امریکی اخبارات سے: اسانج کی سیاسی پناہ

وکی لیکس کےبانی نے دو ماہ سے لندن میں ایکویڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے رکھی ہے، جہاں، ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون‘ کےمطابق، برطانوی پولیس کا اسانج کےحامیوں سے تصادم ہوا ہے اور ان میں سے بعض کو گرفتار کیا ہے

 Wikileaks Julien Assange

Wikileaks Julien Assange

امریکہ کی ہزاروں انتہائی خُفیہ دستاویزوں کو انٹر نیٹ پر طشت از بام کرنے والے آسٹریلوی شہری جُولین اسانج کو بالآخر ایکویڈار میں سیاسی پناہ مل گئی ہے ۔

وکی لیکس کے اس بانی نے دو ماہ سے لندن میں ایکویڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے رکھی ہے جہاں ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون‘ کےمطابق برطانوی پولیس کا اسانج کےحامیوں سے تصادم ہوا ہے اور ان میں سے بعض کو گرفتار کیا گیا۔

’ہیرلڈ ٹریبیون‘ کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کیٹو میں ایک نیوز کانفرنس میں ایکویڈور کے وزیر خارجہ ، ریکارڈو پاتین یو نے سیاسی پناہ کا با ضابطہ اعلان کیا ۔ اس اعلان سے پہلے ملک کے صدر رافیئل کوریا نےکہا تھا کہ ہمیں کوئی بھی دہشت زدہ نہیں کر سکتا۔

وزیر خارجہ نے نیوز کانفرنس میں اس امید کا اظہار کیا تھا کہ برطانیہ مسٹر اسانج کو سفارت خانے سے ایکوی ڈور جانے کی اجازت دے دے گا۔ لیکن برطانیہ نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی یہ قانونی مجبوری ہے کہ وہ اسانج کو مقدمہ بھگتنے کے لئے سویڈن بھیجے جہاں اُن پر غلط جنسی طرز عمل کا الزام ہے۔

مسٹر پاتین یو نے نیوز کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ ایکویڈور نےیہ فیصلہ اس لئے کیا کیونکہ برطانیہ، سویڈن اور امریکہ نے یہ ضمانت دینے سے انکار کر دیا ہے کہ اگر اسانج کو سویڈن جانے دیا گیا تو انہیں مزید الزامات کا سامنا کرنے کے لئے امریکہ نہیں بھیجا جائے گا۔

اسانج کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس لئے سویڈ ن نہیں جانا چاہتے کیونکہ انہیں اندیشہ ہے کہ اگر انہیں امریکہ منتقل کردیا گیا تو ان پر امریکہ کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے کا مقدّمہ چلایا جائے گا۔

انہوں نے وکی لیکس کے ذریعے سنہ 2010 میں امریکہ کی ہزاروں ایسی خُفیہ دستاویزیں ساری دنیا کے سامنے آشکار کر دی تھیں جوعراق اورافغانستاں کی جنگوں اور امریکہ کے دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں تھیں۔

’ہیرلڈ ٹربیون ‘کےمطابق لندن میں ایکوے ڈور کا سفارت خانہ ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں ہے جہاں وہ ایک عقبی تنگ کمرے میں خانہ بدوش کی طرح مقیم ہیں اور جہاں سورج کی روشنی براہ راست نہیں آتی اوہ سفارت خانے کے ملازموں کے لئے بھی مسلہ بنے ہوئے ہیں۔

اخبار کے بقول اس سے قبل ایک بیان آیا جس پر کسی کے دستخط نہیں تھے اور جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ برطانیہ نے انتباہ کیا ہے ، کہ ایکوی ڈور کے سفارت خانے کوجو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے اسے منسوخ کر دیا جائے گا تاکہ اسانج کو گرفتار کیا جائے۔

لندن میں اسانج کے مقدے کے دوران پچھلے 20 ماہ کے دوران وکی لیکس کی سرگرمی بہت زیادہ سکڑ گئی ہے ۔ جو باہُنر کمپیوٹر ماہرین اس ادارے کو چلا رہے تھے ان میں سے بہت سے اور إس کے بانیوں میں سے بعض چھوڑ کر جا چُکے ہیں۔ لیکن اس کی طرف سے اسانج کےکوائف کے بار ے میں بیانات جاری ہوتے رہتے ہیں۔ ’ہیرلڈ ٹربیون‘ کہتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ بات عجیب لگی کہ مسٹر اسانج کی وجہ شہرت آزادئ اظہار کیلئے ان کی جدو جہد ہے لیکن انہوں نے ایسے ملک سے سیاسی پناہ مانگی ہے جہاں کےصدر نے صحافیوں کو دبا کر رکھا ہوا ہے۔

’ نیو یارک ٹائمز‘ ایک ادرایے میں کہتا ہے کہ افغانستان میں پچھلے ایک عشرے کے دوران حقوق نسواں کے حصول میں جو محدود لیکن حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی ہے وُہ اُن سے محروم ہو سکتی ہیں اگر اُن کو برقرار رکھنے کے لئے بلکہ مزید آگے بڑھانے کے لئے افغان لیڈروں، واشنگٹن اور دوسرے بین ا لاقوامی شراکت داروں کی طرف سے پختہ عہد نہ کیا گیا ۔

اخبار نے افسوس کے ساتھ کہا ہے کہ مارچ کے مہینے میں صدر حامد کرزئی نے ملک کے اعلیٰ ترین مذہبی لیڈروں کے تیار کردہ ایک فرمان پر دستخط کئے جس میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں ثانوی درجہ دیا گیا ہے۔ اور اب ، جب ان کی حکومت اور امریکہ طالبان کے ساتھ کے ساتھ مذاکرات کرنے کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں ، تو بہت سے سماجی کارکنوں کو یہ فکر کھائے جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ جو سٹرٹیجک سمجھوتہ طے پائے گا اُس کی ایک شرط یہ ہوگی کہ عورتو ں کے حقوق کو قربان کر دیا جائے۔ اوباما انتظامیہ نے بالاصرار کہا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔

اخبار کے خیال میں ایک روشن پہلو یہ ہے کہ افغان خواتین کا حوصلہ بڑھ گیا ہے اور انہوں نے اپنے حقوق کے معاملے میں کسی بُزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے، لیکن خواتین کو با اختیا ر بنانے میں تمام افغانوں کو ساتھ لینا ضروری ہے اور جیسا کہ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے، ثابت ہو چُکا ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی ایسا ملک ترقّی یا خوشحالی کی طرف نہیں جا سکتاجس کی عورتوں کو نظر انداز کیا گیا ہو اور وہ مظلوم ہوں۔