پانچ سال سے روزانہ ایک مہاجر بچہ ہلاک ہو رہا ہے، اقوام متحدہ

Immigrant Child

Immigrant Child

واشنگٹن (جیوڈیسک) بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین نے مہاجر بچوں کی غیر معمولی ہلاکتوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ زیادہ تر مہاجر بچے بحیرہ روم میں کشتیوں کی غرقابی میں مارے گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق بین الاقوامی ادارے نے جمعہ اٹھائیس جون کو مہاجرت کے دوران ہونے والی ہلاکتوں پر ایک خصوصی رپورٹ جاری کی۔ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (IOM) کی اس خصوصی رپورٹ کا عنوان ‘خوفناک سفر‘ ہے۔

اس رپورٹ میں بالغ اور کم عمر مہاجرین کے موت کی جانب سفر کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سن 2014 سے سن 2018 کے دوران ہلاک ہونے والے مہاجرین کی مجموعی تعداد بتیس ہزار بیان کی گئی ہے۔ ان میں زیادہ تر کی ہلاکت بحیرہ روم میں ناقص کشتیوں کی غرقابی کے دوران ہوئی۔

ان بتیس ہزار افراد میں تقریباً سولہ سو ایسے بچے ہیں، جن کی عمریں اٹھارہ برس سے کم تھیں۔ ان ہلاک شدہ بچوں میں ايک چھ ماہ کا مہاجر بچہ بھی تھا۔ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ باعث افسوس ہے کہ مہاجرت کے عمل میں موت کا آسان ہدف بچے ہوتے ہیں۔

اس رپورٹ میں عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے بتایا ہے کہ سن 2014 سے اوسطاً روزانہ کی بنیاد پر ایک مہاجر بچہ موت کا نوالہ بنتا رہا۔ ایسے زیادہ تر بچوں کی موت بحیرہ روم میں غرقابی کے دوران ہوئی۔ یہ بچے اپنے والدین کی یورپ پہنچنے کی خواہش کے نتیجے میں بحیرہ روم کی شوریدہ سر موجوں کی لپیٹ میں آئے۔

یہ رپورٹ وسطی امریکا کے ایک مہاجر باپ اور اُس کی بیٹی کی ڈوب کر مرنے کے بعد شائع ہونے والی تصویر پر پیدا ہونے والی عالمی بے چینی کے بعد جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کو بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے شعبے گلوبل مائیگریشن ڈیٹا انیلیسز نے مرتب کیا ہے۔

دوسری جانب بین الاقوامی محققین نے اس رپورٹ کے اعداد و شمار کے حوالے سے شکوک کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بیان کیے گئے پانچ برسوں میں مہاجرین اور بچوں کی ہلاکتوں کو کم بیان کیا گیا ہے جب کہ ہلاک شدگان کی اصل تعداد کہيں زیادہ ہے۔

ان ریسرچرز کے مطابق ڈوب کر ہلاک ہونے والے کئی افراد کی نعشیں بھی دستیاب نہیں ہو سکی تھیں۔ اس کے علاوہ مہاجرین کی یہ تعداد بچ جانے والے افراد کے اندازوں پر مبنی ہے۔ اسی طرح ان کا خیال ہے کہ مہاجر بچوں کی ہلاکتوں کا ڈیٹا ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس حوالے سے بھی ایسے بچوں کی عمروں کا تعین نہیں کیا جا سکا اور زیادہ تر معلومات بچ جانے والے افراد کے بیانات پر مبنی ہے۔