برسوں کے بعد کل اپنا خیال سا ہوا

Anwar Jamal Farooqi

Anwar Jamal Farooqi

برسوں کے بعد کل اپنا خیال سا ہوا
پھر دیکھا جو آئینہ تو ملال سا ہوا

برگ آوارہ بھی کئی میری طرح تھے دربدر
تنہا نہں ہوں میں شہر میں یہ احتمال سا ہوا

وہ رو رہا تھا میرے خدو خال دیکھ کر
اور میں بھی ٹوٹ گیا جب وہ نڈھال سا ہوا

کئی رانجھے بک گئے یہاں مٹی کے مول سائیں
کئ فرہاد تھے جن کے تیشہ کو زوال سا ہوا

گو ہم نے کاٹ تولی ہے شب ہجر انور جمال
کیونکر کٹی یہ سوچنا اب محال سا ہوا

شاعر : انور جمال فاروقی