمارا ڈی جی آئل ،انجینئریا تیل ایکسپرٹ ہونا چاہیے لیکن ہمارا ڈی جی آئل ایک ڈنگر ڈاکٹر ہے آگے سنیے پیٹرولیم رپورٹ میں ایک ایسے سیکشن افسر کی نشاندہی بھی کی جس کا بس ایک ہی کام ہے کہ آئل کمپنیوں سے رشوت کے پیسے اکھٹے کر کے افسروں میں بانٹے مزید سنیے سندھ کے بادشاہ کی آئل کمپنیوں کی کئی سو ارب روپے کی ہیرا پھیری پکڑی گئی یہ کیس نیب کے پاس آیا پتہ ہے نیب نے یہ کیس کتنے میں چھوڑا ؟ صرف سوا ارب لے کر تیئیس ارب کا جرمانہ صرف سوا ارب میں سو ارب مت سمجھ لینا اس ملک کو کیسے چونا لگایا جاتا ہے۔

اس کی ایک چھوٹی سی مثال دیتی ہوں پندرہ جون کو جہاز ساٹھ ہزار میٹرک ٹن تیل لے کر پورٹ قاسم بندرگاہ کراچی پر آیا اسی دوران پتہ چلا کہ تیل کی قیمتیں بڑھنے والی ہیں جہاز کو ایک سائیڈ پر کر دیا گیا ستائیس جون کو جب تیل بیس روپے لیٹر بڑھا تو اگلے دن پندرہ دن سے سائیڈ پر کھڑا جہاز کاغذوں میں آف لوڈ ہوا پرانی قیمتوں پر آیا ہوا تیل جب نئی قیمتوں پر فروخت ہوا تو اس ایک جہاز سے منافع کمانے والوں نے دو ارب کا اضافی منافع کمایا پریشان نہ ہوں ایسی کاروائیاں آئے روز ڈالی جاتی ر ہیں پیٹرولیم کمیشن رپورٹ بتائے کہ ایک طرف عوام تک تیل کی سپلائی 44فیصد تک کم ہو گئی تھی مگر تیل کمپنیوں نے کاغذوں میں اپنی تیل کی سیل کو زیادہ ظاہر کیا مثلا لاک ڈائون کے سبب جب خیبر پختون خواہ کے ضلع دیر میں سیاحت سمیت سب کام ٹھپ پڑے ہوئے تھے تب کاغذوں میں وہاں پیٹرول کھپت ریکارڈ کی گئی گجرات میں ایک پیٹرول پمپ پر تین ملیئن کی ڈلیوری دکھائی گئی جبکہ وہاں پیٹرولیم زخیرہ کی گنجائش صرف اکتیس ہزار لیٹر ہے۔ کاغذوں میں اس شعبدے بازی کے زریعے کروڑوں کے فائدے اٹھائے گئے۔

پیٹرولیم کمیشن رپورٹ کے مطابق تمام بڑی آئل کمپنیاں اوگرا قوانین کے بر عکس مسلسل زخیرہ اندوزی کر رہی ہیں اوگرہ نے انہیں جتنا زخیرہ کرنے کی آئوٹ لٹس کی اجازت دی ہوئی ہے کئی کے آئوٹ لٹس اس سے کہیں زیادہ ہیں جیسے ایک بڑی آئل کمپنی کو تیل زخیرہ کرنے کے لیے ستر آئوٹ لٹس کی اجازت دی گئی لیکن اس کے پاس 600 آئوٹ لٹس ہیں رپورٹ کے مطابق تیل کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والے آئل ٹینکروں کے پاس Q کیٹگری کا لائسنس ہونا چاہیے مگر ایک بھی آئل ٹینکر کے پاس یہ لا ئسنس نہیں ،168صحفاتی رپورٹ کے یہ چند ٹوٹے ہیں پوری رپورٹ پڑھو دل ٹوٹے ٹوٹے ہو جائے ہر اینٹ کے نیچے سے ایک نئی کرپشن کہانی نکلتی ہے کیونکہ ایک سابقہ لیڈر اسکولوں میں بچوں سے کہتا تھا بچو کرپشن ہوتی ہے یہ کوئی بری بات نہیں اسی سے ملک ترقی کرتے ہیں تو پیارے بچو ملک نہیں البتہ چند لوگ یعنی چند ہزار یا چند لاکھ ضرور ترقی کر گئے ہیں جن کی صورتیں اب بھی سب کو ڈیلی دیکھنی پڑتی ہیں کیوں کہ وہ اس ملک کو لوٹ کر اتنی جائیدادیں اتنا مال بنا چکے ہیں کہ اب اس ملک سے اپنے لیے پروٹوکول اور انصاف خریدنا کوئی مسلہ نہیں رہا سیاں بنے کوتوال تو ڈر کاہے کا ؟

اب یہاں صرف وہی ایماندار رہ گیا ہے جسے موقع نہیں ملا اور شائد یہی موقع حاصل کرنے کے لیے وہ عمران خان کے ساتھ شامل ہو گئے لیکن وہ اتنا نا اہل نکلا کہ نا خود کھایا نہ کسی اپنے پرائے کو کھانے دیا یہی اس کا جرم ہے جو ہر روز یہ تمام مافیا مل کر سوچتا ہے کس طرح اس کا تختہ الٹیں کیسے اس کو نا اہل ،گستاخ،نشئی ،چور ،ڈاکو منافق جھوٹا خائن ثابت کریں کس طرح اس کی گھرستی توڑیں لیکن مسلہ یہ ہے کہ اس کو نہ پیسہ چاہیے نہ اقتدار نہ جان کی پرواہ ہے وہ ہر حال میں اس مافیا سے عوام کو نجات دلانا چاہتا ہے لیکن تمباکو مافیا،شوگر مافیا گدا گر مافیا ڈرگ مافیا ،گندم مافیا ان میں سے کسی کو بھی سزا نہیں ملی کیوں کہ قانون بے بس ہے جب تک قانون میں نون لگا ہے قانون بے بس ہی رہے گا ایک اکیلا عمران کب تک لڑے گا ؟؟؟چینی مہنگی کی دہائی دی جا رہی ہے جو زخیرہ اندوز مہنگی کرنے کا سبب ہیں وہ ساتھ مل کے چور چور کا شور مچا رہے ہیں کوئی پکڑا بھی جائے تو ادالتیں چھوڑ دیتی ہیں بڑے مگر مچھوں نے عدالتوں سے سٹے لے رکھے ہیں تو بتائیے حکومت کیا کرے ؟؟

بس اللہ سے امید ہے کہ اللہ ان کے تعفن ذدہ چہرے نقابوں سے باہر لائے اور ان کے چنگل سے پاکستان کو چھڑائے

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی