امام احمد رضا کوعقیدت نہیں حقیقت کی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت

Imam Ahmed Raza

Imam Ahmed Raza

1857ء سے صرف ایک سال قبل 1856ء میں آسمانِ ہند میں احمد رضا نام کا ایک ستارہ طلوع ہوا اور 1921ء تک اپنی روشنی بکھیر تارہا اور جب ٹوٹا تو اس روشنی کے عکوس اپنی جلوہ سامانیوں سے پورے برصغیر کو مسحور کرچکے تھے ۔اس سحر انگیزی کے اثرات اب تک قائم ہیں اور یقین واثق ہے تادیر اس سحر انگیزی کا طلسم نہ ٹوٹے گا۔ امام احمد رضا کیا تھا اورکیا نہیں تھے اس سلسلے میں اجمالی طور پر اتنا سمجھ لیجیے کہ علماے عرب وعجم نے ان کی حیرت انگیز علمی خدمات ،تعجب خیز فتوحات اورمتنوع وکثیرالجہا ت حیثیتوں کو دیکھ کر (معجزة من معجزات رسول صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم )کہاتھااورواقعہ یہ ہے کہ بالکل صحیح کہاتھا ۔ہم جب ان کی حیات کوترازوکے ایک پلے میں رکھتے ہیںاوران کی خدمات کودوسرے پلے میںتو ان کی حیات کے مقابلے میں ان کی خدمات کاپلہ بھاری ہوجاتا ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ انہوںنے اتنے کم وقت میں اتنابڑاکام کیسے کرلیاجوکیفیت کے اعتبارسے بھی لاجواب ہے اورکمیت کے اعتبارسے بھی اپنی مثال آ پ ہے۔ ان کی تصانیف کامطالعہ کیا جائے تو اصلاحِ مفاسد کی مہک سطر سطر سے پھوٹتی محسوس ہوتی ہے ۔ یہ اصلاحات ایمانی زندگی کے ہراعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنی سے ادنی گوشے میں مکمل توانائی کے ساتھ موجود ہیں۔ ان کی حیات کاہرہرپہلو ایک آفتاب کی حیثیت رکھتاہے ۔ ان کے چراغ کی لونے لاکھوں گھروں کوبقعۂ نوربنادیاہے ۔وہ جدھر بیٹھے روشنی اپنارخ ادھرکرتی رہی۔ان کے چراغ سے چراغ جلے توہرچہارجانب روشنی ہی روشنی دکھائی دینے لگی۔ ان کے علمی دلائل اتنے مضبوط اورناقابلِ تردیدتھے کہ ان کابڑاسے بڑامخالف بھی مبہوت ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ان کے مخالفین ا ن کی مخالفت توکرتے رہے مگران کی علمی حیثیت کوکبھی چیلنج نہ کرسکے بلکہ ہمیشہ ان کی شخصیت کے اس پہلوکے اسیررہے۔

آج جب ہم عصرِ حاضر کے سیاق میں فکرِ رضا کی اہمیت وافادیت اور حقیقت و معنویت کو اپنے قلم سے ہم رشتہ کرنے بیٹھے ہیں تونوکِ قلم پران کی حیات کے بے شمارپہلوآنے کوبے تاب ہیں۔سب سے پہلے بات کرتے ہیں ان کے عشق رسول کی۔ انہوں نے عشق ِنبوی علیہ الصلوٰةُ والسلام کی خیمے اپنی تصنیفی دنیا میں جگہ جگہ نصب فرمائے اور ان کے ذریعے مسلمانوں کی فکروعمل کی آبادیوں میں عشقِ رسول کی ایسی ہواچلائی کہ ا س میں مفسدات ومنکرات کا دم گھٹتانظر آیا۔ان کے ذریعے اصلاحِ فکرو اعتقاد کی کونپلیں پھونٹیں ،عشقِ رسول کی کلیاں چٹکیں ،انبیا کی عظمت واہمیت کے چمن لہلہا اٹھے، محبتِ صحابہ کی پھول کھلے ،عظمتِ اولیا کے گلاب مہک اٹھے۔

معاشرے میں اصلاحِ احوا ل کے چراغ جلنے لگے اورمکروہ عناصر کو بھاگنے ہی میں عافیت محسوس ہوئی۔ امام احمد رضا نے صرف عشقِ رسول کی نبض پکڑی اور پورے معاشرے کے جسم کا علاج کردیا جس کے وجہ سے پورا ایمانی معاشرہ معطرہواٹھا ۔اگرکوئی حقیقت کی نگاہ سے دیکھے تووہ یہ محسوس کیے بغیرنہیں رہ سکے گاکہ اس کی عطربیزی آج تک قائم ہے اورنسل درنسل منتقل ہوتی جارہی ہے۔

تعلیمی حیثیت سے دیکھیں تو فکرِ رضا کی معنویت کے متعدد رنگ ذہن کے سامنے رقص کناں نظر آتے ہیں۔ انہوںنے فروغ اہل سنت کے لیے جونکات پیش فرمائے وہ ان کے وسیع ترین مطالعے ،غیرمعمولی بصیرت ،خدادادصلاحیت اورآپ کی عبقریت کامنہ بولتاثبوت ہیںمگرانہیں ان کاو ہ حق نہ مل سکاجن کے وہ حق دارتھے فیاللاسف ۔آپ یقین کیجیے کہ اگرمدارسِ اسلامیہ میں ان نکات کی معنویت کو مزید غور وفکر کو آنچ دی جاتی اورانہیں عمل کی بھٹی میں پکایاجاتاتو ان کی معنویت کے سہارے مسلمانوں کے تعلیمی مستقبل کی لوئیں بڑھ جاتیں ،مدارسِ اسلامیہ اور مکاتبِ دینیہ کے معیار کاجھنڈا کچھ اور اونچاہوجاتا ،دین اسلام کی تبلیغ وترسیل کی شاہ راہیں مزید وسیع و خوبصورت ہوجاتیں، علماے ملتِ اسلامیہ کے تعلیمی اور تبلیغی بازو کچھ اور مضبوط ہوجاتے، طلبہ کے احساسات ان کے تعلیمی ، دعوتی اور معاشی مستقبل کے امکانات سے خوب منور وتابناک ہوجاتے اورجب یہ سارے فوائد حاصل ہوتے توظاہرہے کہ عوام الناس اس سے کیوںکر محروم رہتے نتیجتاً ان کے اصلاحات کے دامن بھی لعل وگہر سے بھر بھر جاتے اورجب ان ساری چیزوں سے اہل سنت وجماعت کاقلعہ مزین ہوجاتا تو کیا مجال کہ دشمن اپنی ترچھی آنکھ سے ہمیں ڈرا سکتا مگرہم نے امام احمد رضا کی تعلیمات کواپنے عمل سے مربوط کرنے کے لائق ہی نہیں سمجھا۔ان کوصرف نعروں اورعقیدتوں کی چادرمیں چھپایاگیااورعقیدتوںکے سازپران کے نام اورخدمات کے ترانے گائے جاتے رہے۔

ہمارے یاروں نے ان پرعقیدت کا پردہ لٹکا رکھا ہے مگروہ توحقیقت کی چیزہیں۔اگرہم انہیں حقیقت کی نظروں سے دیکھیں توامام احمد رضا کے تئیں ہماری عقیدتوں اورمحبتوں کامیناراس مصنوعی اورمرو جہ ”عقیدت ومحبت”سے بہت زیادہ بلندوبالاہو گا۔ امام احمد رضانے اسلامی معاشرے کو فارغ البال اور خوش حال بنانے کے لیے جواہم ترین معاشی نکات پیش فرمائے تھے ان پرآج تک دادِتحقیق دی جارہی ہے اورمحققین انہیں مسلمانوں کے معاشی استحکام کی ضمانت سمجھ رہے ہیں۔

ظاہرہے جب ہم معاشی طورپرخودکفیل ہوتے تو ہمارے غیروں کو بھی ہمارے اندر جھانکنے کی دل چسپی پیداہوتی۔ہماری خوش حالی ان کے سامنے ہوتی تووہ ضرورہماری خوش حالی کاماخذ تلاش کرنے کی کوشش کرتے۔ ایسی صورت میں کیا عجب کہ وہ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے اور مسلمانوں سے متاثر ہوجاتے ۔امام احمد رضا نے مسلمانوں کوخودکفیل بنانے کے متعلق فرمایا تھا کہ مسلمان اپنے اسلامی بینک کھولیں اور زکوٰة ، فطرہ ، صدقات ،امداد وغیر ہ کی رقوم ایک جگہ جمع کریں تو کوئی بھی مسلمان غریب نہیں رہ سکتا اور اس غربت کی بنااسے عذاب نہ جھیلنا پڑتااور جب ہم اجتماعی کو ششو ں سے اپنی غربت کوخیرآبادکہہ دیتے تو یقینی طورپرمسلمان خودبخوددینی ودنیاوی سطح پر ترقیوں کے نقوش مرتسم کرتے چلے جاتے۔جس زمانے میں امام احمدرضانے یہ نکات پیش فرمائے تھے اگر اسی زمانے ہی سے ان کو عمل کی سطح پر پرکھا جاتا تو آج مسلمانوں کی حالت کی کوئی اورہی سمت ہوتی۔

Imam Ahmed Raza book

Imam Ahmed Raza book

کاش اب بھی ایسا ہوجائے۔ان کی تصانیف پڑھنے کے بعداندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی دینی وعلمی خدمات کے ساتھ ساتھ قوم مسلم کی ہر طرح کی اصلاح کے لیے بھی جامع اصول تیا ر فرمائے ہیں۔ بس ضرورت ہے ان پرعمل کرنے کی اورمثبت اورمعنیٰ خیزنتائج کا انتظارکرنے کی ۔ہم جب صر ف فکری سطح پر ان کے افکارکی معنویت کاجائزہ لیتے ہیں تو اتنے سارے فوائد نگاہوں کے سامنے ناچنے لگتے ہیں کہ ان کی غیرمعمولی صلاحیتوں پردل سے ایمان لے آنے کوجی چاہتاہے۔ 10شوال المکرم امام احمدرضابریلوی کی تاریخِ ولادت ہے ۔بلاشبہہ یہ دن برصغیرتوکیاعالم اسلام کے لیے نہایت مسرتوں،فرحتوں ،بہجتوں اورخوشیوں کا د ن ہے کہ اس دن ایساعبقری تشریف لایاجس نے برصغیرکی تاریخ میں پنپ رہی گمرا ہیوں اوربدعات کاقلعہ قمع کیااورلوگوںکی ایمانیات وفکریات کومحفوظ فرمادیا۔ان کی شخصیت کا مطالعہ کیا جائے توہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ بدعات وخرافات کے سب سے بڑے مخالف تھے چنانچہ انہو ں نے اپنی زبان وقلم سے اس کی پرزور تحریک چلائی اورببانگ دہل اس کے خلاف جہادبالقلم کیا جس کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوئے ۔

امام احمد رضا کی سب سے عظیم خوبی یہی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے دلوں میں مدھم ہوتی ہوئی عشق نبی کی لوکوبڑھایا،اسے تازگی بخشی اور دماغوں ،فکروں اوردلوں سے بدعات وخرافات کو کھرچ کھرچ کرپاک وصاف کیا۔امام احمد ر ضا کے تعلق سے لوگ غلط فہمی کے شکارہیں ایسے لوگوں کے لیے ان کی کتابوں کامطالعہ بے حد مفید ہو گا مگر ا س کے لیے غیرجانب داری اورمعروضیت ناگزیرہے۔ان کے یومِِِ ولادت کے موقع پران کی شخصیت اورافکارکوعام کرنے کاسب سے بہترطریقہ یہ ہے کہ ان کے نظریات کی وسیع ترپیمانے پرترسیل کی جائے تاکہ عشق نبی کی روشنی گھرگھرکومنوروتابناک کرسکے، ان کی تعلیمات پرلبیک کہا جائے ،مسلمانوں کے روشن مستقبل کے لیے جوواضح نقوش ان کی فکررسااورخامۂ زرنگارنے مرتسم کیے ہیں ، ان پرچلاجائے اوران کی بدعات مخالف مہم کوزیادہ سے زیادہ فروغ دیاجائے کہ امام احمدرضاکے یوم ولادت کے موقع پران کی شخصیت کوسب سے بڑاخراج عقیدت یہی ہے۔کیا آپ اس کے لیے تیارہیں؟۔تحریر : صادق رضا مصباحی، ممبئی
موبائل:09619034199