آگ ، بارش اور سیلاب

Khurram mesum

Khurram mesum

موسم کی جل تھل میں آنکھیں پل،پل موت کے المناک،دردناک اور اذیت ناک مناظر دیکھ رہی ہیں،مصیبتیں معصوم انسانوں کی جانب باراتیوں کی طرح بڑھ رہی ہیں اور لوگوں کے جنازے دلہن کی طرح سجا کر گھروں سے اٹھائے جا رہے ہیں ۔ہر طرف سوگ کے ستارے چمک رہے ہیں جبکہ غم ،رات کے اندھیرے کی طرح اس دھرتی پہ چھا چکے ہیں اور اس اندھیرے میں آہ و فغاں،سسکیاں اور انسانی چیخیں چار سو گونج رہی ہیں۔

جوان بیٹوںکی میتوں پہ ضیعف مائیں ماتم و نوحہ کناں ہیںہزاروں انسان بے سہارا ہیں اور ہر سہارا لہو،لہو ہے جبکہ اس دھرتی کا ہر نظارا بھی لہو،لہو ہے،اجڑے مکان،سیلاب کے پانیوںمیں ڈوبی بستیاں اور بستیوںکے بے حال لوگوں پہ بارشوں کی بہتات،کرب و اذیت اور قیامت کی ان گھڑیوں میں انسانی آہیںاشکوںکے منجھدار میں مبتلاء ہیں….سیلاب زدہ علاقوں میں غم کے ماروں کے پاس نہ کھانے کا سامان ہے نہ پینے کا پانی،نہ کوئی آسرا ہے نہ کہیں کوئی سایہ،کہیں سیلاب کے ستائے لوگوں کو سانپ ڈس رہے ہیں تو کسی کی بیٹیوں کے جہیز پانیوں میں بہہ نکلے ہیں۔

کسی کے مویشی ڈوب مرے ہیں تو کسی کے بھانجے،بھتیجے اور بیٹے،کہیں بیماریاں پھوٹ رہی ہیں تو کہیں لوگ نقل مکانیاںکرکے محفوظ مقامات پہ جانے میں مصروف ہیں۔ابھی میں ٹی وی پہ سیلاب کے حوالے سے ڈیرہ غازی خان میں پنجاب حکومت کے خلاف زبردست قسم کی نعرہ بازی دیکھ رہا تھا جو دوست محمد کھوسہ کے جانے پہ شروع ہوئی اور دوست محمد کھوسہ کو مار بھگانے پہ ختم ہوئی کیونکہ دوست محمد کھوسہ سیلاب کے اجڑے لوگوں کے پاس جیسے ہی پہنچا انہوں نے اپنی افلاس کا شکوا کرتے ہوئے دھاوا بول دیا کہ اب کیا لینے آئے ہو جب ہمارا سب کچھ لٹ گیا ہے لوگ مشتعل ہوتے گئے اور دوست محمد کھوسہ وہاں سے کھسکنے لگے مگر پھر بھی جاتے جاتے لوگوں نے دوست محمد کھوسہ کی پراڈو پہ پتھرائو جاری رکھا اور اس پتھرائو کو ٹی وی چینلز واضح دکھا رہے تھے کہ اچانک ایک خبر بریکنگ نیوز پہ سنائی گئی کہ بند روڈ لاہور پہ واقع ایک جوتوں کی فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی آگ نے آناََ فاناََپوری فیکٹری کوفتح کر کے26مزدوروں کو موت کی جانب مقلوب کر دیا،یہ مفلس مزدور روزگار کی رکاب پہ سوار ہو کر گھر سے کمانے نکلے تھے مگر انہیں کیا خبر تھی کہ یہ اپنی زندگی کا اخراج اجل کے حوالے کرنے جا رہے ہیںابھی ان مزدوروںکو موت کا مقناطیس اپنی طرف کھینچ ہی رہا تھا کہ دوسری خوفناک خبر ابھری کہ کراچی کے بلدیہ ٹائون میں ایک گارمنٹس فیکٹری کو بھی آتش نے اپنے حصار میں لے لیاہے….اس آتش فشاں نے آفتوں کی ایسی آباد کاری کی کہ سینکڑوں جیتے جاگتے لوگ جل کر دینا سے جدا ہو گئے۔

Karachi fire factory

Karachi fire factory

جیل جیسی اس فیکٹری میں آگ کے روشن شعلے شانہ بشانہ عورتوں،مردوں اور بچوں کی زندگیوں کے چراغ بجھاتے رہے،جو لوگ ان مصیبت زدہ لوگوں کو بچاتے رہے وہ بھی جلتے رہے اور دینا سے بچھڑتے رہے،کئی لاشے بے شناخت ہو چکے تھے اور کچھ کے جسم جل کر راکھ میں بدل چکے تھے۔محشر کے اس سماں میں لاشوں کا ایک وسیع مجمع تھاہر آنکھ نم اور ہر چہرہ اس قیامت خیز سانحہ پہ سوگوار تھا آگ کے اس الائو میں اتنی شدت تھی کہ انسان تو انسان پرندوں نے بھی فیکٹری کی فضائوں کی طرف رخ نہ کیا،لوگ جلے ہوئے انسانوں میں اپنے پیارے تلاش کرتے رہے کبھی کسی ہسپتال کی جانب بھاگتے تو کبھی کسی مردہ خانہ کی طرف ۔

محشر کی اس سے بڑی اور مثال کیا ہو گی کہ ایک ہی محلہ سے 40 جنازے ایک ساتھ اٹھے اور دوسرے محلہ سے 18 جنازوں کا جلوس الگ سے اٹھایاگیا،اس سانحہ میں تیسرے دن ریسکیو کا کام روک دیا گیابلدیہ ٹائون کے مکین اپنی مدد آپ کے تحت لاشوں کی تلاش میں مصروف رہے،انہوں نے خود ہی پیسے جمع کر کے جنریٹر منگوایا اور روشنی کا انتظام کیا خود ہی تہہ خانے میں اتر کر اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے رہے۔

فیکٹری مالکان عبدالعزیز،شاہد بھاٹیلہ،اور راشد بھاٹیلہ کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جا چکی ہے اور میں قربان جائوں اس وطن کی عدالتوں کے انصاف سے جہاں مجرموں کو رعایتیں دے کر آزاد کر دیا جاتا ہے ان مالکان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ابھی مرنے والوں کی میتیں مردہ خانوں میں پڑی ہیں،ابھی کچھ کی تدفین بھی باقی ہے،ابھی کچھ کے ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہونا باقی ہیں اور سندھ ہائی کورٹ لاڑکانہ بنچ نے ان مالکان کو8دنوں کی حفاظتی ضمانت دے دی،مالک کے بقول فیکٹری میں تالے نہیں لگے وہ بے گناہ ہیں اور اپنی بے گناہی ثابت کریں گے اور زخمیوں کا علاج بھی کروائیں گے ارشد بھاٹیلہ کے مطابق آگ سلنڈر کی وجہ سے لگی۔

اتنی بڑی فیکٹری کا مالک بھی بہت با اثر آدمی ہو گا اور اگر گرفتار ہو بھی گیا توچھ،سات ماہ کے مابین رہائی پا کر پھر سے اسی ڈگر پہ چل نکلے گا کیونکہ چیمبر آف کامرس کراچی نے واویلا شروع رکھاہے کہ فیکٹری مالکان بے قصور ہیں،چیمبر آف کامرس کراچی کا دعویٰ اپنی جگہ مگر یہ مالک خود تو کبھی پیرس،کبھی لندن اور کبھی امریکہ کی سیرسپاٹوںپہ جاتا اور فیکٹری میں ایک شفٹ میںایک ہزار کام کرنے والے مزدوروں کو بھیڑ ،بکریوں کی طرح بند رکھتا،ہر ملازم کے مطابق فیکٹری کے مین گیٹ کو تالا لگا دیا جاتا تھا،آگ بجھانے کے آلات نہ تھے،ایمرجنسی کے حوالے سے کوئی انتظامات نہ تھے۔

اس حادثے میں کئی سرکاری محکمے بھی ملوث پائے جا رہے ہیں کیونکہ ان محکموں میں کچھ ایسے بد دیانت چاشت خور ملازم بھی موجود ہیں جو چند پیسوں کیلئے انسانی جانوں کی پرواہ نہیں کرتے انسانی زندگی کا احساس نہیں رکھتے محکمہ لیبر کے انسپکٹر ،سول ڈیفنس کے ملازم اور انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار ان فیکٹریوں میں جاتے ضرور ہیں لیکن صرف منتھلیاں وصول کرنے کی حد تک اورسب سے حیران کن بات تو یہ ہے کہ اتنی بڑی فیکٹری جس کی آگ نے 275لوگوں کی جان لے لی محکمہ لیبر کے پاس رجسٹرڈ ہی نہیں ۔صوبائی وزیرصنعت روف صدیقی کو سلام کہ جس نے شفاف تحقیقات کیلئے استعفٰی دے دیا۔

تحریر: خرم میثم