بلوچستان کے معاملات میں امریکی مداخلت کیوں؟؟؟

 

balochistan

balochistan

موجودہ این آر او زدہ حکومت اور اس کی ایجنسیوں نے امریکہ کو اپنے سر کا تاج بنا کر سجایا ہوا ہے۔امریکی ہمارے تمام معاملات میں جیسے مداخلت کا پورا اختیار رکھتے ہیں۔وہ جب اور جہاں چاہیں پاکستان کے مفادات کو کھلے عام چیلنج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ہماری غلامی کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے گہرے دوست چین کو جو ہماری ہر بری گھڑی میں ہمارے شانہ بشانہ کھڑا رہا ۔امریکہ کے سامنے فراموش کر دیتے ہیں۔ہماری خارجہ پالیسی اس وقت نہایت ہی گھٹیا دکھائی دی ،جب اقوام متحدہ میںشام کے معاملے میں ہم نے امریکی حمایت کو اپنا طرہء امتیاز سمجھااور اپنے بہترین دوست چین کو، جو اس معاملے میں امریکہ کی مخالفت کر رہا تھااپنے روئے سے مایوس کیا۔اپنے بہترین دوست کی مخالفت کرکے ہم نے بے شرمی سے اپنے ہمدرد کوفراموش کر دیا،جو غیرت مند قوم کے شیوے سے ہٹ کر ہے۔ امریکہ وہ ملک ہے جو ہمیں اپنا ڈالر خرید سمجھتا ہے۔غلام حکمرانوں اقتدار کے اور ڈالرز کے عیوض تم بہت سستے بکے ہو۔ ہم پاکستانی اس پر بے حد شرمندہ ہیں!!!ربِ کائنات وہ وقت جلد لانے والا ہے جب ان منحوس چہروں سے وطن کے لوگوں کوجلد نجات ملے گی۔ اللہ میاں! اگر ہمارے اعمال بگڑے ہیں توتُو اپنی رحمت سے انہیں سنوار بھی سکتا ہے….ہمیں ہر جانب سیاست کے میدانوں میں امریکی غلاموں کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے۔جن میں سے ہر ایک اس ملک کو ایک مرتبہ پھر گروی رکھنے کے لئے بے چین دکھائی دیتاہے۔جنہیں اقتدار کی غرض ہے ہم پاکستانیوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

موجودہ حکمرانوں نے پرویز مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھ کر اپنے امریکیوں سے وعدے کے مطابق پاکستان کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصانات پہچائے ہیں۔جس کا اندازہ ان اعدا و شمار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ امریکی دہشت گردی اور اسکی جنگ میں شامل ہو کر پا کستان نے 70کھرب اور20،ارب روپے کا نقصان اٹھایا اور ہمارے بھکاری حکمرانوں کو اپنے لوگوں کو مروانے اور اس ملک کی معیشت کی تباہی کے بدلے بھیک میں صرف 9کھرب اور90، ارب روپے دیئے گئے جس میں این جی اوز اور امریکن ایڈ کے لئے دیا جانے والا سرمایہ بھی شامل ہے…..!!اس معاملے میں پاکستان کو تقریباََ 61کھرب ڈالر کا نقصان ان خود غرض اور اقتدار کے بھوکوں نے پہنچایا۔اس کے علاوہ ان کی بھی کھربوں ڈالر کی لوٹ مار ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت نے اپنے 46 ماہ کے دورِاقتدار کے دوران پاکستان کو روزانہ3 ،ارب اور ہر ماہ ، 93،ارب روپے کا نقصان اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔لگتا ہے ان لوگوں کا ایجنڈاپاکستان کی بربادی ہے۔اس پارٹی نے کسی دور میں بھی پاکستان کے مفادات کا سوداکرنے سے دریغ نہیں کیا۔کبھی پاکستان دولخت کیا تو کبھی کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا اور اب پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں پر ان کی نظرِ بد دکھائی دیتی ہے اور امریکہ ان کا حمائتی ٹہرا!!
امریکہ نے ایک جانب ہمیں اور ہمارے فوجیوں کوتو ہمارے ہی لوگوں سے جنگ میں الجھایا ہوا ہے۔تو دوسری جانب خود طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔جس سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ وہ پاکستان کو مستحکم ہوتا دیکھنا ہی نہیں چاہتا ہے۔وہ پاکستان کی طالبان سے گفت و شنید کی شدت سے مخالفت کر رہا ہے۔اُس نے اپنے زر خرید ہم پر مسلط کر کے ہماری تمام پالیسی سازی خود کر رہا ہے۔یہ ڈبل گیم ہمارے لئے انتہائی گھاٹے کا سودا ہے۔اس ڈبل گیم کو امریکہ کے زر خرید بھی اسی طرح جاری رکھے ہوے ہیں جس طرح امریکہ چاہتا ہے۔اس ڈبل گیم کا ہی نتیجہ ہے کہ ڈرون حملے وطن عزیز پر پھر سے شروع کرا دیئے گئے ہیں۔ جس سے مسلسل پاکستانیوں کاان کی نظرمیں سستا خون بے دردی سے بہایا جا رہا ہے۔جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم ڈرون گرا سکتے ہیں،اب وہ کہاں سو رہے ہیں !!!ڈرون روزانہ پاکستان کی سرحدوں کو روندتے ہوے ہمارے عسکری اداروں کے منہ چڑاتے ہوے پاکستانیوں کو مار کر نکل جاتے ہیں ۔جس کے نتیجے میں ملک کے بے بس لوگ منحوس مقتدروں کی نظر ہو رہے ہیں۔بے حیائی کی انتہا یہ ہے کہ نیٹو سپلائی بحال کرنے کے لئے وزارت خارجہ بھی درون خانہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتی دکھائی دے رہی ہے۔جبکہ ہماری فضائی حدود سے نیٹو کی سپلائی مسلسل بلا کسی روک ٹوک کے جاری ہے!!!عوام کی آنکھوں میںدھول جھونکنے کیلئے دکھاوے کے طور پر ہمارے حکمرانوں نے نیٹو سپلائی روک دی تھی۔مگر فضائی سروس کو انہوں نے اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے بر قرار رکھا ہوا ہے۔امریکہ سے امیدیں رکھنے والا ایک بھی سیاست دان اس پر آواز نہیں اٹھا رہا ہے۔ان سب کو پاکستان نہیں اقتدار عزیز ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ سیاست کے اونچے ایوانوں سے امریکہ کی بد معاشیوں پر کوئی انگلی اٹھانے کیلئے بھی تیار دکھائی نہیں دیتا ہے۔
ایک ہی الو کافی تھا برباد گلستاںکرنے کو ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا
کئی دنوں سے یہ خبریں مسلسل گرم ہیں کہ امریکی کانگرس نے بلوچستان کے ایشومیں دلچسپی لینا شروع کی ہوئی ہے۔جس پر باقاعدہ بحث و مباحثے کا آغاز کر کے ہمارے زخموں پر نمک پاشی کی مذموم کوششوں کا آغاز کر دیا گیاہے۔امریکی ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور میں بلوچستان کے حولے سے جس بحث کا آغاز کر دیا گیا ہے۔اس سے ایسا محسوس کیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد میں بھی اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی ہے ضرور۔پاکستان کی وزارت خارجہ اس معاملے پر بالکل خاموش دکھائی دیتی ہے۔درانِ بحث پاکستان کی تقسیم کے فار مولے بھی پیش کئے گئے۔پاکستان میں امریکہ اس شرمناک مداخلت پر وزارت خارجہ کی خاموشی لمحہء فکریہ ہے!!!اس ایشو کے پیچھے امریکہ سے بھیک میں ڈالر حاصل کرنے والی ایک این جی او(ہیومن رائٹ واچ)کا نام بھی لیا جارہا ہے۔جو پاکستان سے زیادہ ڈالر سرکار کی مرہون منت رہتی ہے۔
پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوے امریکہ کی امور خارجہ کی کانگرس کمیٹی نے نے عومی سماعت کے نام پرجو ڈرامہ رچایا ہے اس کے تحت مطالبہ کیا گیاہے کہ بلوچستان کے حالات پر امریکہ پاکستان پر دبائو ڈالے اورپاکستان سے پوچھے کہ بلوچوں کو آزادی کا حق کیوں نہیں دیا جاسکتاہے؟علی دیان نامی بد معاش پاکستان میں بیٹھ کر ہیومن رائٹ واچ نامی این جی او کے ذریعے پاکستان کے خلاف کام اپنے آقائوں کے ساتھ مل کر رہا ہے ۔یہ شخص عوامی سماعت کے ڈرامے کا بڑا کر دار ہے۔تاہم پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان کے اس غدار کو فوری طور پر اس سرزمین سے اٹھا کر باہر پھینکا جائے۔جو ہماری سر زمین پر ہی ہمارے خلاف امریکی ڈالروں کی جھنکار پر کام کر رہا ہے۔ دوسری جانب امریکہ نے ہندوستان کو بھی بلوچستان میں پاکستان کے خلاف مضبوط کیا ہوا ہے۔ ہندوستان افغانستان کے اندر بیٹھ کر مسلسل پاکستان کے اند تخریبی کاروائیاں کراتا رہا ہے ۔اس وقت را کے ایجنٹ افغانستان کی راہ داریوں سے بلوچستان میں پھیلے ہوے ہیں جو ایک طرف توبلوچوں کے جذبات بھڑکارہے ہیں۔جس کے لئے ہندوستان کوامریکہ کی مکمل آشیرواد حاصل ہے۔دوسری طرف را کے ایجنٹ روزانہ بلوچستان میںتخریب کاری اور قتل و غارت گری کرا رہے ہیں۔
پاکستان نے امریکی کانگرس کی خارجہ کمیٹی میں عوامی سماعت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوے کہا ہے کہ بلوچستان ہمارا اندرونی معاملہ ہے امریکہ سمیت کسی کو اس میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔اور نہ ہی امریکہ کی خارجہ کمیٹی کو یہ اختیار ہے کہ وہ واشنگٹن کو تشوش سے آگاہ کرے۔پاکستان کی سینٹ میں بھی تمام ارکان نے امریکیوں کی اس حرکت کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمران امریکیوں سے سہمے سہمے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے حوالے سے امریکی کہیں بھی جارحیت کریں ہمارے حکمرانوں میں یہ جراء ت نہیں ہوتی ہے کہ وہ ان کے خلاف ایک لفظ بھی کہہ سکیں۔ہمیں امریکی غلامی کاجو ااتار پھیکنا ہی ہوگا۔ورنہ ہمارے مقدر کی سیاہی میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا اور ہم کہیں منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہیں گے۔پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید