بدل گیا شہرِ آشوب میں کراچی

Karachi

Karachi

فصل خزاں میں درختوں کو ہلاتے اور پتوں کو گراتے ہیں لیکن موسم کی اثر آفرینی اور ہوا کا اثر ایسا ہوتا ہے کہ پتے اور پھول خود سوکھ سوکھ کر جھڑنے لگ جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک مفکر کے یہ الفاظ بالکل صحیح ہوتے دکھائی دیتے ہیں جب ہم پاکستان کے عظیم شہر کراچی کی طرف دیکھتے ہیں۔ موسمِ خزاں میں تو خزاں رسیدہ پتے خود بخود ہی شجر سے ٹوٹ کر گر جاتے ہیں مگر شہر کراچی میں ہر روز بغیر موسم کی تبدیلی کے پندرہ سے بیس انسان لاشوں کی صورت گِر رہے ہیں اور ابدی نیند سوتے جا رہے ہیں۔ امن و امان کا آفتاب و مہتاب تو عرصہ ہوا یہاں سے غروب ہو ہی چکے ہیں ۔ ہمارے آباؤ اجداد کی سجائی ہوئی امن و امان، محبت و بھائی چارگی کا انجمن رختِ سفر باندھ چکے ہیں اور یہ معاملہ وقفہ وقفہ سے کہیں کہیں ہی دیکھے جانے کی خبریں سناتی ہیں۔ ” وہ جو بیچتے تھے دوائے دردِ دل۔ وہ دکان اپنی بڑھا گئے”۔

ہمارا کراچی دنیا کے شہروں میں پانچواں بڑا شہر ہے۔ کبھی یہ روشنیوں کا محور تھا، آج یہاں سرِ شام ہی سناٹوں کا راج ہوتا ہے۔ ہمارا کراچی خوشیاں بانٹنے کا مرکز تھا، آج یہاں ہر روز موت کا رقص جاری و ساری ہے۔ ہمارا کراچی دینی و عصری علوم کا مرکز اور قدیم صالح و جدید نافع کا بہترین امتزاج ہوا کرتا تھا ، آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دگر گوں حالات کی وجہ سے یہ ناپید ہوا چاہتا ہے۔ ہمارے کراچی کی شامیں لوگوں کیلئے جیسے اس کی پیشانی کے تابناک ستارے ہوتے تھے، آج ایسے خوبصورت شاموں کے لئے لوگ ترستے ہیں۔ ہمارا کراچی آج چاہے صبح ہو یا شام ، دن ہو یا رات ہر وقت اپنے جسم پر دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، لوٹ مار، ڈاکہ زنی، فرقہ وارانہ فسادات، بھتہ خوری اور اس جیسی کتنی ہی لعنتوں کا بوجھ برداشت کرنے پر مجبور ہے اور یہاں کہ خوش و خرم لوگ اور یہاں کے خوشیاں بانٹتی شاہراہیں، پارکس لوگوں کو اپنے اندر سمونے کے لئے بیچین دکھائی دیتے ہیں۔ مگر حالات اس قدر تشویشناک موڑ اختیار کر چکا ہے کہ لوگ ضروری کاموں کے علاوہ اپنے گھروں سے نکلنے سے ڈرتے ہیں، بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شہری اپنے گھروں میں ہی رہنا پسند کرنے لگے ہیں۔

Karachi Terrorism

Karachi Terrorism

ہم سب جو اپنے شہر سے بہت مانوس تھے اور اس سے خاص اپنائیت محسوس کرتے ہیں، شہر کے کسی بھی حصے میں جانا کوئی مسئلہ نہیں تھا، شہرِ کراچی کے لوگوں کا ذوق تھا کہ رات دیر گئے تک اپنے دلچسپی کا ساماں نہایت لگن اور دلچسپی سے کیا کرتے تھے۔ دوستوں کی صحبت میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے تھے، تواضع و انکساری جو ایک مومن کی صفت بھی ہوتی ہے شہرِ کراچی کے لوگوں کے اندر حد درجہ پائی جاتی تھی۔ بڑے دکھ اور رنج کی بات ہے کہ وہ آج ہمارے شہر اور ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ ہم سب ہی گھر سے نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ مگر پھر بھی نکلتے ہیں ، ان تمام صورتحال کے بعد بھی ہمارا شہر زندگی کی روانیوں میں اب بھی سب سے آگے ہیں۔ موت سڑکوں پر رقص کناں ہیں مگر شہری اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ اپنے روزآنہ کے کام میں مشغول ہیں۔ اب تو شہریوں کو بھی یہ یقین ہو چلا ہے کہ ہر ہست کو نیست ہونا ہے اور ہر موجود راہی عدم کا مسافر ہے۔

جس پر ہم سب کا عقیدہ بھی ہے۔ اس کائنات کا دستور ہے کہ جو بھی اس دارفانی کے اندر آیا ہے اس کو ایک دن جانا ہے۔ مطلب ہر چیز کو فنا ہے۔ مگر اس طرح جس طرح ہمارے شہر میں ہو رہا ہے اسے سب ہی ”وقت سے پہلے ” کے مصداق گردانتے ہیں۔ لیکن ہم سب کو یقینِ محکم ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ ہمارا شہر بھی امن و امان کا گہوارا بن جائے گا۔ خوشیاں ہمارے سڑکوں پر بھی منڈلانے لگیں گی۔
دَر کھلا رکھیئے ابھی امکان کا
واسطہ ہے آپ کو ایمان کا
اتنی بھاگم بھاگ بھی نہ کیجئے
کام جلدی کا تو ہے شیطان کا
ویسے بھی ہم لوگ زندہ قوم ہیں ! اور زندہ قومیں ماضی کو ذہن نشین ، حال پر نظر اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کرتے رہتے ہیں لیکن آج کی صورتحال یہ ہے کہ ہم اپنے تابناک ماضی کو بھول چکے ہیں، مستقبل کے لئے ہمارے پاس کوئی لائحہ عمل یا کوئی منصوبہ نہیں ہے، صرف حالاتِ حاضرہ پر غیر منطقی تبصرہ کرکے اپنے آپ کو دکھی اور دوسروں کو بیزار کر رہے ہیں۔ ہمارے تابناک ماضی کے قضیے جو تاریخی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں، اگر ہم ان کی ورق گردانی ہی کر لیں تو ہمیں احساس ہو جائے گا کہ ہم کیا تھے اور کیا ہو کر رہ گئے ہیں۔ اگر دلجمعی کے ساتھ ورق گردانی کریں تو یہ نہ صرف ہمیں راحت و سکون بخشیں گے بلکہ ہمیں یہ بھی باور کرائیں گے کہ آخر ہم سے غلطی کہاں ہوئی اور کون سی ایسی وجہ ہے جو ہم آج اس نہج پر پہنچ گئے ہیں۔

Quaid e Azam

Quaid e Azam

قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کے بعد سے اس ملک کے عوام مسلسل اپنے دوسرے حقیقی قائد کی تلاش میں سرگرداں ہیں ، کبھی وہ قائد اپنوں میں ڈھونڈھتا ہے تو کبھی امپورٹیڈمیں، لیکن آزادی کے پینسٹھ برس بعد بھی اس عوام کو حقیقی ، مدبر، وطن پرست قائد ابھی تک نہیں ملا۔ جبکہ اس درمیان ملک کے تقریباً وہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو اپنا قائد بناتے رہے ہیں یا کسی نظریے کی بنیاد پر قائد تسلیم کرتے رہیں ہیں لیکن کیا بات ہے کہ ہماری تلاش ابھی بھی جاری ہے۔

جبکہ ہماری قوم میں ایسے لوگ رہے ہیں جو زندگی کے دیگر شعبوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں اور ایسے لوگ دیگر طبقوں میں نہیں پائے جاتے ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ سیاست میں ہمیں صرف ایک مخلص قائد ہم کو حاصل نہیں کہیں یہ اجتماعی طور پر سیاسی شعور کی کمی تو نہیں ہے۔
ان دنوں کچھ عجب ہے حل ہم وطنوں کا
سوچتے کچھ ہیں، دھیان میں کچھ ہے
آج ہمارے شہر میں گلی کوچوں، محلوں، شاہراہوں بلکہ اب تو گھروں پر بھی دستی بم حملے کئے جا رہے ہیں یا ہو رہے ہیں۔ واللہ علم! کہ ان تمام کاروائیوں میں کون جُڑا ہوا ہے۔ دماغ اللہ نے دی ہے سوچنے اور سمجھنے کے لئے اس لئے ہر شہری بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کوئی اسٹیک ہولڈر تو یہ کام کر ہی نہیں سکتا ۔ کیونکہ اسٹیک ہولڈر عوامی ترجمان ہوتا ہے اور وہ کسی طور پر بھی ایسا نہیں چاہے گا کہ اس کے شہر میں امن و امان کا صورتحال خراب ہو۔یا اس کے لوگ پریشان حال ہوں، مگر ہمارے یہاں کی سیاست دنیا بھر سے مختلف ہے۔ دوسرے ملکوں میں کرپشن کرنے والا فوری مستعفی ہو جاتا ہے مگر ہمارے یہاں اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جاتا ہے۔

Pakistan

Pakistan

دوسرے ملکوں میں امن و امان کا مسئلہ شدید ہو جائے تو حکومتیں سخت ایکشن میں نظر آتی ہیں مگر ہمارے یہاں صرف بیان بازی اور میڈیا ٹاک میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالے جاتے ہیں ۔ دوسرے ملکوں میں قانون بنائے جاتے ہیں اور اس پر سخت عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں قانون صرف کاغذوں کا پیٹ بھرنے کیلئے بنائے جاتے ہیں اور بس! دوسرے ملکوں میں سیاسی جماعتوں کی بھرمار نہیں ہے مگر چنیدہ چنیدہ جماعتیں شفاف ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آکر اپنے عوام اور اپنے ملک کو ترقی کی سیڑھیوں پر پہنچا رہے ہیں مگر ہمارے یہاں شفافیت نام کو نہیں ہے، اور اقتدار میں آکر بجائے ملک کو ترقی اور عوام کو ترقی دینے کے بجائے اپنے آپ کو اور اپنے عزیز رشتہ داروں کو ترقی کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ ایسی صورتحال عوام بلکہ ملک کی ترقی اور سالمیت کے لئے بھی بہتر نہیں ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کی رفتار تبھی تیز ہوتی ہے جب وہاں کے لوگ خوشحال ہونگے۔

زندہ قومیں اپنے ماضی کو کبھی فراموش نہیں کرتی ہیں ہم بھی نہیں کریں گے اور اپنے شاندار ماضی کو نظر میں رکھ کر بہتر حالات کے لئے اتحاد و اتفاق کی راہ تلاش کریں، اپنا حال نہ صرف خوشگوار بنائیں بلکہ اپنے بہتر مستقبل کے لئے بھی کوئی ایسا منصوبہ لائیں جو ہماری آنے والی نسلوں کے لئے سنہرے دن لیکر آئے۔ جہاں اور جب بھی محسوس ہو کہ عوام کے ساتھ ناانصافیاں ہو رہی ہیں تو اقتدار کے ایوانوں کو حرکت میں آنا چاہیئے اور اس کا سدِباب کرنا چاہیئے۔ یہ بات ذہن میں رہنا چاہیئے کہ کامیابی اتحاد و اتفاق ، امن و امان کی وجہ سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی