امریکی اخبارا ت سے: سالانہ صدارتی خطاب

obama

obama

صدر اوبامہ نے منگل کی شام کو کانگریس کے  مشترکہ اجلاس سے  اپنے روایتی  سلانہ خطاب میں ملک کی مجموعی صورت حال اور مستقبل کے بارے میں تجاویز پیش کیں۔ ان پر اخبارات میں تبصرے اور ادارئے  چھپے ہیں۔لاس اینجلس ٹائمز کہتا ہے  کہ صدر کے ذہن میں دو مقاصد تھے۔ ایک توسنہ 2012 کی انتخابی مہم کے لئے ایک منشور پیش کرنا اور دوسرے ان پالیسیوں کی وضاحت کرنا جن سے قومی معیشت کو فائدہ پہنچے۔
صدر نے حکومت کے کردارکیبارے میں ری پبلکن موقف کو رد کرتے ہوئے انٹرنیٹ، ملک کی ریاستوں کو ملانے والی شاہراہوں اورملک کی کاروں کی صنعت کی بحالی کی مثالیں دیتے ہوئے  کہا کہ یہی مثالیں  حکومت  کے اخراجات کا جواز ہیں اور یہ کہ عراق اور افغانستان  سے فوجیں واپس لانے کے بعد جو بچت ہوگی، حکومت  اس میں سے نصف  قومی اقتصادی ڈھانچے  کی   تعمیر پر خرچ کرنا  چاہتی ہے۔صدر کی تقریر کا بیشتر حصہ معیشت  پر مرکوز  تھا۔ لیکن انہوں نے  دوسرے  امور  میں اپنی پالیسیوں کا بھی دفاع کیا، مثلا عراق سیامریکی فوجوں کی واپسی، اوردو اہم کارنامے یعنی وال سٹریٹ کو ضابطوں کے تحت لانا  اور صارفین کے مالی مفاد کے بچا کے دفتر کا قیام۔اخبار نے قوم کیلئے صدر کے اس مشورے کی تعریف کی  ہے کہ اسیامریکی فوجوں  کی پیروی کرتے ہوئے اختلافات کو نظر انداز کرنا چاہئے اور اپنی توجہ زیر تکمیل نصب العین  پر مرکوز کرنی چاہئیے۔      وال سٹریٹ جرنل کہتا ہے کہ صدراوباما نے اپنے خطاب میں جو اقتصادی پروگرام  پیش کیا اس میں انہوں نے انتخابات میں اپنے متوقع ری پبلکن حریف کیمقابل، دونوں پارٹیوں کے درمیان  پالیسی کی بڑھتی ہوئی خلیج  کو اجاگر کیا اورجن نئی تجاویز کی نوید سنائی ان میں دولتمند امریکیوں کے ٹیکس میں اضافہ کرنا، مکانوں کی خریدو فروخت کیبحران کی تحقیقات کرانا اور  قومی  پیداواری استعداد  کو  بڑھانا شامل ہے۔اخبار کے خیال میں ان کا یہ خطاب انتخابی مہم کی ایک تقریر تھی اور ان کا روئے سخن جن لوگوں کی طرف تھا ان میں ہِسپینک، عورتیں، وال سٹریٹ کے مخالفین کے گروپ، محنت کش لوگ اور ماحولیات کی حفاظت کے حامی  لوگ شامل تھے ۔اخبار یو ایس اے ٹوڈے نے صدر اوباما کی متعدد تجاویز کو مفید قرار دیتے ہوئے کہا  ہے کہ  وہ  مینیو فیکچرنگ  کے شعبے میں ٹیکسوں میں مزید چھوٹ دینا چاہتے ہیں، ملک کے اندر  گیس کے  جو بے انداز ذخائر ہیں ان کو استعمال میں لانا چاہتے ہیں کمیونٹی کالجوں پر زیادہ توجہ دینا چاہتے ہیں اور مالدار لوگوں پر ٹیکسوں کا بوجھ  بڑھانا چاہتے ہیں  اخبار کے نزدیک یہ اہداف  یقینا  حاصل کرنے کے لائق ہیں۔ لیکن اخبار کا یہ بھی خیال ہے کہ صدرنے  امریکی  خواب کے حصول کی راہ میں ایک روکاوٹ کو  نظر انداز کر دیا ہے یعنی  قوم کے ذمے  وہ بھار ی  قرضہ  جس کی ادائیگی کے لئے  ہر گھرانے  کے ذمے چار ہزار دوسو ہے۔واشنگٹن پوسٹ نے مالداروں پرٹیکس بڑھانے کی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاہے کہ  صدر نے نہ صرف ارب پتیوں پر بلکہ دس لاکھ ڈالر سالانہ کمانے والوںپر کم از کم 30  فی صد ٹیکس لگانے کی  تجویز کی ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ خارجہ پالیسی میں ان کی انتخابی مہم کے دوران  دو کارناموں پرمرکوز  رہے گی ۔ ایک تو عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی اور دوسرے اوسامہ بن لادن کی  ہلاکت  ۔صدر نے عہد کیا کہ امریکی دفاعی بجٹ میں 5 کھرب ڈالر کی کٹوتی کرنے کے باوجود امریکہ  ایک ایسا ملک بنا  رہے گیجس کے بغیر دنیا کا کاروبار  نہیں چل سکتا ۔صدر نے خارجہ امور کی وضاحت میں عراق کے ساتھ مستقبل میں امریکہ کے تعلقات  پر  کچھ نہیں کہا اور اخبار کہتا ہے کہ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد عراق پھر سے اندرونی  خلفشار کی طرف جا رہا ہے۔نیو یارک ٹائمز نے صدر اوباما  کے دفاعی بجٹ میں بھاری کٹوتی  سے ہونے والی بچت کی رقم  عوامی بہبود  کے کاموں   پر خرچ کرنے  کے خیال کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے۔ کہ اس کی مدد سے لاکھوں لوگوں کو  روزگار میسر آئے گا۔مسٹر اوباما بنکوں اور کانگریس پر زور دیتے آئے ہیں کہ قرض لینے  کی شرائط نرم کی جایئں اور  بنک کاروں کے ان ہتھکنڈوں کی تفتیش کرائی جائے جن کی وجہ سے مالیاتی  بحران  پیدا ہوا تھا۔ انہوں نے  بش دور کی ٹیکسوں کی مراعات ختم کرنے کی بھی وکالت کی۔ نیو یارک ٹائمز مسٹر اوباما کی اس تجویز  کی بھی حمایت کی کہ مالدار لوگوں  کی ٹیکس کی شرح کم ازکم  30 فی صد ہو اور وہ کسی صورت  متوسط طبقے  کی ٹیکس کی شرح سے کم نہ ہو۔