ساڑے بیس سال کی محنت رائیگاں گئی !

 NAB

NAB

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید

میرے وطن کی مٹی بڑی زر خیز ہے۔جہاں بے پناہ اہل لوگوں کے ساتھ چند ایسے بے پھل پودے بھی درخت بنتے دیکھے گئے ہیں۔جو مفادِ عامہ کے بھی قابل نہیں ہوتے ہیں۔ اس ملک کے خزانے کی لوٹ کھسوت کیلئے ایک ا یسا شخص اس ملک کو معاشی تباہی پرلے جانے کے لئے ،بے ضمیری نے دھونس و دھاندھلی کے ذریعے سلیکٹ کر کے لا بیٹھایا ہے۔جو اس ملک کو مسلسل کو تباہی کی جانب لے جا رہا ہے۔اس بونے سیاست دان کی آبیاری ساڑھے بیس سال امریکہ کی یہودی لابی اور امریکہ سے تنخواہیں لینے ولے فوج کے قادیانی گروپ نے، اس نا اہل کو تربیت دینے کی بھر پور کوشش تو کی ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایسے نا اہل میں لاکھ جتنوں کے باوجودسیاسی اہلیت پیدا نہ کر سکے۔جس نے پاکستان کی معیشت کو بٹا لگا دیا ہے۔اس کے اے ٹی ایم، چوری، ڈکیتیاں ڈال کر چینیِ آٹا،پیٹرول کو آسمان پر لیجا کر اس کے ساتھ انجوائے بھی کر رہے ہیں جن چوروں کو بھگانا تھا انہیں فرار بھی کرا دیا گیا ہے۔

غضب خدا کا جو چینی ان کے جھوٹے نعروں کے تحت پاکستان لوٹنے والوں نے 55روپے پر اینے دورانئے میں عوام کو دی وہ بھی 100روپے پر ان نا اہلوںاور بونوں نے پہنچا دی ہے ۔جو آٹا 38روپے کلو بکتا تھا اس کو ان ایمانداروں نے 70/60روپے کلو سے بھی زیادہ کر دیاہے۔

پیٹرول کی قیمت کو اس ٹھگ اور سلیکٹیڈحکومت نے آسمان پر پہنچا دیا ہے اور مزید مہنگا کرنے والی ہے۔اس سلیکٹیڈ حکمرانی نے وطن عزیز کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور سلیکٹرز اپنی بد معاشیوں پر دل ہی دل میں خوش ہو رہے ہیں۔افسواسناک بات یہ ہے کہ غریب عوام بے یارو مددگار نانِ شبینہ کے محتاج بنا دیئے گئے ہیںاورحکمران مافیہ مالی فوائد دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہا ہے۔ان بے ضمیروں نے عوام سے داوئیں تک چھین کر اپنی تجوریوں کو بھرنا شروع کی ہوئی ہے۔جو چھٹی مرتہ ادویات کی قیمت بڑھاکر عوام کو موت بانٹ رہا ہے۔جس میں کئی سو فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔اور سلیکٹیڈ میں ہمت نہیں کہ اسے روک سکے اس حکومت نے اپنا کام قانون سازی کے بجائے آرڈیننسوں پر چلانا شروع کیا ہوا ہے اور پاکستان کے دشمن کلبھوشن یادیو کو بچانے پر لگی ہوئی ہے۔ یہاں سلیکٹر کی زبانوں پر بھی تالے پڑے ہوئے ہیں۔

اس وقت ان کا سب سے بڑاآلہ کار نیب اور اس کا سربراہ ہے ۔جواپنی فحش وڈیو کی اشاعت سے خائف ہو کر حزبِ اختلاف کو نچوڑنے پر لگا ہوا ہے اورحکومتی بے ایمانوںاور چوروں ،ڈاکوﺅںکو سیف راستہ دے کر سلیکٹرز کی آشیرواد پر پھولے نہیں سما رہا ہے۔جس نے انسانی حقوق اور آئینِ پاکستان کی دھجیاں اڑائی ہوئی ہیں۔اس کی ان بے ایمانیوں پر عدالتیں چیخ چیخ کر اس کو متنبہ کر رہی ہیں۔جو حکومت مخالفین پر تو الزامات لگا لگا کر بغیر کسی تصدیق کے مہینوں،سالوں قید و بند میں ڈالنے پر تلا ہے۔ مگر حکمران ٹولے پر ہاتھ ڈالنے ہوئے اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔جو سلیکٹیڈ کے مخالفین پربلا ثبوت تاک تاک کے نشانے لگانے پر تلا ہوا ہے ۔اس پر اس قدر لعن طعن کے باجود اس کی ڈھٹائی کایہ عالم ہے کہ نیب کی کرسی سے چمٹا ہوا ہے۔شاعرِ مشرق کہتے ہیں، جس رزق سے آتی ہو پرواز میںکوتاہی، اس رزق کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو
حزبِ اختلاف نے وطن دوستی کے جذبے کے تحت FATFکابل پاس کرادیا تو بے ضمیر احمد فراز کا بیٹا اب بھی اپنے سربراہ کی طرح جھوٹ فریب کا سہارا لے کر اوراس کے ساتھ ایک جعلی پیرزادہ جھوٹ کے پلندے باندھ رہا ہے۔انہیں ذرا بھی اس ملک کے عوام کا درد نہیں ہے۔یہ تمام لٹیرے میرے وطن کی ناموس کے دشمن ہیں۔جن پر یہودیت اورقادیانیت کی چھاپ نمایا ہے۔

سُپریم کورٹ نے خواجہ برادارن کے خلاف پیراگون ہاﺅسنگ کے فیصلے میں اپنی آبزرویشن میں لکھا ہے کہ”بونے اور کوتا قد لوگوں کو سلیکٹ کیا جاتا ہے اُن کی پرورش کی جاتی ہے انہیں پروان چڑھایا جاتا ہے اور پھر انہیں اقتدار میں لایا جاتا ہے۔بد نماں ماضی اور مجرمانہ کرد اررکھنے والوں کو قوم پر مسلط کیا گیا“ مزید یہ بھی لکھا ہے کہ ”عام تاثر یہ کہ نیب کا قانون سیاسی انجنئرنگ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔نیب سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے،سیاسی جماعتوں کو توڑنے مخالفین کا بازو مروڑنے اور انہیں سبق سکھانے کے لئے استعمال ہوا۔جہاں یک طرفہ احتساب ہوتا ہے“عمومی تاثر بھی نیب کے بارے میں یہ ہی ہے کہ یہ سیاسی اور جمہوری قوتوں کو کچلنے کا آلہِ کار ہے۔جس کا مقصد یہ ہے کہ حقیقی جمہوری قوتوں کو پنپنے ہی نہ دیا جائے اور بونوں کے اقتدار کو طوالت بخشی جائے اس سے وطن کا چاہے جتنا بھی نقصان ہوجائے ان کی بلا سے۔نیب بونے حکمرانوں کی لونڈی ہے۔کیونکہ اس کو ایک سلیکٹرز کے ساتھی نے ہی اپنے مخالفین کو دبانے کے لئے بنایا تھا۔سپریم کورٹ کے نیب سے متعلق فیصلے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آج وطن عزیز میں جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں۔سیاسی قوتوں کو مسلسل کمزور کیا جا رہا ہے۔جس کی وجہ سے ملک میں قیادت بحران پیدا ہورہاہے۔ دوسری جانب سلیکٹیڈحکمرانوں کی سانسیں نیب کے سہارے ہی چل رہی ہیں۔ اگر نیب کو چھٹی دیدی گئی تو سلیکٹرز کی بیس سال سے زیادہ کی محنت پر پانی پھر جائے گا۔پھر ان کو اپنے سیاہ چہرے چھپانے کے کےلئے بھی جگہ نہ ملے گی۔

Shabbir Ahmed

Shabbir Ahmed

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید

shabbirahmedkarachi@gmail.co