بنگلہ دیش میں ماورائے عدالت ہلاکتوں پر ایمنسٹی کی تشویش

bangladesh strike

bangladesh strike

انسانی حقوق کی ایک عالمی تنظیم نے بنگلہ دیش کی حکومت  پر زور دیا ہے کہ وہ  اپنے حکام کو ماورائے عدالت قتل  اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں سے روکے جو ادارے کے بقول  حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود بدستور جاری ہیں۔بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل’ نے کہا ہے کہ حکومت  کو  اپنے شہریوں کی غیر قانونی  ہلاکتیں روکنے کے لیے اب “ٹھوس اقدامات” اٹھا لینے چاہئیں۔عالمی تنظیم نے اپنے بیان میں بنگلہ دیش کی ‘ریپڈ ایکشن بٹالین (آر اے بی)’ کا بطورِ خاص تذکرہ کیا ہے  جس  پر سینکڑوں افراد کے ماورائے عدالت قتل اور گرفتار شدگان پر تشددکے الزامات ہیں۔بیان میں ایمنسٹی کے بنگلہ دیش کے امورکے محقق عباس فیض کا کہنا ہے کہ  تقریبا ہر ہفتے ہی ‘آر اے بی’ کسی نہ کسی فرد کو گولیوں کا نشانہ بناتی ہے جس کے بعد حکام کی جانب سے یہ بیان سامنے آجاتا ہے کہ متاثرہ فرد  “فائرنگ کے تبادلے” یا  “مسلح جھڑپ” کے نتیجے میں ہلاک یا زخمی ہوگیا ہے۔ عباس فیض کے بقول حکومتی بیانات کے برعکس مذکورہ واقعات پر ماورائے عدالت ہلاکتوں کا شبہ گزرتا ہے۔فیض کے مطابق اس طرح کے واقعات کی تحقیقات بھی غیر جانبدار اور منطقی نہیں ہوتیں کیونکہ  یا تو ان کی ذمہ داری ‘آر اے بی’ کے حکام کو سونپ دی جاتی ہے یا حکومت کی جانب سے نامزد کردہ عدالتی  باڈی یہ کام انجام دیتی ہے جس کے سبب اب تک ایسی کسی تحقیقات کا نتیجہ واقعہ میں ملوث ملزمان کے خلاف عدالتی  کارروائی کی صورت میں برآمد نہیں ہوسکا۔تنظیم کے مطابق ‘آر اے بی’ 2004 میں اپنے قیام کے بعد سے اب تک لگ بھگ 700 افراد کے مبینہ قتل میں ملوث ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ 2009 میں وزیرِا عظم شیخ حسینہ واجد کے اقتدار سنبھالنے اور ماورائے عدالت قتل روکنے کے عزم کے اظہار کے بعد سے اب تک ایسے 200 کیسز رپورٹ کیے جاچکے ہیں۔ایمنسٹی نے بنگلہ دیش کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرنے والے ممالک سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ یا تو بنگلہ دیش کو اسلحہ کی فراہمی بند کردیں یا پھر بنگلہ دیش کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کچھ ذمہ داری قبول کریں۔