بیمار قوم یا کسی بھی بیمار شخص کا علاج اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اس مرض کی صحیح تشخیص نہیں ہو جاتی

بیمار قوم یا کسی بھی بیمار شخص کا علاج اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اس مرض کی صحیح تشخیص نہیں ہو جاتی۔ ہمارے ملک پاکستان میں برائیوں کی اصل ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ خود پاکستانی قوم ہے۔ قائد اعظم سے لیکر زرداری تک ایک بھی حکمران ایسا نہیں آیا جس نے کوئی ایک بھی ایسی پالیسی بنائی ہو جسکی وجہ سے پاکستانی قوم بڑے بڑے کبیرہ گناہ کرنے پر مجبور ہو۔ پاکستانی قوم یعنی ہم ، ان گناہوں میں مبتلا ہیں جن میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں اور جن پر اگر بد ترین عذاب آجائے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔

اگر ہمیں پاکستان کے مستقبل کی کوئی فکر ہے تو ہمارے اوپر یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی عوام کی ان اصل برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں جن کی وجہ سے پاکستان اس مشکل حالات سے گذر رہا ہے۔ پاکستان کے برے حالات کی اصل ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ ہم خود ہیں ، کیا امیر کیا غریب کیا پڑھے لکھے کیا ان پڑھ ، گناہوں میں سب ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں ، سوائے چند کے ہر شخص اپنے ہرمسئلے اور ہرگناہ کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کرخود مطمئن ہو جاتا ہے اور اپنے آپکو پاک دامن سمجھتا ہے۔ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، کسی سے بھی اسکی کسی برائی یا گناہ کی وجہ پوچھ لیں وہ ہم کو صاف بتادیگا کہ اسکی ذمہ دار حکومت ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کے اکثر پڑھے لکھے لوگ انکے اس بے تکے بہانوں کو قبول بھی کر لیتے ہیں۔ اسکی وجہ میں یہ سمجھا ہوں کہ آج جب ہم کسی شخص یا کسی قوم کی حالت کو دیکھ کر اسکا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم یہ تجزیہ ایک غیر مسلم کے نقطہ نظراور انکے نظریات کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔

ہم پاکستانی بعد میں ہیں پہلے مسلمان ہیں، اپنی ہر پریشانی، ہر تکلیف، ہر دکھ اور ہر مسئلے پر تجزیہ کرنے کیلئیے کیا اسلام کی تعلیم ہمارے لئیے کافی نہیں ہے؟ کیا حالات کا جائزہ لینے کیلئے اسلامی نقطہ نظر کے علاوہ کوئی اور نقطہ نظر کی ہمیں ضرورت ہے؟ اگر ہم اپنے آپ کو زندہ قوم سمجھتے ہیں تو دن رات بری حکومت کا رونا چھوڑ کر ہم اپنی ان برائیوں کی نشاندہی کریں جن کی وجہ سے اللہ ہم سے ناراض ہے، اور انکو دور کرنے کی جتنی اللہ نے ہم کو صلاحیت دی ہے کوشش کی جائے۔ اگر ہم سے یہ نہیں ہو سکتا تو اسکا مطلب ہے کہ ہم ایک مردہ قوم ہیں۔

تحریر : فرخ عابدی